سائنس دان بالخصوص فزکس کے سائنس دان(فزِسسٹ) مائتھالوجی کے گہرے دوست ہوتے ہیں۔
مائتھالوجی انسان کی طرف سے پہلے پہل تو شعر یا پھر کہانی کی صورت میں زمینی حقائق و خواہشات کا آسمانی اظہار ہوتے ہیں۔ جن زمینی باتوں کو انسان خود حل کرنے کے قابل نہیں ہوتاتو وہ انہیں کسی ہیرو ، یاکسی ماورائی قوت کے ذریعے حل کرانے کی کہانی بناڈالتا۔ یہ کہانی دراصل اس کی تشنہ خواہش کی عکاس ہوتی تھی۔ اور یہ واقعا ت ہمیشہ زمین سے ، زمینی دنیا سے اور انسانی سماج سے باہر آسمانوں میں بتائے جاتے ہیں ۔ اُن کے کردار بھی دیو، جن، پری ، اژدھا اور اسی طرح کے زور، آور صلاحیتوں سے بھری فرضی مخلوقات سے لیے جاتے تھے۔ یہ پہلے پہل تو شعر یا پھر کہانی کی صورت میں خوبصورت ادبی شاہکار بن جاتی تھیں اور کبھی کبھی آگے چل کر ایک مکمل مذہب کاروپ اختیار کرجاتی تھیں۔چنانچہ آج تک کی انسانی تاریخ میں مائتھالوجی ادب ، سائنس اور سماج میں ایک فیصلہ کن کردار ادا کرتی آئی ہے ۔
فزسسٹ اعلیٰ انسانی تخیل کی اِن پروازوں کا مطالعہ کرتے ہیں ۔ایک طرف تو وہ اس کے عقلی حصے کو سائنس فکشن قرار دے کر اُن سے خوب خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ مگر دوسری طرف مائتھالوجی کے سائنس سے تعلق نہ رکھنے والے اجزا کو مستردکرتے ہیں اور،بلکہ انہیں رد کرتے رہنے کو اپنا نصب العین بنا لیتے ہیں۔
مائتھالوجی کا میدان چونکہ زمین سے اوپر آسمان ہوتا ہے اس لیے اِس سارے مضمون کو بلوچی میں آزمانِک(آسمانِک) کہتے ہیں۔(مائتھالوجی کا بلوچی ترجمہ: آزمانِک) ۔ وہی آزمانِک جو رات کو سوتے وقت گھرانے کے بچے اپنے بزرگوں سے سنتے سنتے بڑے ہوجاتے ہیں۔
سٹیفین ہاکنگ نے بھی دوسرے سائنس دانوں کی طرح مائتھالوجی سے دوستی کرلی۔ اور ساتھ ہی، اس نے بھی پہلا کلہاڑا مارا ہی اُس کے آئیڈیلزم کے پہلو کو ۔اس نے پہلے سے دریافت شدہ اس سائنس کا دوبارہ اعادہ کیا کہ آسمان کا تووجود ہی نہیں ہے۔ لہذا آزمانِک والے قصے بھی زمینی ہی ہیں۔
سٹیفن ہاکنگ کا شعبہ ہی cosmologyتھا۔ یعنی کاسموس کا علم ۔
برطانیہ کے اس نامور سائنس دان اور سائنس نے آپس میں بہت زبردست تعلقات بنائے رکھے ۔ وہ دونوں ایک دوسرے کو ہر گھڑی تعاون وتکمل عطا کرتے رہے۔ میرا یہ عمومی فقرہ یوں توہر سائنس دان پر لا گو ہوتا ہے مگر ہاکنگ کے بارے میں تو سائنس کا یہ ساتھ حتمی ، مکمل اور بھر پور رہا ہے ۔
سٹیفن ہاکنگ 21سال کا تھا جب وہ ایک منحوس بیماری کا شکار ہوا۔ اب تک کی تحقیق کے مطابق یہ (موٹر نیوران ڈزیز) تشخیص کے ایک دوسال کے اندر اندر مریض کو مار دیتی ہے ۔ یہ مرض جسم کو مفلوج کرتا جاتا ہے ۔ چلنے ، گانے ، بولنے ، اٹھنے بیٹھے کی صلاحتیں ایک ایک کر کے ختم ہوتی ہیں۔چنانچہ بھر پور جوانی ہی سے اِس سائنس دان کے روز مرہ میں بیماری، موت ، قبل از موت ،اور بعد از موت جیسے فلاسفیکل معاملات ہمہ وقتی معاملات بن گئے۔ موت سے خوفناک چیز دنیا میں نہیں ۔ موت اس قدر دہشت طاری کرتی ہے کہ وہ ایک عمومی بزدلی پیدا کرتی ہے ۔مگراس بہادر آدمی نے کبھی بھی خود پہ موت کو مسلط نہ کیا۔ اس نے ترکِ دنیا نہ کی اور نہ ہی خود کو موت میں غرق کردیا۔ اُس نے تو بلکہ سب کے سامنے اس مظہر یعنی موت کے بارے میں سوالات کے انبار رکھ دیے۔ اُس کا بڑا کمال یہ ہے کہ اُس نے خود کو پادری ، پیر،اور حکیم کے سامنے نہیں پھینکا۔ موت اُس کے لیے خوف نہ رہا۔ وہ اُس کے سامنے آنکھیں ملائے کھڑا ہوگیا۔
سٹیفن ہاکنگ فزکس او راُس کے قوانین کو آسان ، عام فہم اور مقبول بنانے کا سمجھو ایجنٹ بن گیا۔ وہ سائنس کے جدلیاتی قوانین کو حتمی قرار دیتا تھا اور اُن میں تغیر وتبدل کا اختیار سوائے سائنس کے کسی قوت کو نہیں دیتا تھا۔
وہ2009میں سخت بیمار ہوا تھا۔ اور اُس وقت سے لے کراپنی موت (1918) تک اپنے کیمبرج ڈیپارٹمنٹ میں ڈائریکٹر ریسرچ کے بطور کام کرتا رہا۔
ہاکنگ سے ہمارا تعارف پہلی بار تو اُس کی شہرہِ آفاق کتاب’’ اے بریف ہسٹری آف ٹائم‘‘ سے ہواتھا۔ اور جب بھی بات ٹائم کی ہو تو سپیس کا لفظ سمجھو اُس کا جڑواں بھائی ہے ۔ پورا آئن سٹائنی فلسفہ نگاہوں کے سامنے گھومنے لگتا ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ میری طرح کئی لوگ اُس کتاب کو پہلی پڑھائی میں نہ سمجھ پائے ہوں گے ۔ کروڑوں کی تعداد میں بکنے والی اس کتاب کو مکمل طور پر گرفت میں لینے کے لیے ہم جیسوں کو دو دو تین تین بار اس کی دوہرائی کرنی پڑی تھی۔
مگر، یہ بھی سوچیے کہ جب فزکس کی ایک کتاب کروڑوں کی تعداد میں چھپے اور بکے تو اِس شخص نے سائنس کو کس قدر عام فہم بنایا ہوگا۔ یہ آدمی بلاشبہ سائنس کو مقبول بنانے کے لیے گرانقدر خدمت سرانجام دے گیا۔اور یہ تو ہم سب جانتے ہی ہیں کہ سائنس جیسا مشکل موضوع مقبول بنتا ہی نہیں جب تک آپ اُسے آسان اور دلچسپ نہیں بناتے۔ ہاکنگ نے کاسموس جیسے دیومائی موضوع کو خالص سائنس کے نقطہ نظر سے عام انسان کی ذہنی رسائی تک آسان بناکے پیش کیا ۔کارل ساگان اور سٹیفن ہاکنگ نے بیان کا جو اسلوب اپنایا وہ عام لکھاریوں کے بس میں نہیں۔ موت کے دھانے پہ پڑا یہ شخص کتنا بہادر ہوگا جو ملک الموت کو 55برس تک اپنے دروازے پر انتظار کرواتا رہا،یہ کہہ کرکہ’’ذرا ٹہر میں کائنات کی پیدائش کے بارے میں اپنے نظریے کی وضاحت کرلوں، میں کائنات میں موجود بلیک ہولز کی ولادت وموت کے معمے کی تفتیش کرلوں ، کائنات کے پھیلاؤ کے بارے میں اپنی حیرت کو دلیل بخشوں ، اور ٹائم اور سپیس کی پیدائش کے معمے کو تفکر کی چوکھاٹ سے گزار لوں‘‘۔
اور کون کہتا ہے کہ موت جابرو بدمست واٹل ہے ۔ یہ تو ہم عامیوں پر شیر ہوتی ہے ۔ ہم آپ سب نے اِس کی غیرت وہٹ دھرمی وطاقتوری واَٹلی ، ہاکنگ کی کرسی پر دیکھ رکھی ہے ۔اس نے کہا تھا: ’’اگر میں اس معذوری کے باوجود کامیاب ہوسکتا ہوں‘ اگر میں موت کا راستہ روک سکتا ہوں تو تم لوگ جن کے سارے اعضا سلامت ہیں، جو چل سکتے ہیں، جو دونوں ہاتھوں سے کام کرسکتے ہیں، جو کھاپی سکتے ہیں، جو قہقہہ لگا سکتے ہیں اور جو اپنے تمام خیالات دوسرے لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں وہ کیوں مایوس ہیں‘‘۔
اور پھر یاروں کی یاری تو دیکھو ،نباہ تو دیکھو، ساتھ دینا تو دیکھو ۔ہوا یوں کہ ہاکنگ کی بیماری نے اسے چلنے پھرنے سے مفلوج کردیا۔ پھر وہ اٹھنے بیٹھنے سے معذور ہوگیا۔ مرض بڑھتا ہی گیا۔ یہاں تک کہ اب وہ بول چال سے بھی محروم ہوگیا ۔ اتنا بڑا زرخیز دماغ اپنے آئیڈیاز دنیا کو کس طرح پہنچا ئے یہ سب سے بڑا مسئلہ تھا۔اِس نے میسر ،محدودوقت کو بھر پورطور پر استعمال کرنے کی ٹھان لی۔اس نے اپاہج بننے سے انکار کردیا اور سائنس (فزکس ) کی ایک اور برانچ سے مدد مانگ لی۔ اس نے کمپیوٹر اپنے دماغ اور جسم کے ساتھ منسلک کرلیا۔ سائنس نے اِس اپاہج ومفلوج وناکارہ جسم پہ موجود فقید المثال دماغ کو ایک وہیل چیئر مہیا کردی۔ اس کرسی پہ براجماں زندہ لاش کو اظہار کے لیے ایک کمپیوٹر سے لنک کردیا۔ اور پھر اسی مجموعے کو سٹیفن ہاکنگ کانام دے ڈالا۔ ہم اِسی کمپیوٹر ائزڈ وہیل چیئر پہ رکھی ایک عجیب الخلقت چیز سے ہی واقف اور پھر آشنا ہوگئے ۔اب اس کی کرسی پر ایک سوئچ فٹ کردیا گیا جس کو حرکت دے کر وہ کمپیوٹر ائزڈ سپیچ جنریٹنگ ڈیوائس کے ذریعے دوسروں لوگوں سے اپنے خیالات کا اظہار کرسکتا تھا۔ مگر بعد میں فالج نے یہ سہولت بھی ختم کردی۔ تب سائنس نے اِس ٹاکنگ کمپوٹر کو اُس کی پلکوں سے منسلک کردیا۔یہ کمپیوٹر اُس کی پلکوں کی زبان سمجھتا تھا۔ ہاکنگ اپنی سوچ کو پلکوں پر شفٹ کرتا تھا، پلکیں ایک خاص زاویے اور ردھم میں ہلتی تھیں۔ اور یہ رِدھم لفظوں کی شکل اختیار کرتا تھا۔ یہ لفظ کمپیوٹر کی سکرین پرٹائپ ہوتے تھے اور بعدازاں سپیکر کے ذریعے نشر ہونے لگتے تھے ۔ وہی کمپیوٹر اب اس کے لیے زبان ، آنکھ اور ہاتھ بن گیاتھا ۔یوں سٹیفن ہاکنگ وہ پہلا شخص اور پہلا سائنس دان تھا جو اپنی پلکوں سے بولتا تھا۔ اس کی وہیل چیئر کو سینکڑوں ہزاروں لوگوں کے سامنے سٹیج پر رکھ دیا جاتا اور وہ انہیں لیکچر دیتا تھا۔اور پوری دنیا سنتی تھی اور سراہتی تھی۔جو دنیا بھر میں سائنس دانوں کی کانفرنس میں سٹیٹ آف آرٹ لیکچر دیا کرتا تھا۔ وہ اسی طرح اُن کے پیچیدہ سوالوں کے جواب دیا کرتا تھا اور ہمہ وقت ریسرچ آمیز ذہنوں کو فزکس کے لیکچرز میں قہقہے برسانے والے سائنسی لطیفے سناتا۔ وہ فزکس و بیالوجی کا ایسا مجموعہ تھا جس کی ایک دنیا دیوانی ہوگئی۔ اور جس نے دنیا کو اپنی طرف متوجہ کیے رکھا۔جس نے جمود کو سراسیمگی دیے رکھی، جس نے شانت کو فکری طوفانوں میں لیے رکھا۔
آپ جب بھی اُس کی کمپیوٹر ائزڈ کرسی پہ اس کی ساری زندگی کی حتمی تصویر پر غور کریں تو لگے گا کہ اس کی زندگی کمپیوٹر کی کھونٹی سے بندھ سی گئی تھی۔ اُس کا یہ آفاقی فقرہ دیکھیے:
’’میں دماغ کو ایک کمپیوٹر قرار دیتا ہوں جو اُس وقت کام بند کردیتا ہے جب اس کے اجزاء فیل ہوجائیں ۔ ٹوٹے ہوئے کمپیوٹروں کے لیے کوئی حیات بعد الموت نہیں ہوتی۔ یہ تو اندھیرے سے ڈرنے والے لوگوں کے لیے پریوں کا قصہ ہے‘‘۔
سائنس کے ساتھ ہاکنگ کے معاشقے کی پہلی اولاد 1970کو آئی جب اُس نے یہ دکھایا کہ کائنات نے ایک انوکھی اکائی سے ابتدا کی تھی۔ اِس نکتے میں ساری انرجی اورمیٹر دھڑام سے گر گئی تھی۔
اِس کے چار برس بعد 1974میں اُس کی دوسری دھماکہ خیز تھیوری آئی: کوانٹم تھیوری کے ذریعے یہ وضع کرنا کہ کائنات میں بلیک ہولز ہیں اور یہ بلیک ہولز ریڈی ایشن خارج کرتے ہیں اور بالآخر مرجاتے ہیں۔
اسی طرح بے شمار لوگوں نے پہلی بار خلامیں موجود ’’بلیک ہولز ‘‘ کا نام سنا۔ اور یہ بھی کہ وہ ریڈی ایشن خارج کرتے ہیں۔
سائنس میں آئیڈیا پیش کرنا بہت اہم ہوتا ہے ۔ بنجر اذہان وہ ہیں جن کے پاس آئیڈ یاز نہ ہوں۔ اچھا سائنس دان وہ ہوتا ہے جو اپنے فیلڈ میں نئے نئے تصور ات دے ۔ لیکن چونکہ سائنس گونگے اذہان کی دنیا نہیں ہوتی اس لیے یہ خیال کرنا کہ آپ کے پیش کردہ آئیڈیا پر بلاچون وچرا ،تسلیم ورضاکی قوالیاں تالیاں بجیں گی، غلط اور احمقا نہ ہے ۔وہاں تو نظریات وتصورات پرتباہ کن اور سنجیدہ بحث ہوتی ہے ۔ یہ مسترد بھی ہوتے ہیں، نیم مسترد بھی،یا تسلیم بھی۔ اسی ہاکنگ نے بہت سے سائنس دانوں کے پیش کردہ آئیڈیاز کو اپنے دلائل اور رِیزننگ کے بعد استرداد کی بھیانک ٹوکری میں پھکوادیا۔ اوریہی عمل خود اس کے ساتھ بھی ہوا۔ بالخصوص کوانٹم گرے وٹی سے متعلق اس کے تصورات انجماد کی حد تک ایک عمومی سرد مہری کا شکار ہوئے۔
اس بڑے انسان میں ایک اور خوبی بھی موجود تھی۔ وہ تکبر نہیں کرتا تھا، اِتراتا نہ تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ ’’علم کی سب سے بڑی دشمن جہالت نہیں ہے بلکہ بہت زیادہ علم رکھنے کا دھوکہ ہے ‘‘۔
جیسے کہ ذکر ہوااس نے کتابوں کا ایک سلسلہ لکھا جو بیسٹ سیلرز ہوئیں۔ اُس کی کتاب ’’ اے بریف ہسٹری آف ٹائم‘‘ 40زبانوں میں ترجمہ ہوئی اور ڈھائی تین کروڑ کی تعداد میں فروخت ہوئی۔ اس کے بعد ’’اِل لسٹریٹڈبریف ہسٹری آف ٹائم ‘‘، آئی۔ پھر، ’’دی یونیورس اِن نَٹ شیل‘‘ شائع ہوئی ۔ 2007میں اپنی بیٹی لوسی کے ساتھ اس نے بچوں کے لیے سائنس کی کتاب ’’جار جز سیکریٹ کی ٹو دی یونیورس ’’لکھی۔ اس کی آخری کتاب‘‘ دی گرینڈ ڈیزائن ‘‘2010میں آئی۔
ہاکنگ میں دوسرے سائنس دانوں سے ایک اور بات بھی بہت الگ تھی۔ وہ سماجی سیاسی معاملات میں بھی خوب دلچسپی لیتا تھا۔ وہ اُن پر تبصرہ کرتا، اوراپنی رائے دیتا تھا۔ وہ ویتنام جنگ کے خلاف ہزاروں لوگوں کے ساتھ جلوس نکالتا رہا۔ وہ فلسطینی کاز کا زبردست حامی تھا۔ وہ علاج معالجے کی سہولیات عوام الناس تک پھیلانے کا زبردست حامی تھا۔ وہ منافع کی بادشاہی کا زبردست مخالف تھا۔ اس نے عراق پر امریکی برطانوی حملے کو بربریت ،اور جھوٹ پر مبنی کہا۔ وہ ماحولیاتی آلودگی کابدترین مخالف رہا۔ وہ کپٹلزم کی نابرابری اور استحصال کے خلاف اکثر بولتا تھا۔
اُس کا پسندیدہ فقرہ ہوا کرتا تھا’’۔۔۔ میٹر کو نہ پیدا کیا جاسکتا ہے اور نہ فنا۔ ہر شئے کائناتی اصول کے تابع ہے ۔ اور۔۔۔ہمیں کائنات کے عظیم ڈیزائن کی توصیف کے لیے یہی ایک زندگی ملی ہے ‘‘۔
ہاکنگ کے پیش کردہ نظریات پر فلمیں بنیں،کتابیں مقالے لکھے گئے اور سمینار و کانفرنسیں ہوئیں۔
تین بچوں کا باپ سٹیفن ہاکنگ پون صدی کی ایک بھر پور ، تخلیقی اور کار آمد زندگی گزار کر فوت ہوا۔یہ شخص زندگی سے بے انتہا پیارکرتا تھا۔ اور حسین زندگانی کی حسین چیز اُس کی نظر میں سائنس تھی۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے