لہوشمشیر پہ چمکا ، نہیں چمکا
وہ میرا مدعا سُن کر
ذرا سا مسکرایا
اور فرمایا، نہیں سمجھا
سو میں نے بھی
غنیمت جان کے
سارے پھپولے
داغ دل کے
جالے ، والے
اُس سے کہہ ڈالے
یہ ذائقہ کسیلا ہے
زباں پر آگئی نا تھر تھراہٹ
طبیعت میں حزیمت بھی
ہوئی محسوس
پھر آخر پہ طے پایا
اگرچہ
رات کا پچھلا پہر ہے
اور پوپھٹنے میں
ابھی کچھ وقت باقی ہے
مناسب تھا
میں اُس کے در سے اٹھ کر لوٹ آیا
انا بھی کوئی شے ہوتی ہے آخر
نیادن ہے پُرانے راستے پہ
اک نئی اُلجھن پڑی ہے
میں اکثر سوچتا ہوں
کیا میرے غم سے تری دنیا بڑی ہے
اسی اُلجھن میں کٹ جاتا ہے سارا دن
نجانے میرے بارے میں
وہ کیا کچھ سوچتا ہوگا
وہ میرا مدعا سُن کر
ذرا سا مسکرایا اور فرمایا
نہیں سمجھا۔۔۔!