اک تمثیل سنائی اُس نے ایک کہانی دل میں تھی
لاکھ بُھلائے پھرتے تھے ہم یاد پرانی دل میں تھی
درد کے قطرہ قطرہ پھر سے اُتر رہا تھا سانسوں میں
اک مشکل تھی جان کے اندر اک آسانی دل میں تھی
دھیرے دھیرے اُس نے اپنا آپ سمیٹا دنیا سے
عشقِ مرگ تھا طاری خود پر رُت مستانی دل میں تھی
ذہن کی شاخوں پر بیٹھے کچھ سوچ پرندے الجھے تھے
خوشبو خوشبو سانس سے لپٹی رات کی رانی دل میں تھی
آنکھ سمندر میں لہروں کا ایک شرارہ ابھرا تھا
سامنے اک تعبیر کھڑی تھی اک انجانی دل میں تھی
اُس کے درپہ سر جھک جائے دل نے چاہا کتنی بار
خواہش نے یوں جان جلائی اک بے گانی دل میں تھی
باقی سب تو چھوٹ گیا تھا رفتہ رفتہ کنول سب
ہجرت تھی احساس کے اندر نقل مکانی دل میں تھی