غزل

روگ ایسے بھی غمِ یار سے لگ جاتے ہیں
در سے اُٹھتے ہیں تو دیوار سے لگ جاتے ہیں

عشق آغاز میں ہلکی سی خلش رکھتا ہے
بعد میں سینکڑوں آزار سے لگ جاتے ہیں

پہلے پہلے ہوس اک آدھ دکاں کھولتی ہے
پھر تو بازار کے بازار سے لگ جاتے ہیں

بے بسی بھی کبھی قربت کا سبب بنتی ہے
رو نہ پائیں تو گلے یار سے لگ جاتے ہیں

کترنیں غم کی جو گلیوں میں اُڑی پھرتی ہیں
گھر میں لے آؤ تو انبار سے لگ جاتے ہیں

داغ دامن کے ہوں، دل کے ہوں کہ چہرے کے فرازؔ
کچھ نشاں عمر کی رفتار سے لگ جاتے ہیں

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*