میں تمہارے ہونٹوں سے نظم چرانے کی خواہش رکھتا ہوں
مجھے یقین ہے
امرت کا رس یہیں سے کشید کیا گیا
اور کائنات کا تصرف
اِسی حْسن سے تخلیق ہوا
زوال کے وقت
تمہارا بالکنی پہ آنا ٹھیک نہیں
میں فرسودہ روایات کا قائل نہیں
مگر سورج تمہارا رنگ چرانے میں کامیاب ہوجائے گا
تمہارے دائیں گال پر کالا نشان
میں اپنی پوروں سے چھونا چاہتا ہوں
جس سے میری انگلیاں
سانس لینا سیکھ سکیں
شام سمَے
تمہارے جسم کی خوشبو
آسمان میں گھول دینا چاہتا ہوں
جہاں آواز بازگشت نہ کر سکے
یہ تمام باتیں فرض کی گئی تعبیر ہیں
راکھ ہوتی ہوئی زندگی کا
آسمان کی جانب سفر کرنا مشکل ہے
کہ زبان اپنے ذائقے سے
رات بھر دیکھے جانے والے خواب دہرا رہی ہے
میں سال کم ہوجانے کے دکھ میں
آنکھوں کو گالیاں دے رہا ہوں