کون جانے فیشن ہے کہ بھیڑچال، اندازِ سوچ کاشاخسانہ کہ ہر سو شور سابرپا ہے کہ مرد ظالم ہے ،شقی القلب ہے ،ہرجائی ہے ۔سوشل میڈیا پر تو ایسی دلدوز پوسٹ لگائی جاتی ہیں کہ دل آٹھ نو دس آنسو روتا ہے ۔گیارھویں آنسو کی ترسیل شاید دل یہ سوچ کے روک دیتا ہے کہ یہ کام تو چشم نم کا ہے تجھے پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو!۔ سوچا جائے تو سوچنے کا کام بھی دماغ کا ہے دل کا نہیں ،لیکن دل میں اتنی سمجھ بوجھ ہوتی تو ہر گلی جا کر خوار نہ ہوتا۔
دماغ اگر ایک دونی دونی اور دو دونی چار کے عطاکردہ، مروجہ سیٹ اپ سے باہر نکل کر سوچنا چاہے تو سوچے کیا مرد واقعی اتنا ہی شقی ہے جتنا کہ پرچار کیا جاتا ہے؟۔ دماغ کو تو عادت ہی نہیں سوچنے کی اسی لیے بلبلا کے ہی سوچتا ہے کہ ظالم فرد ہوسکتا ہے ظالم سماج ہوتا ہے۔ ارے ظالم تو ہماری روایات ہیں ۔ مظلوم کون؟ مظلوم ہمارے "اخلاق حسنہ”جن کابے گور وکفن لاشہ گلیوں میں رل رہا ہے۔ اس میں جنسی تخصیص رکھنا ظلم ہے۔
مرد کا جسمانی طور پہ مضبوط ہونا اس کے قوی ہونے کی دلیل نہیں۔ فطری طور پہ تو مرد صنف نازک ہے ۔عورت تو ( ذہنی) جذباتی سانحے حوصلے سے برداشت کر جاتی ہے لیکن مرد کرسٹل کی طرح ٹوٹ کر ریت کے زروں کی صورت بکھر جاتا ہے۔ چاہے مرد کا دل خون کے آنسو رو رہا ہو پر آنکھ نم نہیں ہونے دیتا۔ وہ تو حوصلہ اور بہادری کی علامت ہے کیسے کمزور دکھے!۔وہ مردانگی کے عصا سے ٹیک لگائے برسوں ایستادہ رہتا ہے ہاتھ لگانے سے خبر ہوتی ہے کہ روح تو کب کی رخصت ہو گئی محض تن دوسروں کا حوصلہ اور آسرا بن کے کھڑا ہے۔
عورت کی فطرت پیاز جیسی تہ در تہ ہے۔ بہت سی محبتیں بیک وقت کرنے اور نبھانے کی صلاحیت سے مالامال ہے ۔عورت تو ماں بیٹی بیوی دوست یا محبوبہ ہر رشتہ یا تعلق نبھاتی ہے ۔مرد توحید پرست ہے ایک وقت میں ایک محبت نبھا سکتا ہے جب نئی محبت دل سے پھوٹتی ہے تو پرانی جھاڑ جھنکار بن جاتی ہے ۔
مرد ایک سہولت ہے جو رب کریم نے عورت کو عطا کی ہے۔ باپ بھائی شوہر بیٹا دوست یا محبوب وہ عورت کو گرم سرد تھپیڑوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ وہ بادِمخالف کے جھکڑوں کے سامنے سینہ سپر ہوجاتا ہے۔ وہ ڈرائیونگ سیٹ سنبھالتا ہے تو عورت فرنٹ سیٹ پر بیٹھ کر میوزک سے لطف اندوز ہوتی ہے۔
مرد تحفہ ہے جو رب جلیل نے عورت کو عطا کیا۔ ماں کی گود میں ہمکتا یہ ننھا سا کرشن کنہیا درحقیقت ماں کی امید اور سہارا ہے۔ لیکن بیٹے کی نظر میں ماں صرف معشوق ہے۔ بانو قدسیہ نے کہیں لکھا تھا مرد عورت ذات کا عاشق ہے اور یہ عاشق زندگی کے ہر دور میں مور پنکھ سجائے گوپیوں کے سنگ ناچتا ہے۔ دیویاں تو مختلف روپ دھارے یکے بعد دیگرے سنگھاسن پر براجمان ہوتی رہتی ہیں لیکن مرد کا ایک ہی روپ پجاری کا رہتا ہے۔ یہ فرہاد زندگی بھر اپنی شیریں کے لیے جوئے شیر نکالنے پر جتا رہتا ہے ۔لیکن ظالمو! سوچو توسہی یہ بھنورا ہرجائی انسان بھی تو ہے کہیں دوگھڑی سستانے کو بیٹھ جائے کسی کے پہلو میں ذرا شام رنگین کرلے عورت کی سیوا کرتے کرتے کچھ گرم سرد بول جائے کبھی اپنی کمزوری چھپانے کے لیے شہ زوری دکھا جائے تو یارو! ظالم نہ کہو ابن آدم کہہ لو!
سوچیں تو بات یہ ہے کہ مرد اپنی کمزوری چھپانے کی کوشش میں ظالم بنتا ہے ۔ایک ہارے ہوئے بزدل مرد کا ہاتھ عورت پہ اٹھتا ہے ۔روایت ہے کہ کوزہ گر نے مرد کے بعد عورت کو تخلیق کیا اور دوسری تخلیق پہلی سے بہتر ہوتی ہے ۔کجی یا کمی نئے آنے والے ماڈل سے نکال دی جاتی ہے. صاحبو! عورت کا بہتر ہونا ہی اس کی سزا بن جاتا ہے ۔عورت سحر طراز ہے تو مرد سحرزدہ… مرد کا احساس کہتری اسے اس قابل نہیں چھوڑتا کہ عورت کے ساتھ برابری کی سطح پہ جی سکے۔
وہ عورت کو ہمیشہ فتح کرنے کی سعی کرتا ہے۔ حقارت سے "اونہہ کم عقل” کہنا کیا مرد کی کم عقلی کی دلیل نہیں؟۔ ورغلانے والی، لبھانے والی کہہ کر اس کی جنسی کشش کے سامنے ہتھیار ہی تو ڈالے جاتے ہیں۔ شاعری دیکھیے، الہامی کتابیں یا پھر کوئی اور صنف ادب، نمایاں موضوع سخن عورت ہے ۔بقول منٹو مرد کے اعصاب ہی ملاحظہ کر لیجیے یہاں بھی عورت شہ سوار ہے ۔
جب اس مضبوط دل ودماغ کی مالکہ کو سماج دبانے کی کوشش کرتا ہے تو نیگٹو ریز کی زد میں آجاتا ہے ۔بھونچال، آہ وبکا، زنابالجبر اور جنسی بیماریوں کے علاجی ٹوٹکوں سے بھری شہر کی دیواریں اس کا حاصل ہیں۔
پرسکون پرامن اور خوش حال معاشرے میں عورت کی عزت کی جاتی ہے اور اسے بطور فرد کسی حد تک تسلیم کیاجاتا ہے ۔جی ہاں کسی حد تک ۔ورنہ زمانہ قدیم ہو یا جدید عورت کے عورت پنا کو تسلیم کرنا مرد کے ظرف سے باہر ہے۔
امرتا پریتم لکھتی ہے کہ مرد کو عورت کے ساتھ سونا تو آگیا جاگنا نہیں آیا۔ بھئی سونا بھی تو ڈھنگ سے نہیں آیا۔ دنیا کا قدیم ترین پیشہ جسے ستم گروں نے نیا نام عطا کیا ہے سیکس ورکر… جیسے فیکٹری ورکر.کیسی بے حسی ٹپکتی ہے اس اصطلاح میں. یہ سرمایہ دارانہ صنعتی معاشرہ مزدور عورت کسان عورت ،کاروباری عورت ،استاد ڈاکٹر انجینئر عورت کے ساتھ ایک اور پیشہ کا اضافی کرتا ہے: سیکس ورکر ۔
جنوب جائیں یا شمال، چاہے مشرق سے نکلیے اور مغرب میں ڈوبیے ، جنسی لطف اٹھانے کو بعوض سکہ رائج الوقت عورت دستیاب ہے، جیتا جاگتا جنسی کھلونا …تف کہیے کہ لعنت فرمائیے یہ ایک اندوہناک حقیقت ہے.. زرعی معاشرے میں عورت ایک جنس تھی ہی، اس صنعتی ترقی یافتہ تعلیم یافتہ سماج نے اسے ایک پراڈکٹ بناڈالا۔ ڈیکوریشن پیس کا سٹیٹس دیکر اسے اپنی فطرت سے جدا کرڈالا ۔اپنی ذہانت فطانت پہ سو پردے ڈالتی، سرخی پوڈر سے لپی تھپی زیورات سے لدی مشرقی عورت ہوکہ اپنی زکاوت اور قابلیت کو پس پشت ڈالتی، بدن کے زاویے اور قوسین نمایاں کرتی مغربی عورت ہو، کھلکھلاتے قہقہوں کے ساتھ نوحہ کناں ہے۔
کچھ استثنائی مثالوں کے قطع نظر دفاتر میں باختیار سیٹ پر مرد براجماں ہیں تو ریسیپشن پہ عورت آویزاں ہے۔ جیون جینے کے واسطے عورت کو مر مر کے جینا پڑتا ہے۔ اس چومکھی جنگ غمزہ ہوکہ تریاہٹ یا تریا چلتر عورت کے ہاتھ میں بھی سو ہتھیار ہیں۔
میں اپنے سماج کی بات کروں جہاں میری زندگی آنکھ کھولتی ہے تو ماشاء للہ جب سے شعور کی آنکھ کھلی ہے عورت کی مٹی پلید ہوتے ہی دیکھی ہے۔ دو مرد آپس میں الجھتے ہیں تو منہ زور خواہشات تری ماں تری بہن کی گالیوں میں مجسم ہوکر ننگا ناچ ناچتی ہیں ۔حتی کہ جب مولوی اسلام کاپھیلاو کرتے ہیں تو انھیں پین کی سری ہی کی یاد آتی ہے ۔عزت والا غیرت والا گنگ سماج ان گالیوں سے دل میں حسرتیں ہزار لیے لطف اندوز ہوتا ہے۔
جنس ایسی جبلت ہے جو مرد عورت کو یکساں ودیعت ہوئی ۔جنسی عمل میں مرد عورت ایک جیسا تلذد کشید کرتے ہیں پھر یہ عمل عورت کے لیے گالی کیوں بن گیا ؟؟۔
محبت میں جسمانی الفت باہمی رضامندی سے بھی ہو تو مرد ناراضگی میں اس جسمانی رفاقت کو عورت کے لیے گالی اور دھمکی بنا دیتے ہیں۔ لطف اٹھائیے اس بات سے کہ دوطرف جنسی فعل سے ایک فریق بے عزت ہورہا ہوتا ہے اوردوسرا باعزت ۔
عورت کی زندگی میں ہزاروں مسائل اسی عمومی رویے کی وجہ سے بنتے ہیں جو عورت پہ ملکیت کا دعوی رکھتے ہیں۔ اسے ہر صورت بری نظر سے بچانے کے لیے عورت کی زندگی قفس میں لے آتے ہیں ۔اسے چادروں میں لپیٹ کر پیک کر دیا جاتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ انارکلی چنی یوئی دیوار میں بھی کئی دریچے وا کر لیتی ہے۔
اس جنسی فریسٹریشن کے بھیانک نتائج صرف مردہی کو نہیں عورت کو بھی بھگتنا پڑتے ہیں۔ باپ بھائی کو کوئی کیسے سمجھائے کہ اگر وہ دہکتے جذبوں کے جوالا مکھی ہیں تو جوار بھاٹوں کی زد میں عورت کا تن بھی تو رہتا ہے ۔ایک صحت مند سماج کی تخلیق اور عافیت اسی میں ہے کہ مرد عورت کی بے پناہ کشش اور فطانت کو تسلیم کرلے ورنہ ظالم کاکردار تو ادا کرنا پڑے گا ۔
فطرت سے ہم آہنگی میں ہی جینے کا حسن ہے ۔انسان جس قدر فطرت سے دور ہوتا ہے اتنے ہی خود کو گنجلک زندگی میں ڈال لیتا ہے ۔پھر عقدہ کشائی میں انگلیاں فگار ہوتی ہیں۔ انسان اپنی بے بسی اور لاچاری کا آپ تماشا بن جاتا ہے۔