جدیدیت

جدیدیت) (modernismکا آغاز بطور ایک ادبی تحریک کے 1880ء سے ہوا۔ انگریزی میں پہلے ادیب جو جدید کہلائے وہ Thomas Hardy تھے۔ دیکھنا یہ ہے کہ Modernismنے کون سے ایسے نئے تنقیدی اصول وضع کئے جن کو جدید نقاد پرکھنے کے لئے yardstickکے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

دنیائے ادب میں ادبی تحریکیں انسان کو سوچنے کے لئے نئے موضوع دیتی رہتی ہیں۔ اگر ہم باریکی سے دیکھیں تو یہی ادبی تحریکیں بڑی سیاسی تبدیلیوں کی وجہ بھی بنیں اور نتیجہ بھی بنیں۔ سیاسی جدوجہد سے ہماری مراد وہ کوشش ہے جو انسان نے اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے کی ہے۔ انسان کی سیاسی جدوجہد کی ایک اپنی تاریخ ہے اور عظیم شاعر، فلسفی اور سائنسدان اس جدوجہد میں انسان کے ہمرکاب ہیں۔

ادبی تحریکیں انسان کو وہ شعور عطا کرتی ہیں جن سے وہ اپنے حقوق سے باخبر ہوتا ہے۔ ادبی تحریکوں نے انسان کو نئے رویے دیے، نئی بصیرتیں دیں، نئے سوچنے کے ڈھنگ دیے۔ ادبی تحریک اگر نئی بصیرتیں دے رہی ہے، دیکھنے کے لئے نئی آنکھ دے رہی ہے، سننے کے لئے نئے کان دے رہی ہے تو تحریک اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔

جدیدیت Modernismکی بنیاد جرمن فلاسفرٹئشے Neitzscheکے ایک مشہور قول کو ٹھہرایا گیا جس میں انہوں نے کہا حقائق ابھی تک نامعلوم ہیں اور چونکہ حقائق نامعلوم ہیں اس لئے انسان کے پاس صرف اندازے ہیں، قیاس آرائیاں ہیں۔ حقائق کو interpretکرنے کی کوشش ہے۔ جدیدیت نے اس بات پر زور دیا کہ حقائق کسی کے پاس نہیں ہیں، حقائق دائمی اور مستقل نہیں ہیں، یہاں تک کہ سائنس کے دریافت شدہ حقائق بھی نئے علم کی دریافت کے ساتھ ساتھ اپنی ہیت اور ساخت بدلتے رہتے ہیں۔ ایسی دنیا جہاں ہر روز حقائق، نئی شکل اختیار کر رہے ہیں، وہاں کوئی بھی تہذیب ٹھوس بنیادوں پر کھڑی نہیں ہو سکتی۔ تہذیبیں بھی درختوں کی طرح پرانے پتے گرانے پر مجبور ہیں۔ نئے حقائق کی روشنی میں نئی شاخیں نئے پتے اُگانے میں مصروف ہیں۔ اب تہذیبیں وہی پر بہار ہیں جو درختوں کی طرح ہر دم نئے پھول پتے نکالنے کی کوشش میں مصروف عمل ہیں۔

جدیدیت اور باقی ادبی ادوار میں فرق نمایاں ہے۔ باقی ادبی ادوار ایسی تہذیبوں کی نمائندہ ہیں جہاں چند ایک روایات حقائق کے نام پر مضبوط بنیادوں پر کھڑی تھیں۔لیکن انیسویں صدی کے آخر اور بیسیوں صدی کے آغاز میں ہی انسانی ذہن کو ایسے Challengesسے واسطہ پڑا کہ روایات پر مبنی حقائق اور اقدار کے بارے میں پھر سے سوچنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ پہلی جنگ عظیم نے اس تہذیب کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جو بزعم خود کچھ اقدار پر قائم کی گئی تھی۔ چونکہ جو تہذیبیں جنگ میں جھونک دیتی ہیں وہ تہذیبیں نہیں ہوتیں، وہ تہذیب کے نام پر لوٹ کھسوٹ کا نظام ہے، وہ استحصالی نظام ہے۔ لوٹ کھسوٹ کا نظام اپنی اقدار پیدا کرتا ہے۔ یہ اقدار انسان کو ناخوشی، اخلاقی تنزل، اور معاشی بدحالی دیتی ہیں۔ انسان کو صرف نفرت کرنا سکھاتی ہیں۔ یہ نفرت اپنے لئے، طبقاتی، مذہبی اور نسلی بنیادیں تراشتی ہے۔ یہی نفرت بالآخر جنگوں کو بھڑکاتی ہے۔ جنگوں کے نتائج بہت خوفناک ہیں۔ انسان کی بہترین صلاحیتیں انسان کی بدترین تباہی کے لئے پُرعمل ہوتی ہیں۔

جدید سوچ اس وقت پیدا ہوئی جب سائنس دانوں اور فنکاروں کی تخلیقی کاوشوں کا شعورمعاشرتی شکنجے سے رہا ہوا اور انسان کے تجربے سے پیدا ہوا۔چونکہ جدیدیت Modernismمیں یہ خیال بہت نمایاں ہوا کہ معاشرہ اخلاقی اقدار کا نمائندہ اور رہنما نہیں ہے بلکہ فرد اخلاقی اقدار کا خالق بھی ہے اور Custodianبھی ہے۔ چنانچہ جدید ادب میں انسانی ذہن کے تجربات کو اہمیت ملی، انسانی ذہن کو ترغیب دی گئی کہ وہ اپنے تجربات کو سنجیدگی سے محسوس کرے۔ اُن کی سچائی پر یقین کرے Stream of Consciousness ایک ادبی طرز تحریر بن کر نمایاں ہوئی۔ یہ ادبی اسلوب انسانی ذہن کو کسوٹی سمجھ کر ذہن سے گزرتے تجربات کو ریکارڈ کرنے لگا چونکہ یہ انسان ہی کا ذہن ہے، جو صرف تجربہ نہیں کرتا بلکہ اس تجربے کو ideasمیں تبدیل کرتا ہے۔ علامت میں تبدیل کرتا ہے، یہ تب ہی ممکن ہے جب انسان کا ذہن اپنے آپ کو معاشرتی اقدار سے رہا کرے۔

ذہنی فضا کا یہی دور ہے جب گوتم بدھ ایک عظیم فلاسفر کے طور پر سامنے آئے۔ چونکہ گوتم بدھ نے اپنی زندگی میں ان تمام اقدار کو تنقیدی نظر سے دیکھا جن پر ان کا ہمعصر معاشرہ کھڑا تھا۔ بادشاہت اور محل جس کے لئے انسانی تاریخ میں انسانی خون کے دریا بہائے گئے گوتم نے اپنے ذہن کی صلاحیت سے مسترد کر دئیے۔ گوتم کا خیال تھا کہ انسان کو بادشاہت جیسی گھٹیا قدر کے لئے زندگی ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ گوتم بدھ نے زندگی ایسے بسر کی جس میں نئی اقدار کی تلاش سب سے بڑی قدر تھی۔ گوتم نے اقدار کا کوئی نظام نہیں پیش کیا بلکہ ہر فرد کو کہا کہ اقدار کی تلاش ایک انفرادی عمل ہے۔ انسان کو اس کرہ ارض پر پیدا ہی اس لئے کیا گیا ہے کہ وہ ایسی روح رکھتا جو سدا متلاشی رہتی ہے اس لئے انسان اپنی تلاش کو جاری رکھے اور ہر لمحہ نئی حیرتوں کا تجربہ کرے۔ چونکہ شاید انسان ہی ایسی نوع ہے۔ جس میں حیران ہونے کی صلاحیت ہے۔ حیران ہونے کا شاندار تجربہ جاری رہنا چاہیے اور یہ تبھی ممکن ہے جب انسان نئی اقدار کو تراشتا رہے گا، نئے علم کی کھوج میں رہے گا، نئی سچائیوں کا متلاشی رہے گا۔

مائیکرو سکوپ(Microscope) اور ٹیلی سکوپ (Telescope) نے انسان کے لئے وسعتوں کی وہ اُفق کھولے کہ حیرتوں کے نہ ختم ہونے والے سلسلے شروع ہو گئے۔ آفاق اپنے دامن میں کتنی حیرتیں سمیٹے بیٹھے ہیں، ان کو جاننے کے لئے ان کو دریافت کرنے کے لئے بنی نوع انسان کو ابھی بہت کام کرنا ہے۔ بہت سی نئی دریافتیں کرنا ہیں۔ آج کے دور کے دِل و دماغ کو نئے سرے سے ایسی تربیت کرنا پڑے گی۔ اس تربیت کا پہلا سبق یہ ہے کہ انسانی معاملات میں حرف آخر کہیں نہیں بولا گیا ہے، نہ ہی لکھا گیا ہے اور نہ ہی سوچا گیا ہے۔

جدید بصیرت کا ایک اور پہلو eclecticismہے۔ ہمعصر دنیا کے آپس کے رابطوں میں حیرت انگیز تیزی آئی ہے۔ یہ رابطے ایک دوسرے کی تہذیبوں کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں، ایک دوسرے سے سیکھنے میں مدد دے رہے ہیں۔ ٹیکنالوجی کی ایجادات تمام دُنیا میں پلک جھپکتے ہی پھیل جاتی ہیں۔ ہر خاص و عام ان ایجادات کی مدد سے اپنی زندگی میں کچھ راحتیں لے آتا ہے۔ موبائل فون ہی کو لیجئے، ہر خاص و عام کے لئے رابطے آسان اور ممکن ہو گئے ہیں، ملکی اور غیر ملکی کاروبار میں آسانیاں اور اضافے ہوئے ہیں۔ اسی طرح خیالات اور تجربات بھی ایک دوسرے تک پہنچنے لگے۔

جدید ادب، فلاسفی اور سائنس نے انسانی ذہن کے ارتقاء کے لئے ضروری سمجھا کہ علم و دانش دُنیا میں خواہ کہیں بھی پروڈیوس (Produce) ہو رہی ہے، انسان کی مشترکہ میراث ہے۔ انسان کو ماضی کی تہذیبوں سے بھی سیکھنا اور ہمعصر تہذیبوں نے بھی بہت کچھ سکھانا ہے۔

بیسوی صدی کے دانشور گوتم بدھ سے بہت متاثر ہوئے۔ Aldous Huxley جیسا دانشور اور عالم کہ جس کے بارے میں لکھا جاتا ہے کہ وہ علم کا encyclopediaتھا۔ اس نے بھی اپنے آخری ناول Island کو utopiaکی فارم (form) میں لکھا۔ utopiaمیں مستقبل کے لئے ایک بہتر معاشرے کا تصور پیش کیا جاتا ہے۔ بہتر معاشرے کے لئے کچھ نئے اصول، نئے قوانین اور نئی اُمیدیں ترتیب دی جاتی ہیں۔ Huxleyنے اپنے اس آخری ناول میں جو معاشرہ پیش کیا وہ علم کی ہر شاخ سے مستفید ہورہا ہے۔گوتم بدھ کے خیالات کو بھی عمل میں لایا جا رہا ہے۔

بیسویں اور اکیسویں صدی میں انسانی ذہن نے جغرافیائی اور تاریخی سرحدوں سے آزاد ہو کر سوچنے کے ڈھنگ اپنائے۔ تہذیب کو پرکھنے کا معیار ان اقدار کو رکھا گیا جو انسان کی خوشی اور ترقی میں معاون و مدد گار ہیں۔ اگر languagesپسماندہ سوچ کو بڑھا رہی ہیں تو languagesکو دوبارہ ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ ان سے وہ لفط حذف کر دینے چاہییں جو انسان کے دُکھ میں اضافہ کرتے ہیں، جیسا کہ غیرت کا لفظ ہے، ذات پات کا لفظ ہے، بادشاہ کا لفظ ہے۔ یہ اور ان جیسے بہت سارے الفاظ ہیں جو انسان کے اُن تجربوں کو embody کرتے ہیں، جن سے انسان ذہنی طور پر نکل گیا ہے۔ تاریخ جو کہ بہت ساری سچائیوں کا قبرستان ہے۔ اس نے ان سب الفاظ اور ان سے متعلق ideasکو یہ کہہ کر غلط ثابت کیا ہے کہ یہ الفاظ انسان کے زمانہ جہالت اور بربریت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان الفاظ اور ان جیسے بہت سارے الفاظ کو لفظوں کے عجائب گھر میں رکھ دینا چاہیے۔

زبان انسان کی تخلیقی قوت میں اضافہ کرتی ہے لیکن یہی زبان اگر صرف پراپیگنڈے کا حصہ ہے تو اس کا نتیجہ باہمی فساد اور جنگ ہے۔آج کے دور میں فسادات اور جنگیں انسان کی تباہی کی چیز ہیں۔

Eclecticismکو جدید سوچ کا اس لئے حصہ بنایا گیا کہ انسان مذہب، نسل اور ذات پات کی بنیاد پر نفرتوں سے دور رہ کر ایک دوسرے کے مسائل کو حل کرنے کی باہمی کاوشوں کا حصہ بنے۔ ایک دوسرے سے سیکھے۔اس کرۂ ارض کو سب انسانوں کا گھر سمجھے اور اس پر بسنے والی زندگی کی ہر نوع کے ساتھ پُر امن طریقے سے رہ سکے۔ بیسویں اور اکیسویں صدی کے دانشوروں نے اُن لکیروں کو ختم کرنے کی کوشش کی جو انسان کو تقسیم کرکے اُن کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف نفرتیں بوتی ہیں۔ جدیدیت Modernismنے انسان کو نفرت نہ کرنے کا حق دیا اور سیلقہ سکھایا۔

ایک تبصرہ

  1. محمد زکریا خان

    بہت اعلی مضمون ہے

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*