عارفہ نے مجھ
اگا ہے پیڑ نیا ایک خودکلامی کا
نموپذیر ہیں شاخیں بدن کو چیرتی ہیں
کٹار کونپلیں ہیں چھیدتی رگ وجاں کو
نہ کوئی دھن ہے نہ ہی ساز اور نہ آوازیں
بدن رکھیل ہے پوروں کا ناچ جاری ہے
گڑے ہیں پاوں مرے،ریت سے نکلتے نہیں
کسی بھی نیند کی ٹکیہ میں درد گھلتا نہیں
مجھے یہ ڈر ہے محبت سے میری بنتی نہیں
زمین لفظ اگاتی ہے،عشق جنتی نہیں!