تم کبھی بے بسی سے روئے ہو؟
تم نے برسات کی حسیں رُت میں
چھت کے گرنے کا خوف جھیلا ہے ؟
کیا کبھی دھوپ میں جھلسی ہے تمہاری رنگت
سخت سردی میں وہ لمحہ
کبھی گزرا تم پر؟
انگلیاں لگتا ہے جب ہاتھ سے جھڑ جائیں گی
چکھ کے دیکھا کبھی کیا ہوتا ہے گدلا پانی؟
رات کاٹی ہے بے چراغ کبھی؟
کیا کبھی نان ونمک کی خاطر
کنجِ شاداب چھوڑ آئے ہو؟
چکھ کے دیکھا کبھی زہر اب سے کڑوا لہجہ؟
جوکہ اکڑی ہوئی گردن سے ملا کرتا ہے
اپنے حق کے لیے
گرگ و سگ و اژدر کے ساتھ
ہاتھ خالی کبھی ٹکرائے ہو؟
تم نے دیکھی ہے فقط فاقہ کشوں کی صورت
بے گھری کو کوئی رومان بنا رکھا ہے
تم کہ احساس کی منڈی میں دکاں کرتے ہو
تم نے ہر خواب کا شوکیس سجا رکھا ہے
تم کہ تاجر ہو
فقط اپنا نفع جانتے ہو
اے مرے دکھ سے کھیلنے والے
اے مرے زخم بیچنے والے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے