کتاب کا نام: چین آشنائی
مصنف: ڈاکٹر شاہ محمد مری
صفحا ت: 335
اشاعت:
قیمت : 280 روپے
مبصر : عابدہ رحمان
شال ایئر پورٹ کی فضاؤں میں تمھارا جہاز پرواز کر گیا تو واقعی تمھارا آدھا میرے پاس رہ گیااور میرا نصف تم لے اڑے۔ زمین کی کشش پوری قوت سے تمھیں اپنی طرف کھینچ رہی تھی جبکہ آسمانوں کی وسعت مجھے۔ میں سچ میں تمھاری حسن پرست فطرت سے پریشان رہتی ہوں لیکن میرے کان میں تمھاری سرگوشی مجھے نہال کر گئی ’ بے غم رہو جان ، ہم صدیوں پرانے دوست ہیں ۔ محبت پر بھروسہ رکھوگی تو سرسبز رہوگی‘۔
اسلام آباد کے ہوٹل میں تمھارے کمرے کی بڑی کھڑکی کے پاس میں تمھارے سنگ چائے کے سپ لے رہی تھی جب تم نے سفر ی ملک کی تفصیلات بتانا شروع کیں کہ ،’’ چین میں پہلی حکمرانی مِنگ خاندان کی تھی۔ بادشاہوں کا یہ سلسلہ 1368 ء سے شروع ہوا جو ظلم کرتا ، جبر بڑھاتا ،استحصال کرتا تقریبا تین صدیوں تک بادشاہی کے مزے لوٹتا رہاجس کا تختہ 1644ء میں منچوریا نے الٹ کر خود حکمران بن بیٹھا۔چار ہزار برس تک بادشاہت کی غلامانہ زندگی رہی۔ مطلب یہ ہوا کہ کوئی ساٹھ سال سے عوامی جمہوریہ حکمرانی قائم ہے۔‘‘
میں خاموشی سے تمھاری آواز ، تمھارے لہجے کے فسوں میں قید کچھ سنی اور کچھ اَن سنی کرتے تمھیں دیکھتی رہی ۔ تم خاموش ہوئے ۔ زمانہ ٹھہر گیا ۔ ’سنو! ‘ اور تم نے میری اَور دیکھا ۔’ ’ میرے محبوب کا خیال رکھنا ۔۔۔ میری ملکیت ہے یہ۔۔۔ برسات کی سرد رات میں دوستی کی گرمائش ہے‘ ‘ میری آنکھوں میں آنسو تیر گئے ۔ تم نے اپنا گرم ہاتھ ، ہجر کے خوف سے ٹھنڈے میرے ہاتھ پر رکھ دیا۔
’’ اپنی عمر بڑھانے کی ترکیب ضرور پوچھنا وہاں سے‘ ‘ میری آنکھوں سے آنسو گر کے تمھارے ہاتھ کی پشت کو نم کر گئے۔
اداسی کو معدوم کرنے کی ناکام کوشش میں تم کہنے لگے، ’ ’گھڑی اور اس کے فاصلہ بند پرزے کی ایجاد جو کہ رفتار کو متوازن رکھتا ہے چین کی ایجاد ہے ۔ بتاؤ تو ذرا دل کی دھڑکن کی ٹک ٹک کو کون سا فاصلہ بند پرزہ متوازن رکھتا ہے؟ اور پھر محبوبہ اس پرزے کو قبضے میں کر کے دھڑکنیں اپنے تابع کیسے کر لیتی ہے ؟‘‘ میں بس مسکرا دی۔ اک اداس مسکراہٹ تمھارے لبوں پربھی تھی ۔اور پھر تم نے بتایا کہ کاغذ، پریس، تیلیاں ،کاغذی نوٹ، بارود سب اسی چین کی ایجاد ہیں۔
چین کی پرواز سے پہلے اپنی دعاؤں کی گٹھڑی میں نے چپکے سے تمھارے بریف کیس کے ایک کونے میں سرکا دی۔ میں جہاز کی کھڑکی کے ا س شیشے پر اپنا گال ٹکا کر تمھیں دیکھنے لگی جہاں سے تم مجھے اپنی آنکھوں میں بھر کے فطرت کا نظارہ کر رہے تھے۔
میں جو تمھارے اندر دھڑک رہی تھی ۔ تمھاری سوچوں کے بہاؤ کے ساتھ ساتھ بہتی چلی جارہی تھی ۔ تمھاری سانسوں کے ساتھ سانس لے رہی تھی کہ اچانک دور کونے سے دھواں سا اٹھتا محسوس ہوا ۔ نتھنوں میں ایک عجیب سی بو آئی تو تمھاری سوچ کی لہرمیرے ساتھ چلتی رہی کہ ’’ کبھی سنا نہیں ہوگا تم نے لیکن چین ایسا ملک ہے جہاں جنگِ افیون ہو چکی ہے ۔‘‘، ’ ’اچھا تو یہ افیون کی مہک ہے ‘‘ میں نے کہا ۔
’’ہاں ،1835 ء میں ایک سال کے اندر برطانوی افیم فروشوں نے 24 لاکھ افیون چینیوں کو پلاکر کروڑوں پاؤنڈ کمائے۔اور جب ان کی 20 ہزار پیٹیاں جلائیں تو اس نے چین پر حملہ کر دیا۔ دوسری جنگِ افیون 1842- 43 ء میں ہوئی ۔ سترہ کسان بغاوتیں ہوئیں ، ہانگ کانگ ننانوے سال کے لیے برطانیہ کے پاس چلا گیا اور گیارہ بندر گاہیں چین کی چلی گئیں اور افیون کی درآمد قانونی بنا دی گئی۔‘‘
1911ء میں جب مانچو خاندان کی بادشاہت کے خلاف بغاوت کا اعلان ہوا تو سن یات سین کی قیادت میں بادشاہ کا تختہ الٹ دیا گیا۔تب ہی ماؤ تعلیم چھوڑ کر انقلابی فوج میں شامل ہوا تھا۔1912ء میں سنیایات سین کی قیادت مین ریپبلک قائم ہونے کے بعد ماؤ کی ملاقات پروفیسر ڈکسیوڈاژ ہاؤسے ہوئی جو ’ دی نیو یوتھ‘ سے وابستہ تھے۔ ماؤ سٹڈی سرکلوں کا حصہ بن کر مارکسسٹ بن گیا۔ 1917ء کے روسی سوشلسٹ انقلاب سے چین کے انقلابی عوام نے مارکسزم اور لینن ازم کی روشنی لے کر1919ء کی طلبا تنظیم کی شمع جلائی اور چینی انقلاب کو روشنی بخشی جس میں ماؤ بھی شامل تھا۔پھر ماؤ نے کائی سن کے ساتھ مل کر’ نیو پیپلز سٹڈی سوسائٹی‘ قائم کی جس میں موجود80 انقلابی طلبا بعد میں کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہوگئے۔ماؤ نے ایک اورتنظیم ’ سوسائٹی فار ورک اینڈ سٹڈی‘ کے نام سے بنائی۔1919ء میں چاؤ کی خود کشی پر ماؤ نے 9 مضامین لکھے ۔ لڑکی کی خود کشی کو چینی شادی کے پدر سری نظام پر حملے کے لیے استعمال کیااور لڑکی کی موت کا ذمہ دار سماج کو ٹھرایا۔ماؤ نے مارکسزم اور لینن ازم کا زبردست مطالعہ شروع کیا۔
تم یہ سب سوچتے رہے اور مجھے سناتے رہے۔
بیجنگ ائیر پورٹ سے تم نے اپنے ساتھیوں کے سنگ اور میں نے تمھارے سنگ شہر کا رخ کیا تو راستے کے ایک ریسٹورنٹ کے شیشے کے پار محبوبہ اپنے محبوب کو ناشتہ کراتے ہوئے اس کے منہ میں چمچ بھر کے ڈالتی تو تمھارے نتھنوں میں بلوچستانی باسی کے ہاتھ کی مہک کیوں آئی ؟ ۔ میں مسکرا دی تو تم نے بھی مسکراتے ہوئے اپنے اندر جھانک کر مجھے دیکھا اور ’جی‘ کہہ کر اس کو ہزار سے ضرب دے کر فضا کے دوش پر بلوچوں کے دیس کی طرف پھونک دیا تو میں غرور میں رقص کر گئی۔
اور پھر تم اپنے پاکستانی وفد کے ساتھ Forbidden City کے وہ محلات دیکھنے گئے جس میں سرخ اور پیلے رنگوں کا امتزاج تھا جو خوش حالی اور بادشاہی کے نشان ہیں اور جہاں بادشاہ کا تخت عین محور میں ہونا ، بادشاہ کائنات کا مرکز ہونے کی علامت ہے۔گائیڈ کے یہ بتانے پر کہ نو ہزار نو سو نناوے محلات پر مشتمل اس عمارت میں سیمنٹ کے طور پر استعمال ہونے والی اشیا، لیس دار چاول اور انڈے کی سفیدی ہے تو سب غریبوں کی تباہی کا سوچ کر لرز گئے لیکن تم تو اپنے ازلی انسان دوست جذبے کے تحت اس غم میں کافی دیر تک محصور رہے اور میں تو تھی ہی تمھارے بہت پاس۔۔۔ تمھارے غم ، تمھاری مسرتوں میں مکمل حصہ دار۔
بادشاہ اور اس کی محبوبہ بیوی کی مشترکہ قبر پر جڑواں درخت، ابدی عشق کی علامت، محبت کرنے والوں میں وفا اور دائمی وابستگی کی دعا گاہ کی جانب چلے تو دل کی دھڑکن میری بھی تیز ہو گئی۔در گاہِ عشق کو چھوتے ہوئے تم نے اپنی دیویِ حسن کو یاد کیا تو وہ بھی اس درخت پر تمھارے قریب بیٹھ کر خواہشِ وصال میں تمھارے ساتھ تھی۔
شاہِ من ! تم تو تِلملا ہی گئے حسن کی رجیکشن پر ،بادشاہ کے دربار میں مغرور و متکبر و گناہگار ممتحن نے انتہائی فضول خرچی کا مظاہرہ کیا اور ایک ہزار حسیناؤں کو مسترد کر دیا۔ بد بخت ممتحن! حسن اور رجیکشن !! دُر فٹے منہ ۔ اور میں جو تمھارے دل کی ملکہ تمھارا دل بن کر دھڑک رہی تھی، باوجود غصہ دکھانے کے موڈ میں ہنسی کا فوارہ چُھوٹ گیا۔ چلو معاف کیا کہ ایک تو تم سمو کے دیس سے دور ، سمو سے دور اور پھر حسن کی تعریف کرنا اس کا حق اور پھر لوٹ کر تو تمھیں واپس اپنی محبوبہ کی طرف آنا ہے کہ مہار کٹے ان چودہ اونٹنیوں کی فروخت سے خریدی صدری کی جیب میں میرے لیے جو مصری لاؤگے، میں اس مٹھاس کے انتظار میں ہوں ۔
تمہی نے بتایا کہ، چین میں اگر 100لڑکیاں پیدا ہو رہی ہیں تو 119لڑکے۔ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ اس عدم توازن کو الٹ دیا جائے گا ۔ الٹرا ساؤنڈ نے چینی معاشرے کو عدم توازن کا شکار کر دیا ہے۔ یہ سن کر میں نے آہستہ سے تمھارے کان میں کہا کہ،’’ کاش ایسا بھی کوئی الٹرا ساؤنڈ ہوتا کہ اگر کبھی کوئی دو محبت کرنے والوں کی جدائی کی سازش کرتا تو وہ الٹرا ساؤنڈ پہلے ہی اس سازشی سکیم کا حمل ضائع کر دیتا۔ ‘‘
پھر تم نے بتایا کہ،چین میں تین سو قومی ٹی وی چینلز ہیں جو کسی بھی طرح کی عریانیت سے پاک ہیں ۔چائنا ریڈیو انٹر نیشنل 40 مختلف زبانوں میں پروگرام نشر کرتا ہے۔
ہم جونمازِ عشق میں ہر وقت قیام میں رہتے تھے شاہِ من! تم دیوارِ چین پر حجِ اکبر ادا کرنے گئے ۔۔۔ آسمانوں کی وسعت ، بلندیوں میں دربارِ عشق پر زنجیر کی کڑی۔۔۔ تم نے چاہت کی گہری سانس لیتے ہوئے بلوچ پہاڑوں کی باسی کے نام کا تالا اٹکاکر بند کر دیا تو میری پلکیں ’آمین‘ کہنے کے لیے سر بسجود ہوگئیں ۔عشق کی مذہبی رسم ، محبت کا لاک اپنے محبوب کے جنم دن پر میں نے بھی اس کے ساتھ لگایا۔محبت کی آیتوں کی تلاوت کرتے ہوئے تم اکیلے ہی نہیں تھے ، میں بھی تمھارا ہاتھ تھامے کھڑی تھی۔
اور پھر اگلا پڑاؤ نیشنل میوزیم آف ماڈرن چائنیز لٹریچرتھا ۔ پاکستانی وفد میں مشتاق احمد یوسفی ، ڈاکٹر سلیم اختر، پروفیسر داور خان ،اظہارالحق، تم ہی نہیں تھے ۔ میں بھی تمھارے ساتھ تھی۔ اس میوزیم کا فریضہ ماڈرن چائنیز رائٹرز سے متعلق ہر قسم کا مود اکھٹا کرنے ، تلاش کرنے اور محفوظ رکھنے کا ہے۔شیشے کی میورلزاور خوبصورت پینٹنگز میں انقلاب سے قبل والے چین مین موجود فیوڈلزم کے مظالم اور اس کے خلاف عوام کی جدوجہد کی بہت خوبصورت عکاسی کیگئی ہے۔
میں تمہارے ساتھ یہاں علم کے موتی چننے لگتی ہوں؛
جب چیانگ کائی شیک نے کمیونسٹوں پرچار حملے کیے لیکن پانچویں حملے پرنو لاکھ کی فوج کے ساتھ ایک لاکھ اَسی ہزار انقلابیوں اور رضا کاروں کے سرخ دستوں پر حملہ کیا توکمیونسٹوں نے بچنے کے لیے اپنا مرکز بدلنے کا فیصلہ کیا اور جنوبی چین سے شمال مغربی حصے میں منتقل ہونے لگے۔ 1934ء سے 1935ء میں کیا گیا یہ لانگ مارچ چھ ہزار میل پر محیط تھا۔90 ہزار انقلابی فوج میں پچاس عورتیں تھیں۔ اس زمانے میں اقتصادی جرائم اور کمفرٹ وومن ’ جنسی غلامی‘ جیسی غلاظتیں بھی موجود تھیں۔
ماؤ کہتا ہے ’ لانگ مارچ تخم ریزی کی مشین ہے۔ اس نے گیارہ صوبوں میں بہت سے بیج بوئے ہیں جو پھوٹیں گے۔ ان سے پتے نکلیں گے ، پھول کھلیں گے اور وہ بارآور ہوں گے، اور آئندہ فصل دیں گے‘۔
تم نے چین کے انقلابی ادب اور ادیبوں سے متعلق ساری معلومات ایک ساتھ انڈیل دیں کہ چین میں انقلاب کے دوران ادیب کس طرح اس عوامی تحریک سے عملاً جڑے رہے۔۔۔ میں دم بخود تمھیں سنتی رہی۔
میرے محبوب ! تمھاری ہر بات میرے لیے آیت ہے اور میں محبت کے مذہب کے ہر رکن کو مانتی ہوں اس لیے میں مذہبِِ عشق میں پوری پوری داخل ہوں ۔ تمھاری اس بات پر میرا پورا ایمان ہے کہ بیلوں ہی کو رسی سے باندھ دیا جاتا ہے مگر انسان کی رسی تو قول ہے، عہد ہے ،اقرار ہے۔اس نے جب تمھیں چلنے کو کہا تو تمھارے دل میں روح القدس اترتے وقت میں وہیں تھی جب تم نے ان سنہرے الفاظ کا ورد کیا تھا ؛ یار ہواں انت کہ جائیذا یاراں ، سو مری چیار روشی نہ پاداراں!۔
واقعی سوشلزم کے سالن میں سرمایہ داری کی مرچیں کس قدر لگتی ہیں اور یہ کہ سرمایہ داری نظام سوشلزم کے ساتھ محض مخصوص شعبوں ہی میں Coverge نہیں کرے گا بلکہ یہ ایک مکمل پیکیج کے ساتھ ہی آتا ہے۔
موسم جب بے ایمان ہوا ، چار سُو جب ہر شئے برف کی لگنے لگی تو اتنے بے چین سے کیوں ہونے لگے ؟۔ ٹھیک کہتے ہو کہ موسموں کے ساتھ موسموں کے لوازمات نہ ہوں تو ہر موسم عاشور کا موسم ہوتا ہے۔لیکن اپنے اندر توجھانکو ذرا میں ہوں نا تمھارے پاس۔۔۔ اور باہرنقرئی ہلکے سے قہقہے والی ماؤ بھی تو ہے جو بات کرتے ہوئے فقرے کی دم کو لمبا کر کے آنکھیں سکیڑ جاتی ہے۔۔۔ تم اس کے بولنے پر لمبی سی’ آں‘ سننے کے اور اس کی دونوں آنکھیں کونج کی لینڈنگ کی طرح خراماں خراماں بند کرنے کا انتظار کرتے ہو۔۔۔حسن پرفریفتہ میرے محبوب !میں تمھاری اس ادا سے لطف اندوز ہو رہی ہوں کہ میں مطمئن ہوں کیوں کہ میوزیم میں ستار بجاتی حوروں کی حسن گاہ میں بھی جب تم وہاں پہنچ چکے کہ جہاں ابدال پہنچا کرتے ہیں اور حسن گاہ میں بھی جب تم وہی آنکھیں ڈھونڈ رہے تھے تو کاہے کی پریشانی بلکہ میں تو ان حوروں کی انگلیوں سے قطرہ قطرہ ٹپکتے سُروں میں خوشی سے اتراتی لہرا گئی ۔ویسے ایک بات میرے کان میں چپکے سے اگر بتا دو کہ آخر کیسے فطرت کے حسن سے گُنگ ہنگلاج ماتا مندر میں تم اپنی عینک گم کر بیٹھے اور اب میوزیم کی ان حوروں کے بیچ بھی یہی ہوا۔کہیں یہ تمھارے اور حسن کے بیچ رکاوٹ تو نہیں ؟!
لیکن کہاں کہ یوسفی صاحب تو کہہ ہی گئے کہ ’ آپ کے مطالعہ حسن میں تو کوئی فرق نہیں آیا ۔ پھر کاہے کو عینک کو یاد کر رہے ہیں؟‘
سچے سفید موتی چن کر اس مرقع حسن نے ہاروں میں پروئے اور تم نے انھیں پوٹلی میں ڈالتے ہوئے اپنی محبت ، اپنا دل ، اپنی خوشبو بھی اس کے ساتھ رکھ دیے۔
سفر شروع ہو جائے تو بالآخر ختم بھی ہوتا ہے۔سفرِ چین بھی تمام ہوا ۔
اور پھر وہ وقت آیا کہ جب تم جہاز سے اترے اور میں بے تابی سے تمھاری جانب بڑھی ۔ میری آنکھیں جن کی تم نے کبھی قسم کھائی تھی ہجر کی ساعتوں کو یاد کرتے اور تمھاری آمد کی خوشی میں برس پڑیں۔