کتاب : افلاس کا کارواں
مصنف : ڈاکٹر شاہ محمد مری
صفحا ت : 86
قیمت : 120 روپے
مبصر : عابدہ رحمان
بھوک ایک ایسا سفاک اور کرخت سچ کہ جب یہ لگتی ہے تو پھر کوئی فلسفہ ، کوئی تہذیب باقی نہیں رہتی۔پھر نہ کوئی غیرت اور نہ ہی کوئی عقیدہ باقی رہتا ہے۔یہ محبت ہی کی طرح آفاقی ہے کہ دنیا کے ہر انسان کو یکساں طور پر ہوتی ہے۔ غاروں سے لوگ نکل کر نام نہاد تہذیب یافتہ ہو گئے لیکن یہ کیسی تہذیب کہ جہاں آج بھی دنیا کے ہر کونے میں یہاں تک کہ تہذیب یافتہ ترین ممالک میں بھی انسان بھوک سے تڑپ رہا ہے۔ اور جب بھوک ختم کرنے میں کوئی نظام ناکام ہوتا ہے تو تب انسان بد تہذیب ہو جاتا ہے کہ وہ چھین کر ، جھپٹ کر ، لوٹ کر ، چوری کر کر اپنے پیٹ کا دوزخ بھرنے لگتا ہے۔ کون سا مہذب معاشرہ ۔۔۔؟ کہاں کی تہذیب۔۔۔؟!
بھوک کوئی حادثاتی طور پر نہیں آجاتی کہ اچانک کہیں سے ٹپک پڑی بلکہ یہ انسان کی لائی ہوئی ہے اور انسان ہی اسے ختم کر سکتا ہے۔ نظام ناکام ہو جائے تو پھر تو وہی بات ہوئی کہ؛
جو میرے گاؤں کے کھیتوں میں بھوک اگنے لگی
میرے کسانوں نے شہروں میں نوکری کر لی
ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب کا ’ افلاس کا کارواں ‘ ایسی ہی بھوک ، ایسے ہی نظام کی داستان ہے کہ جب غریب مزدور کی آنت میں بھوک کا شعلہ بھڑکا تو انھوں نے پڑوسی ملک میں مزدوری کے لیے رختِ سفر باندھا۔
نور محمد ترہ کی صاحب؛ ایک افغان کمیونسٹ سیاستدان جو 1978ء سے 1979ء تک افغانستان کا صدر رہا اور افغانستان ڈیموکریٹک پارٹی کے بانی ارکان میں سے تھا۔ثور انقلاب کا روحِ رواں اور بہت سی کتابوں کا مصنف تھا۔ ’ افلاس کا کارواں ‘ جس کا ترجمہ ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب نے بہت خوبصورتی سے کیا ہے ، انھی کے قلم سے نکلا ہوا درد ہے۔ ڈاکٹر صاحب اپنے پیش لفظ میں لکھتا ہے کہ ’ ’گندم کی روٹی کھانے کی خواہش بہت کمینی چیز ہوتی ہے ۔ چھوٹی، بڑی، پکڑی جانے والی، پکڑائی نہ دینے والی بے شمار کمینگیوں کو۔۔۔‘ ‘اور پھر وہ کہتے ہیں کہ ،’’بھوک سے بڑھ کر ذلیل کرنے والی طاقت اور کیا ہوگی‘‘۔
’ افلاس کا کارواں ‘ ، بھوک کے مارے لوگوں کی داستان؛ ناولٹ کی ابتدا تور کی گاؤں واپسی سے ہوتی ہے کہ جب وہ دو سال فوج میں جبری نوکری کر کے گاؤں لوٹتا ہے اور جس کے ننگے پاؤں زخموں سے لہو لہان ہوتے ہیں ۔اپنے گھر والوں ، اپنے پیاروں کی مفلسی دیکھ کر گاؤں کے بہت سے دوسرے جوانوں کے ساتھ ایک بار پھر قرآن کے سائے تلے گزر کر (کہ جس کا خراج وہ ملا کو دیتے ہیں ) قافلے کا حصہ بنتا ہے۔ننگے پاؤں ، ادھ ادھورے لباس میں سردی کے یخ بستہ تھپیڑوں کے راہی بن کر نکل پڑتے ہیں ۔
مزدوروں کا یہ قافلہ چند مٹھی آٹا ، تھوڑا سا خشک گوشت بطورِ زادِ سفر لے کر اپنے گدھوں پر قافلے کی گھنٹیوں کی جھنکار میں سفر کاآغاز کرتے ہیں۔ نقاہت زدہ یہ زرد چہرے اپنی بھوک ، اپنی غربت کو پسِ پشت ڈال کر اچھے مستقبل کی امید لیے ناچتے ، گاتے جگہ جگہ پڑاؤ ڈالتے چلتے چلے جاتے ہیں۔راستے کی صعوبتوں کے ساتھ ساتھ ان کا واسطہ مہا بھوکوں سے پڑتا ہے جو انھیں نہ صرف لوٹتے ہیں بلکہ ان میں سے بے شمار کو قتل کر دیتے ہیں لیکن قافلے کے مسافر دلوں سے اُٹھتی ہُوک کے منہ پر امید کا ہاتھ رکھ کر اک نئے ولولے کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھتے ہیں ۔لیکن یہ ایک عجیب بات ہے کہ غریبوں پر فطرت بھی مہربان نہیں ہوتی۔موسم بھی ان کے ساتھ ہاتھ کر جاتے ہیں۔شدید بارش اور پھر مسلسل برف باری پیٹ میں کھنکتی بھوک لیے اس لُٹے پُٹے قافلے کے دل ، دماغ اور بدن کو یوں شل کر دیتے ہیں کہ ان کے خیالات ، ان کے محسوسات، ان کی امیدیں تک منجمد ہو جاتی ہیں۔۔۔ برف ، قافلے کے بہت سے مسافروں کی قبر بن جاتی ہے۔
تور اور اس کے ساتھیوں کے ٹھنڈے گالوں پرآنسو لکیریں بنا کر بہہ جاتے ہیں ۔ موسم کی شدت، دوستوں کی جدائی کا غم ، اپنوں کی بے اعتنائی، بھوک کا آسیب ان کے دل ان کے وجود کے اندر کُنڈلی مار کر بیٹھ جاتے ہیں ۔لیکن پھر نئے اور اچھے مستقبل کی امید کے الاؤ سے خود کو گرم کرتے ہوئے قافلہ پھر چل پڑتا ہے۔ ایک جگہ پڑاؤ ڈالا جاتا ہے ۔ آنتوں کی بھوک کا سامان کرنے کو آگ دہکائی جاتی ہے۔ تب پاس کے گاؤں میں کسی اخونزادہ مبارک کا پتہ چلتا ہے کہ جس کی دعا سے آدمی کی دنیا کی کایا کلپ ہو جاتی ہے۔ تور اپنے ساتھی نک کٹے کے ساتھ مبارک کے دیدار کے لیے گاؤں کی گلیوں کی خاک چھاننے لگتے ہیں ۔ اپنے حالات سنوارنے کی امید لیے مریدوں میں وہ چرخہ کاتنے والی عورت بھی ہوتی ہے جو اپنی مشقت کی قیمت مبارک کے قدموں پر نچھاور کرنے بیٹھی ہوتی ہے۔ لیکن محنت کشوں اور مزدوروں کی پیٹھ پر سوار ، اس دھرتی کا بوجھ ، خدا کے برگزیدہ مبارک کے در سے پھٹی پرانی پگڑیاں اور کپڑے پہنے ان مزدوروں کو دھتکار دیا جاتا ہے کہ وہ تہی داماں ہوس کے دامن کو بھرنے سے قاصر جو تھے۔
تور اور اس کا ساتھی قافلے سے واپس آملتے ہیں ۔سفر پھر شروع ہوتا ہے اور پھر ایک رہبر کی رہبری کے باعث ڈاکوؤں کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں ۔ تور کے اس سوال سے دل کٹ جاتا ہے ’ تم ہمارے رہبر نہ تھے کیا ؟‘ لیکن اسے کیا پتہ کہ جہاں بھوک کا گدھ چاروں طرف اڑان بھرتا ہو ۔ جہاں ہم سفر بھی بھوکا، رہبر بھی بھوکا، لٹیرا بھی بھوکا وہاں کہا ں کا دوست ؟ کہاں رہبر اور کہاں کی رہبری؟ زمانہ جو شہیدوں کے جمع کرنے کا ہے ۔ اپنے دن پھیرنے کو مسافری کا بوجھ لے کر گھروں سے نکلنے والوں کو کہا جاتا ہے ’ یہ لوگ خوش قسمت ہیں کہ انھیں شہادت کی موت نصیب ہوئی ہے‘۔
بھوک پیاس، سفر کی تکلیفوں اور ساتھیوں کے بچھڑنے کے غم سے چُور بچا کھچا لُٹا پُٹا قافلہ بالآخر پڑوسی ملک پہنچتا ہے ۔ خیرات کرنے کی حسرت لیے تور کو لنگری کا زبردست جواب ہوتا ہے کہ خیراتیں تو وہ لوگ کریں جن کے نہ پاؤں زخمی ہوں نہ لٹے ہوں اور جن کے گھر آٹے اور گھی سے بھرے ہوں ۔ ہمیں خیرات خود پر کرنی چاہیے ۔ اپنے آپ کو خیرات دو ۔ کھا لو۔
کوئٹہ اور پھر سبی میں تور اور اس کے ساتھیوں کو ایک اور طرح کے استحصال سے واسطہ پڑتا ہے ۔ ٹھیکیدار بلامعاوضہ مشقت کروا کر مارتا پیٹتا بھی ہے جہاں سے تور بھاگ جاتا ہے اور پھر نالوں کی صفائی کی مزدور ی کر کے پیسے بچاتا ہے اور رات کا کھانا گاؤں والوں سے مانگتا ہے۔ طویل مسافری کے بعد جمع پونجی لے کر وطن روانہ ہوتا ہے لیکن راستے میں ایک بار پھر لُٹ لُٹا کر مسافری کی قیمت ڈاکو لے اڑتے ہیں ۔ مسافری کی زرد رنگت اس کے وجود کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ خون کی جگہ درد اس کی رگوں میں گردش کرتا ہے ۔ غم اور تھکاوٹ میں چور ، خوش حالی کی امید کا چراغ گل ہوتا ہے ۔ وہ مسجد میں آنکھیں موند لیتے ہیں کہ ایک طالب کی آواز سے ہڑ بڑا اٹھتا ہے ’ خدا تم دولت پرستوں کو خوار کرے۔ خدا کا فرض تمھیں بھول گیا ۔ اٹھو بد بختو اگلے جہاں میں خدا کو کیا جواب دوگے ۔۔۔؟!‘
قافلے ریت ہوئے دشتِ جنوں میں کتنے
پھر بھی آوارہ مزاجوں کا سفر جاری ہے
پتہ نہیں اس ناولٹ کو خوبصورت کہا جائے گا کہ نہیں کہ اس کو پڑھتے ہوئے دل و روح ایک عجیب طرح کی تکلیف میں گھرے رہتے ہیں اور شاید یہی سچی محسوسات، یہی درد اس کے کامیاب ناولٹ ہونے کی دلیل ہے۔