دریا ہو کہ صحرا کوئی بن ہو کہ نگر میں
ان دیکھا کوئی رنگ مسلسل ہے سفر میں

ہر رنگ میں ہوتا ہے نئے رنگ کا پرتو
ہر چند کہ بے رنگ ہیں سب رنگ نظر میں

اک رنگ ہے جس رنگ کا چرچا نہیں ہوتا
حلقہ کیے بیٹھا ہے کہیں دیدہِ تر میں

بجھتے ہوئے رنگوں سے حزیں آنکھ کی مستی
لے جاتی ہے دل کو بھی کسی اور نگر میں

رنگوں کی زبانی ہے پسِ رنگ کہانی
معنی کی روانی بھی رواں رنگِ اثر میں

کیا رنگ کے تیور تھے خدایانِ سخن کے
دیکھے ہیں کفِ پا جو نشاں راہ گزر میں

برسیں گے ابھی اور بھی سو رنگ کے پتھر
گزرے گی دل و جان پہ کیا کیا نہ سفر میں

ڈھل جائے گی یہ رات بھی آخر تو کسی دن
دیکھیں گے کبھی رنگِ وفا رنگِ سحر میں

سب کچھ تو لٹایا ہے رہِ عشق میں عیسی
اک رنگِ جنوں ہے جو بچا ہے مرے سر میں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے