کانفرنس کے دوسرے روزپروفیسر ڈاکٹر انوار احمد سے ملاقات ہوئی ۔میں اس آدمی سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتاہوں۔ اُس میں کوئی مقناطیسیت ہے جو مجھے کھینچتی ہے ۔ اس نے ساری زندگی علم اور آگاہی پھیلانے کی محنت میں گزار دی ۔ مگر اس سے بڑا کمال یہ کیا کہ اس محنت کے پھل سے رابطہ برقرار رکھا۔ اُس نے اپنے سابقہ طالب علموں کو ایک طرح سے اپنے ساتھ باندھ رکھا ہے ۔وہ نہ صرف اُن کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ، ان کی مدد کرتا ہے ،بلکہ وہ علمی ادبی کاموں میں خود اُن سے بھر پور مدد بھی لیتا ہے ۔مردم شناس ہونا نہ ہونا ایسے لوگوں کا مسئلہ کبھی رہتا ہی نہیں، اس لیے اس نے اس طرف کبھی توجہ نہ کی۔ اس کا اصول یہ رہا کہ : کام کیے جاؤ کھرے کھوٹے کی تمیز کیے بغیر۔ انوار نے زندگی بھر یہی کیا۔ اس نے سینکڑوں روشن فکر اور وسیع القلب لوگ پیدا کیے ۔ کچے ، نیم پکے اور پکے ۔
اپنی اچھائی کا اُس کو دنیاوی اجر بھی ملا۔ اسے ایک وسیع حلقے کی توصیف اور احترام میسر ہے ۔ وہ اپنے احباب ، اپنے سینٹرز اور اپنے شاگردوں کو اپنے میٹھے فقروں سے جوڑ کے رکھتا ہے ۔
مجھے یقین ہے کہ وہ جب ’’وہاں ‘‘جائے گا تب بھی خوش گپیوں سے اپنے ہم نشینوں کا دل بہلا تا رہے گا۔
یہیں کانفرنس میں محترمہ رخسانہ فیض سے ملاقات ہوئی۔ رخسانہ فیض اردو میں ایم فل کرچکی ہے ۔ ایک بلوچ کے بقول’’دیم کتاب‘‘ اور ایک اردو والے کے بقول ’’کتاب چہرہ ‘‘(فیس بک) پہ ہماری دوست تھیں۔ شائستہ شُستہ انسان۔ کانفرنس کی گہما گہمی میں باالمشا فہ سلام دعا ہوئی۔ حکمران بے بس، تو ہم حکمرانوں کے حکمران سے اُس کے روز گار کا بندوبست کرنے کی دعا کرتے ہیں۔
متوازی حالوں میں مقالے جاری رہے ۔’’ گلوبلائزیشن اور اس کے اثرات ‘‘کے ہر پہلو پر پُر مغز باتیں چلتی رہیں۔ ہم دن کا پہلا حصہ دانشوروں کی محنت سے تیار کردہ مقالے سنتے رہے۔
پہلی دفعہ ایسا ہوا کہ اندرون پنجاب میں ’’زبان ‘‘اور ’’ثقافت‘‘ کی نہیں بلکہ ’’زبانوں ‘‘اور ’’ثقافتوں ‘‘کی بات ہورہی تھی۔کیا بتاؤں اس ’’واحد کے صیغے کو ’’جمع ‘‘ کے صیغے میں بدلنے کے لیے انسانوں نے کیا کیا قربانیاں دیں؟۔قلی کیمپ ،اور شاہی قلعہ کی کال کو ٹھڑیوں نے تشدد کے کتنے لررا دینے والے واقعات دیکھے؟۔اور مچ، حیدرآباد ، ساہیوال ، اور میانوالی جیلوں نے سینکڑوں ہزاروں آرزؤں تمناؤں کی جوانیوں کو ادھڑتے دیکھا ہے۔
اسی شہر میں اسی ذہنیت کو تبدیل کرنے کی کوشش کے جرم میں میرا نوشکی والا مینگل بزرگ جیل میں سڑتا رہا۔ اور آج اُسی کاروحانی بیٹا اس شہر کے جیل میں نہیں یہاں کے دانشوروں میں کھڑا تھا۔ باتیں وہی کر رہا تھا جواُس کا بزرگ پچاس برس پہلے کرتا تھا۔ مگر تب ون یونٹ تھا آج ون یونٹ کی لاش پر ثقافتوں کی بات ہورہی تھی۔۔۔ اعلانیہ ، برملا!۔ میں اُسے یاد کررہا تھا لیکن اُس سے زیادہ اس کے موقف کی سچائی کو یاد کر رہا تھا۔ سٹیج پر بھی، چائے کے کپ پر بھی، اور ڈسکشن کی نشستوں پہ بھی۔
نہ صرف موضوعاتی اعتبار سے یہ کانفرنس اہم تھی بلکہ پیش کیے گئے مقالہ جات کے مندرجات بھی اس کی قدروقیمت میں اضافہ ثابت ہوئے۔واضح رہے کہ اس کانفرنس میں نوجوان سکالرز کی بڑی تعداد کو اپنا نقطہِ نظر پیش کرنے کا بھرپور موقع دیا گیا۔پاکستانی زبانیں اور عالمگیریت جیسا وسیع موضوع سینئر ادباء و دانشوروں کی سیر حاصل گفتگوایک علمی غذا فراہم کرتی رہی۔ عمدہ حسنِ انتظام نے اس کانفرنس کو یادگار بنا دیا۔
ساہیوال میں بہت بڑی بلوچ آبادی بستی ہے ۔ گاؤں کے گاؤں ، علاقوں کے علاقے بلوچوں کے ہیں۔ محنت کش، پیداوار کرنے والے اور سچے ستھرے بلوچ۔ہاں مگر،وہاں کی اِس بہت بڑی بلوچ آبادی کو بلوچی نہیں آتی ۔ یہ لوگ بلوچستان کے جغرافیائی علاقوں کی تفصیل نہیں جانتے ، انہیں بلوچ عوام کے ہیروؤں کے بارے میں معلومات نہیں ہیں۔ وہ بلوچ عمومی سیاست کے بارے میں باخبر نہیں ہیں۔ بس اُن میں ایک بڑی بات ہے :ان کا Source of Inspiration بلوچستان ہے ۔انہیں اپنے بلوچ ہونے پہ ناز ہے ۔ وہ لوگ بلوچ جمہوری جدوجہد کے قدر دان ہیں۔ انہیں بزنجو کا احترام ہے ۔ اسی لیے میں ان کا معزز مہمان تھا۔ بزنجو کے وطن سے جو آیا تھا ،ان کے ’’ہولی لینڈ‘‘ سے جو آیا ہوا تھا۔کانفرنس میں دانشور لوگ سنگت اکیڈمی آف سائنسز ، سنڈے پارٹی، پوہ زانت کے بارے میں دلچسپی سے پوچھتے رہے۔
گلوبلائیزیشن پر زیادہ تر بات ہوئی۔ مجھے لگا کہ وہ ہماری بہ نسبت گلوبلائزیشن سے زیادہ خوفزدہ تھے ۔
سہ پہر چائے کے وقفہ کے بعد اختتامی نشست کا انعقاد ہوا جس کی صدارت ڈاکٹرا نوار احمد نے کی جبکہ صدارتی پینل کے شرکاء نے بطور مہمانان خصوصی شرکت کی۔ ڈائریکٹر ساہیوال آرٹس کونسل ڈاکٹر ریاض ہمدانی نے اظہار تشکر پیش کیا جبکہ نظامت حنا جمشید نے کی۔
یہ کانفرنس کاآخری سیشن تھا اور بلوچستان کا ہمارا دوست بولنے آیا۔ اس نے آرگنائزرز بالخصوص ہمدانی صاحب کو مبارک باد اور اس کا شکریہ یہ کہہ کر اداکیا کہ ہم سب مطمئن ہیں کہ ایک بہت اچھی علمی فکری کانفرنس منعقد ہوتی۔
اس نے اہل ساہیوال کی وجہِ شہرت ہڑپہ کے علاوہ ایک اور بات کو بھی قرار دیا۔ اُس کا کہنا تھا کہ وقت ناپنے کا یونٹ سیکنڈ ہے ۔ وزن کا گرام ہے،اور فاصلے کے لیے کلومیٹر ہے ۔ مگر ایمان ناپنے،عوام اور نظریات سے وفا ،اور کمٹ منٹ ناپنے کا جو میٹر اور آلہ ہے وہ یہاں ساہیوال میں موجود ہے ۔اوراِس آلے سے وہی انسان خود کو تلوانے آتا ہے جو اُس کا اہل ہوتا ہے ہر ایرے غیرے میں یہ سکت موجود نہیں ہوتی۔اس آلہ ، اس میٹر کا نام ہے :’’ساہیوال جیل ‘‘ ۔ جہاں میر گل خان نصیر، شیخ ایاز، حسین نقی، اورجواہر لال نہرو جیسے شیر ببر صبح شام فراق ، تنہائی اور وطن اور قریبی محبوب لوگوں کی جدائی میں ایڑیاں رگڑتے رہے مگر عوام کے ساتھ وفا کے اپنے پیمان سے ایک انچ بھی نہ ہٹے ۔
چائے اور کھانے کے پر تکلف وقفہ کے بعد گجرات کے سے تعلق رکھنے والے بڑے دانشور اور شاعر انور مسعود (پیدائش 8نومبر1935)کے ساتھ خوبصورت شام منائی گئی۔ یہ شخص مزاحیہ شاعری میں سماجی خرابیوں کو بیان کرتا ہے۔ اس کی شاعری میں سماجی نا انصافیوں کی بات ہوتی ہے ، امتیازات کا تذکرہ ہوتا ہے اور عام آدمی کی زندگی کی گری ہوئی سطح کے تذکرے ہوتے ہیں۔ یوں وہ مزاح مزاح میں ٹریجڈی بول رہا ہوتا ہے۔
اس کی شاعری کا زیادہ حصہ پنجابی میں ہے ۔ جس میں وہ دیہی الفاظ ،استعارے اور علامات استعمال کرتا ہے ۔یوں وہ پنجابی کلچر کا سمجھو ایک نمائندہ ہے ۔ اس لیے عوام میں مقبول ہے۔ وہ اردو اور فارسی میں بھی شعر لکھتا ہے( وہ فارسی ایم اے میں گولڈ میڈلسٹ ہے ۔) ۔ بحیثیت ٹیچر وہ بہت مقبول رہا ۔ اس کا بڑا حلقہ ہے ۔
سماجی برائیوں کا حل کیا ہے ، یہ یا تو اُس کا دردِ سر نہیں ہے یا پھر وہی ،جو حل ہے ہی نہیں۔ وہ اُس حل کے لیے کوئی خاص ترغیب بھی نہیں دیتا ۔ پاپولسٹ دانشور اپنی بات کم ، اور عام آدمی کا ذہن زیادہ بولتا ہے ۔ اسے پتہ ہے کہ عوام نعرے ، ہنسی مذاق اور غم غلطی چاہتے ہیں ۔ چنانچہ وہ وہی کرتا ہے۔ وہ صوفی گیری کی چاشنی بھی اپنی شاعری میں ڈال لیتا ہے ۔ کبھی کبھی تو مولوی کا رول بھی ادا کرتا ہے ۔ چنانچہ مغرب مخالفت اور ٹکنالوجی مخالفت کا مکسچر بنا کر کامیابی سے بیچ لیتا ہے ۔یعنی سماجی مروج میں ایسی لیپا پوتی جو اس میں بنیادی تبدیلی نہ لائے ۔ بس جو ’’ سٹیٹس کو‘‘ کی مرضی کا ہو۔
اس کو اپنا کلام تقریباً زبانی یاد ہے ۔ محفل خواہ بہت بد نظم قسم کی ہو، وہ اسے قابو کر رہی لیتا ہے ۔اُس میں، اور دوسرے مزاح نگاروں میں یہ فرق ہے کہ یہ شخص ذرا ایجوکیٹڈ بات کرتا ہے ، ذرا مہذب انداز اپناتا ہے، اور مڈل اور اپرمڈل کلاس کو یکساں پسند ہے ۔
اُس نے اس شام اپنے سولو پر فارمنس میں پرانی نئی شاعری خوب سنائی ۔ کمشنر ، ڈی ایس پی اور اشرافیہ اگلی نشستوں پہ اور درمیانہ طبقے بقیہ جگہ گھیرے ہوئے تھے ۔ اپنی شاعری سے ڈیڑھ گھنٹہ ایک مجمع کو قابو کیے رکھنا بڑی بات ہے۔ اور وہ بھی ایسے میں جب شاعر، مایا کوفسکی نہ ہو۔
رات گئے عالمی شہرت یافتہ گلوکارہ منّی بیگم نے اپنی آواز کا جادو جگایا تو دن بھر کی تھکان ختم ہو گئی۔ اس نے ایک سے بڑھ کر ایک غزل خوبصورت دھنوں کے ساتھ اپنی سحر انگیز آواز میں پیش کیں۔ طبلہ نواز محمد آصف کے فن کا جادو بھی سر چڑھ کر بولا۔
اس طرح یہ کانفرنس بہت بھرپور رہی اور خوشگوار لمحات ہمارے دامن میں بھر کراختتام کو پہنچی۔میزبان ڈاکٹر ریاض ہمدانی کی انتظامی صلاحیتوں کی داد نہ دینا بد دیانتی ہو گی کہ انہوں نے کمال خوبصورتی سے نہ صرف مہمان نوازی کی بلکہ تمام سیشنز کو خوش اسلوبی سے مکمل کیا۔
***
دو روزہ کانفرنس کے بعد ہمیں ہڑپہ لے جایا گیا ۔محبی ذکریا خان نے ہمیں ہانک کر ایک کارموٹر میں بٹھایا ۔ یہ کار محترمہ حنا جمشید کی تھی۔بے شمار دیگر بچے بچیوں کی طرح اِس خام ذہن وشعور کو بھی انوار احمد نے ذکر یا یونیورسٹی کے اردو ڈیپارٹمنٹ کے مردم ساز قالب میں ڈھالے رکھا ۔ اور پالش کرنے کے بعداُسے واپس ساہیوال کی شخصیت سازی کی فیکٹری میں نصب کردیاتھا۔
حنا سے یہیں اس دو روزہ ادبی ثقافتی کانفرنس میں ملاقات ہوئی ۔ ایک ہی ہال میں مقالے سنتے ہوئے یا چائے کھانے کے دوران وقفوں وقفوں میں ہیلوہائے ہوتی رہی۔ اور پھر اس کا اپنا مقالہ اچھا اور فکری اعتبار سے درست تجزیے پر مشتمل تھا۔ کم از کم دو تین بار تالیاں بجوانے میں پہل میری ہی تالی نے کی ہوگی۔ اور پھر ایک پورا دن اوکاڑہ اور ست گڑھ تک وہ ساتھ رہی، کار موٹر بھی اُسی کی تھی، ڈرائیور بھی اُسی کا۔
اُس کے ڈرائیور کا نام خرم علی خان ہے ۔ نگہدا شت شدہ داڑھی والا یہ ڈرائیور دو بچیوں کا باپ ہے ۔ خنسا اور اُنیسہ ۔ اُن بچیوں کی ماں کا نام حنا جمشید ہے۔
خرم علی خان ساہیوال کا پنجابی بولنے والا پٹھان ہے ، وکیل ہے ۔ ٹھیک یاد نہیں ، مگر لگتا ہے میں نے اُسے کان میں بتایا تھا کہ ایسی خوبصورت ، رکھ رکھاؤ والی اور باصلاحیت بیوی ملنے پر دن میں تین بار اپنے مرشد کو سلام کیا کرے۔ نرم گفتار، نرم نگاہ ، اور حلیم لڑکی نما خاتون ۔ دوپٹوں شالوں میں لپٹی سکالر۔ البتہ یہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ خرم کی تعریف میں نے تعارف کے وقت ہی کردی تھی ، جب حنا خود پہلی بار مجھ سے متعارف ہوئی۔ میں نے خرم کا ہاتھ پکڑے اوپر سے نیچے تک جائزہ لیا اورحنا سے کہہ دیا:’’ ٹھیک تو ہے!۔ تمہارے شایانِ شان!‘‘ ۔ اچھا ، خاموش طبع، ادب نواز ۔ وکیل ہوتے ہوئے پیار کا بھوکا اور بہ یک وقت پیار برآمد کرنے والا۔ اُس کی صورت میں حنا کو اچھا شوہر، ہم کارو ہم فکر ساتھی میسر ہے ۔ خانوادہ سلامت رہے۔
حنا جمشید رِند بلوچ ہے ۔ ایسی بلوچ جس کی مادری زبان پنجابی ہے اور رہن سہن اور ثقافت سارا ساہیوالانہ پنجابی ۔عرصہ سے ماہنامہ سنگت پڑھتی ہے ۔ یوں روبرو ملاقات سے بہت قبل ہم ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔
معلوم نہیں اُس کے والدین نے ایسا ہی پلان کیا تھا یا نہیں، مگر اب حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک باوقار استانی ، یعنی اسسٹنٹ پروفیسر ہے ۔ حنا ساہیوال ڈویژن کے وسط میں گڑھی ہوئی خرد افروزی اور روشن فکری کی وہ کھمبا ہے جو ملتان ، ساہیوال ، فیصل آباد اور لاہور کے بیچ موجود فکری نیٹ ورک کا نقطہِ اتصال ہے ،علاقے کے سارے سکالر ز کے لیے فیصل آبادی چوک گھنٹہ گھرہے !
ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ساہیوال اور اوکاڑہ تو چاکر رند کی وجہ سے مشہور ہیں مگر رند آپ کو وہاں ایک بھی نظر نہیں آئے گا ۔وہاں کے بلوچوں کی بہت بڑی آبادی رند کی نہیں لاشاریوں کی ہے ۔یہ بہت تعجب کی بات ہے ۔ حیرانگی اس بات پہ کہ لاشاری اگر پہلے سے وہاں آباد تھے تو اُن کا دشمن چاکر وہاں کیسے گیا۔ اور یہ تو ممکن ہی نہیں کہ وہ چاکر کے ہمراہ وہاں گئے ہوں اس لیے کہ چاکر کی بربادی اسی لاشار سے جنگ کی وجہ سے تو ہوئی تھی۔ ممکن ہے کہ لاشاری چاکر کی موت کے بعد وہاں جاکر آباد ہوئے ہوں۔
یہاں کئی گاؤں ہیں لاشاریوں کے۔ سب پنجابی مادری زبان وثقافت والے ۔ بلوچستان سے تو ایک روحانی پختہ پرکشش رشتہ ہے اُن سب کا۔
ا س خاتون نے 2006 میں زکریا یونیورسٹی سے ایم اے اردو کیا ، دوسری پوزیشن لے کر۔ وہ 2009میں لیکچرر بنی۔ پانچ سال بعد 2014میں ایم فل کیا۔ اب یہ اسسٹنٹ پروفیسر پی ایچ ڈی کر رہی ہے انوار احمد کی یونیورسٹی سے ۔ (میرا کوئی ہم خیال مستقبل قریب میں اگر ملک کا بادشاہ بنا، جس کے امکانات صفر ہیں، تو اس سے ایک یونیورسٹی بنوادوں گا: انوار احمد یونیورسٹی )۔
حنا جمشید کی خاطر اب مجھے شبنم شکیل کو دوبارہ اور غور سے پڑھنا پڑے گا۔ اُس نے اس پہ پوری کتاب لکھ ڈالی: شبنم شکیل کی تخلیقی وفکری کائنات۔وہ افسانہ نگار ہے ۔اس کے علاوہ بچوں کے ادب پر بھی کام کر رہی ہے۔
سارا راستہ سرسبز تھا۔ہر جگہ فصل کی بہار تھی۔ درخت ہوا کی لوریوں میں جھوم رہے تھے ۔ مگر میز بانوں نے بتایا کہ زراعت سمجھو ونٹی لیٹر پر ہے ۔ کسان اور چھوٹا کا شتکار افلاس کے دھانے پہ ہے ۔ کھاد اور کرم کش ادویات کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ بجلی اور ڈیزل کے اخراجات پہنچ سے باہر ہیں۔ اوپر سے پیداوار کی قیمتِ فروخت نچلی ترین سطح پر ہے ۔ حکمران انہی کسانوں کے ووٹ ہتھیا کر وزیر مشیر بن جاتے ہیں مگر فیوڈلزم جوں کا توں قائم ہے ۔ کسان کسی امید کے بغیر زندگانی کو گھسیٹے جارہا ہے ۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے