ساہیوال آرٹس کونسل نے 26،27 نومبر 2018 کو ’’ پاکستانی ثقافتیں اور گلو بلائزیشن‘‘ کے موضوع پردو روزہ ادبی و ثقافتی کانفرنس منعقد کی۔مشاعرہ بھی تھا،شامِ غزل بھی تھی،اورکتابوں کے سٹال بھی تھے۔
میزبان ڈاکٹر ریاض ہمدانی نے پاکستان بھر سے آئے ہوئے ادباء اور دانشوروں کو خوش آمدید کہا ۔
افتتاحی سیشن کی صدارت جناب نجیب جمال نے کی ۔ کلیدی خطبہ ڈاکٹر ناصر عباس نیر اورڈاکٹر شاہ محمد مری نے پیش کیے۔نظامت منیر ابنِ رزمی نے کی۔ اس سیشن مقالے ختم ہوئے تو چائے پی گئی ۔ اور اس کے بعد پھر ہم ،اور پھر وہی مقالے ۔
محقق اور دانشور گلوبلائزیشن کے بخیے ادھیڑرہے تھے ۔ طبع زاد باتیں تھیں، حوالہ جات تھے ۔ گلوبلائزیشن کی تاریخ جغرافیہ اور شجرہِ نسب تھا۔ اور پھر،یہ بھی اُس کا مستقبل کیا ہوگا۔ ؟اسی ایک موضوع کی مختلف جہتوں پر دوہالوں میں متوازی سیشن چل رہے تھے ۔
کھانے کا وقفہ ہوا ۔ منتظمین نے صبح شام انواع واقسام کے کھانے لگا رکھے تھے۔ اس پر اچھا خاصا وقت اور بہت پیسہ خرچ کیا تھا۔ یہی اُن اچھے میزبانوں کے بس میں تھا۔ اب وہ پورے سسٹم سے تو نہیں لڑ سکتے تھے ۔ وہ نہ تو بھینس یا گائے کو دودھ کے انجکشن لگوانے سے روکنے کا آرڈی ننس لگاسکتے تھے، اور نہ ہی ان کے اختیار میں تھا کہ فصلوں اور درختوں پہ زہر کے سپرے کرنے پر پابندی لگواتے ۔ چنانچہ وزیراعظم سے لے کر عام آدمی تک سارا ملک چائے اور دودھ میں آکسی ٹوسین کا قہر ناک زہر کھا رہا ہے ۔ اور اسی طرح بادشاہ سے لے کر غریب تک ،کرم کش ادویات کے چھڑ کاؤ کردہ اناج اور میووں سے ’’لطف اندوز ‘‘ہو رہے ہیں۔ حاکم تو دنیا بھر میں الم غلم کھانے والا طبقہ ہوتا ہے مگرتیسری دنیا میں عام عوام کو اس طرح زہرکھانے پر لگادیا ۔
پرانے دوست ملتے گئے ۔ساہیوال میں،فکشن کی ملکہ ڈاکٹر طاہرہ اقبال ہماری سب سے پرانی دوست تھی ۔ ملک الموت نے اس کے جیون ساتھی کو چھین کر اس کی دنیا اجاڑ کر رکھی تھی۔( اس کی شادی 1992میں ہوئی)۔
محترمہ پروفیسر ڈاکٹر طاہرہ اقبال کا بنیادی تعلق اسی شہرِ غزل ،ساہیوال سے ہے لیکن اب وہ آٹھ بازاروں کے شہر میں سکونت اختیار کر چکی ہے اور گورنمنٹ کالج ویمن یونیورسٹی فیصل آباد میں بطور صدرِ شعبہ اردو فرائض سر انجام دے رہی ہے۔
"ریخت”، "سنگ بستہ”،اور "گنجی بار” کے نام سے اس کے افسانوی مجموعے موجود ہیں۔ ناول کا نام ’’نیلی بار ‘‘ ہے ۔ دو ناولٹ ہیں: "رئیس اعظم” اور "مٹی کی سانجھ” اس کے علاوہ”منٹو کا اسلوب” کے نام سے سعادت حسن منٹو کے افسانوی اسلوب کا جائزہ کتابی شکل میں منظرِ عام پر آچکا ہے۔ مزید بہت سا ادبی کام کتابی صورت میں شائع ہونے کا منتظر ہے۔
اس کے علاوہ طاہرہ اقبال کی کتاب ’’ پاکستانی اردو افسانہ۔۔۔سیاسی و تاریخ تناظر میں‘‘ 740صفحات پر مشتمل ہے۔ مگر کتاب کا موٹا پاکہیں آپ کو اس غلط فہمی میں نہ ڈال دے کہ اِس کی مصنفہ بھی اتنی ہی صحت مند اورفربہ ہے ۔ نہیں، نہیں۔ وہ خود بہت ہی لاغر خاتون ہے ۔ مہذب، شائستہ، اورتخلیقیت سے بھری خاتون۔
’’حاجی‘‘ طاہرہ اقبال سے میری پہلی ملاقات لاہور میں ہوئی۔ تاریخ اور سال یاد نہیں۔وہاں الحمرا میں کوئی ادبی کانفرنس تھی ۔میں نے بھی پڑھا تھا اور طاہرہ اقبال نے بھی ۔ پہلی دفعہ سنا تو سچی بات ہے ذہن کو فراغت ہی نہ ہوئی تھی کہ معلوم ہوسکے کہ وہ کیا پڑھ رہی ہے ۔ شاید افسانہ کے بارے میں کوئی تحقیقی مقالہ تھا۔ مگر جو کچھ یاد رہا وہ میرا خود سے یہ سوال تھا کہ:
’’اتنی میٹھی آواز ممکن ہے ‘‘ ؟ ۔ ۔۔ میرا یہ سوال آج بھی ہے، اپنے آپ سے۔
میں نے اُس کے متعلق تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ اس کے تعلیم یافتہ زمیندار والدین عورتوں کی تعلیم کے کچھ زیادہ حق میں نہ تھے۔ اس لیے انہوں نے بیٹی کو مڈل کے بعد سکول سے اٹھوادیا۔ یہ پتہ نہیں چل سکا کہ اس اکلوتی بہن کے دو بھائیوں کو کہاں تک پڑھایا گیا ۔ بس، ہماری اس ممدوحہ کا باقی سارا تعلیمی سفر پرائیویٹ ہی رہا۔ پتہ ہے کہاں تک ؟۔ پی ایچ ڈی تک۔ طاہرہ اقبال پی ایچ ڈی ہے۔ اُس نے کب کہا، اور میں کب اصرار کر رہاہوں کہ اس کی محنت ، لگن اور مستقل مزاجی کی داد دو؟ ۔ (اچھا، ویسے یہ عورت ہے بہت دلچسپ ۔ اس نے ایم اے کی دو عدد ڈگریاں دوپٹے کے کونے میں باندھ رکھی ہیں، ہے ناں اضافی بات!۔ وہی کیوں ، اس نے توبی ایڈ بھی کر رکھا تھا) ۔۔۔ بہر حال ، اب وہ ڈاکٹر پروفیسر طاہرہ اقبال ہے ۔ جی ہاں ڈاکٹر اس لیے کہ پی ایچ ڈی ہے ، پروفیسر اس لیے کہ وہ کالج میں استاد ہے ۔
پرائیویٹ پڑھتے رہنے کا مطلب یہی ہے کہ وہ اپنی دیہی اور گھریلو زندگی کے ساتھ پیوستگی سے جڑی رہی۔ لہذا گھر، گھریلو معاملات ، گھریلو عورتوں سے دوستی ، نہ دوستی اس کا روز مرہ رہا۔۔۔ مجموعی طور پر ایک عام دیہی فیوڈل زندگی کی پرور دہ طاہرہ اسی فیوڈل زندگی کی شاخوں ، تنوں اور جڑوں کو کاٹنے کے لیے بڑی ہوتی گئی۔ آپ تصور کرسکتے ہیں کہ اس کے پاس کتنا مواد ، کتنے عنوانات اور کتنے موضوعات ہوں گے ۔
اور یہ عنوانات ہوں گے بھی فرسٹ ہینڈ، اور ان میں موجود مواد بھی ڈائریکٹ معلومات پہ مبنی ہے ۔یہ معلومات کسی سے سنی سنائی یاکسی جگہ چھپی ہوئی، اور یا پھر گوگل سے نہیں لیے گئے۔اُس کے اپنے بقول’’ مجھے کسی کی فراہم کردہ معلومات یا اطلاعات کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ میں خود دیہات میں پیدا ہوئی، وہیں پروان چڑھی اور اُس کے حبس موسموں کو خود پر جھیلا‘‘۔(1)۔
احمد ندیم قاسمی، اگر ایک غیر موزوں سماج میں خود اپنی بلند قامتی کاشکارنہ ہوتا ، اور اپنے ہی فالوئرز کی بے رواجی کی نذرنہ ہوتا تو ایک دنیا پہ اُس کے موجود احسانات کی توصیف ہوتی رہتی۔ بلاشبہ اِس بڑے ادیب نے بے شمار انسانوں کو متاثر کیا۔ طاہرہ اقبال نے قاسمی صاحب کی کتاب’’ کپاس کا پھول‘‘پڑھی تو اس کے سینے میں ابلتے افسانوں نے ایسی بالادستی حاصل کر لی کہ وہ دن ،اور آج کا دن، طاہرہ افسانے لکھوانے کی طاقت رکھنے والے میوزکی ہی منشی بنی ہوئی ہے ۔
افسانے اگلنے والی اِس مصنفہ نے اپنی اولین سونامی کا نام’’ سنگ بستہ‘‘ رکھا۔216صفحات پر مشتمل کہانیوں کا یہ مجموعہ 1999میں شائع ہوا۔ طاہرہ بہت مقامی رنگ دے کر جبر کے آفاقی نظام کو اکھاڑنے کے لیے لکھتی ہے ، ’’گنجی بار‘‘ اس کی مثال ہے ۔ یہ مجموعہ2008میں چھپا ۔ فیوڈل نظام کی دشمنی نے اُس کی تیسری کتاب ’’ریخت ‘‘ کا روپ دھارلیا جو 2009میں شائع ہوئی ۔’’ز میں رنگ‘‘2014 میں آئی۔
شارٹ سٹوری کی ایک ایک وادی ، ایک ایک درہ ،اترائی ، اور بلندی سے واقف یہ رائٹر کبھی کبھی اپنی تخلیقیت کو اِس نسبتاً تنگ قالب میں رکھنے سے قاصر ہوجاتی ہے ۔ تب وہ دیکھتی ہے کہ ارے یہ تو کہانی جتنا ناول یا ناول جتنی کہانی بن گئی۔ ایک شارٹ سٹوری اور ایک ناول کے بیچ کی چیز ۔ ناولٹ !! ۔طاہرہ نے خود ہی اپنے ہمہ وقت حاملہ ذہن کی دائی بن کر دو عدد ناولٹ تخلیق کیے ۔ :’’مٹی کی سانجھ ‘‘ (2009) اور’’رئیس اعظم‘‘۔
وہ فیوڈل ازم کی شدید ترین مخالف ہے ۔ خواہ وہ اس نظام کو توڑنے کی بات کرے نہ کرے ، مگر وہ اس مکروہ نظام کی ایک ایک تہہ، ایک ایک سِلوٹ میں جا کے اپنا مائیکرو سکوپ لگاآتی ہے ۔ اتنی باریک بینی سے وہ جاگیرداری کے بخیے ادھیڑتی رہتی ہے کہ رشک آتا ہے ۔ وہ یہ محنت بہت ایمانداری سے کرتی ہے اور بہت ہی باوقار انداز میں اپنا رواں تبصرہ کہانی کے کرداروں کے حوالے کرتی جاتی ہے ۔ طاہرہ اقبال اس بیمار سماج میں جسم، دل اور ذہن کو مکمل طور پر خرافات کے حوالے کیے جانے والے چودھری اور جاگیردار کو سامنے لاتی ہے ۔ اُس جاگیرداری نظامِ پیداوار کے نیچے بے کراں حبس وبے بسی میں بلبلاتی ، بد ترین تو اہم پرستی ، ضعیف الاعتقادی اور عقیدت پرستی میں مبتلا عوام کی ’’روحیں پیر، خلیفہ اور مرشد ‘‘کا وردکرتی جاتی ہیں۔ عوام اپنے گھڑے ہوئے اِس پیر میں ظاہری اور باطنی سپر پاوری کی طاقتیں دے بیٹھتے ہیں۔ اور اس کے بعد اس کے سارے ناجائز احکامات ، خوابوں ، تعبیروں ، پیش گوئیوں کے آگے ذبح ہونے کو قطار اندر قطار گردنیں ننگی کیے لیٹ جاتے ہیں۔
طاہرہ اقبال جب اس جاگیرداری سماج پر بے دردی سے نشتر زنی کرتی ہے تو اُسے جاگیردار کی خدمت گار دواور قوتیں نظر آتی ہیں: بیورو کریسی اور سیاست دان۔ فیوڈل کی مرضی کا تھانیدار، اے سی اور پٹواری اُس کے نظام کی بوسیدگی میں ستون وپیوند بنے رہتے ہیں۔ پھر وہی جاگیردار شہر میں تاجر وافسر طبقہ کے شوٹنگ اور ڈانسنگ کلبوں میں حصہ دار ہوتا ہے ۔۔۔۔ اور اُس کے اِن سب فاضل پرزوں اور سرگرمیوں کا مجموعی خرچہ کسان برداشت کرتا ہے ۔
طاہرہ اقبال اِس جاگیردار، پیر، اے سی، تھانیدار اور شہر کے تاجرو بیورو کریٹ کے گھر میں جھانکتی ہے تو پھر عورت کی بدترین مظلومیت اسے جھنجوڑ کر رکھ دیتی ہے ۔ کمال یہ ہے کہ بدترین طبقاتی نظام میں ’’آقا عورت‘‘ اور ’’غلام عورت‘‘ دونوں برباد زندگیاں گزارتی ہیں۔ طاہرہ اشکوں سے لکھتی جاتی ہے اور ہم پڑھتے ہوئے اشک باری ، اور،دانت اور مٹھیاں بھینچنے میں اُس کی پیروی کرتے جاتے ہیں۔ طاہرہ کو کسان کمیٹی کی تا عمر صدر ہونا چاہیے۔
فیوڈل ازم کے مارے دیہات میں اگر ایک طرف وڈیرہ اپنے حواریوں کے ساتھ موجود ہے تو اُن کے بالکل الٹ جانب غربت کے کھڈے کی تہہ میں پڑے تباہ حال انسان نما جاندار ہیں۔ آپ چاہیں تو انہیں کسان ، ہاری یا راھک کہیں ، چاہے تو کھیت مزدور کہہ دیں۔ ایسے لوگ جن کی بکریوں کے دودھ سے لے کر اُن کی عزت تک سب کچھ اس چوہدری کے حوالے ہے ۔ مشقت، ہتک ، نیم شکمی، بے خوابی۔۔۔ کہیں کہیں دیکھو تو جانور زیادہ متبرک زندگی گزارتے نظر آتے ہیں۔
ہم سب جانتے ہیں کہ جہالت اور غربت یہاں کی مٹی نہیں اُگاتی ۔ نہ ہی امیری اور غریبی تقدیروں کا کھیل ہوتی ہے۔ یہ انسان کی کارستانی ہے۔اس کے زور آور حصے نے زمین ہتھیا لی۔ یوں ایک طبقے کا محروم رہنا دوسرے طبقے کی خوشحالی اور اقتدار کا ضامن بن جاتاہے۔
طاہرہ اقبال عورت کی پست حالت پہ لکھتی رہتی ہے۔ عورت ہر طبقے کی بری حالت میں ہوتی ہے۔کبھی کبھار کسی زیادتی کسی ناانصافی کی تشہیر (جیسے مختاراں مائی کا کیس )عالمی شہرت پا جاتی ہے ،لیکن پس پردہ کچھ اور ہی مقاصد ہوا کرتے ہیں۔ظلم کی ایسی تشہیر ان عورتوں کی عمومی و مجموعی حالت میں کسی تبدیلی کا باعث ہو سکتا ہے یا نہیں ، ایک بحث طلب بات ہے۔!
وہ ایک کمال بات یہ بتاتی ہے کہ لفظ ’’صنفِ نازک‘‘ جھوٹ ، غلط اور گمراہ کن لفظ ہے ۔ ’’ عورت بزدل ہے ‘‘ والے تصور کو بھی وہ سچے سُچے مشاہدوں سے فاش اور پاش کر دیتی ہے : ’’کسی کھیت کی مینڈھ پر کچھ دیر کھڑے ہو کر اس الزام کی تردید خود ہی دیکھ لیجیے۔ ریگ مارسی سخت اور پھٹ کی مانند پھٹی ہوئی ہتھیلیوں میں درانتی پکڑے، گندم، مکئی، جوار کاٹتی، ناڑ کے رسے بٹتی، پھٹی ہوئی ایڑیوں اور لوہے سے سخت تلووں تلے سانپ بچھو کچلتی، اور پھر بڑھ کر درخت کے ٹہنے سے بندھی جھولی میں سے بچے کو نکال کر دُودھ پلاتی یہ کسان عورت صنفِ نازک ہی سے متعلق ہے۔ چارے، بھوسے، پھٹی، گوبر کا منوں بوجھ سَر پر لادے اور بغل میں بچہ دبائے دھول کے طوفان میں سَر منہ لتھیڑے بالوں کی جٹائیں،بوسیدہ پراندے میں گوندھے۔ ۔۔تب یہ صنفِ نازک بھٹی بنے تنور پر روٹیوں کے چھابے لگاتی، مویشیوں کے باڑے صاف کرتی مٹی کی گھانی بنا دیواریں، چھتیں،چوکے لیپتی، برتن چمکا تی ہے۔ کسی بیل جیسی تنومند، کسی گدھے جیسی باربردار، کسی گائے جیسی فرماں بردار، کسی اُونٹنی جیسی سخت جان، کسی بھینس جیسی فائدہ مند۔۔۔‘‘(2)۔
طاہرہ اقبال ایک روشن فکر افسانہ نگار ہے ۔ اُسے سماج بالخصوص دیہی سماج پہ مسلط فیوڈل ازم کی چیرہ دستیاں بیان کرنا آتا ہے ۔ وہ اِس نظام سے نفرت کرتی ہے ۔ اسے تبدیل ہوتا دیکھنا چاہتی ہے ۔
ہمارے ’’سنگت‘‘ میں اُس کا ہر بھیجا ہوا افسانہ معزز اورمحترم جگہ پاتا رہا ہے ۔ ایسا افسانہ جس کی دو خصوصیتیں ہوتی ہیں:
ایک تو یہ کہ آپ اُس افسانے کو دو مرتبہ پڑھنے پہ مجبور ہیں۔ پہلی مرتبہ تو اس لیے کہ کہانی مزیدار اتنی ہوتی ہے کہ رُک کر سوچنے کے لیے نہ دماغ آمادہ ہوتا ہے اور نہ دل کرتا ہے ۔ طاہرہ پڑھنے والے کو شروع کے دوہی فقروں میں قابو کرتی ہے اور یہی بھر پور کمان وہ پوری تحریر پڑھنے کے بعد زندگی بھر جاری رکھتی ہے۔ اس لیے کہ اُسے زبان پہ ،بیان پہ بھرپور عبور حاصل ہے۔ قاری تو پھر نرم وگداز ’’آ ہنی ‘‘پنجوں کی گرفت میں آہی جاتا ہے ۔ موضوعات بھی دلچسپ اورذائقے دارہوتے ہیں۔ بس روانی سے پڑھتے جاؤ، بغیر رکاوٹ کے بغیر وقفہ کے۔ کیا بے باک لکھتی ہے! ۔ کیا چاشنی بھرا سٹائل ہوتا ہے ۔ سیدھی باتیں، بغیر عبایہ اوڑھائے ہوئے الفاظ۔ کہ میرے رسالے کے بہت ہی مومن صفت قاری جب اس کے افسانوں کا تذکرہ کرتے ہیں تو ادبی لفاظی اور اصطلاحات کے نقابوں فصیلوں میں چھپ کر کرتے ہیں۔ اولین فقروں میں ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ طاہرہ کے افسانے نے موصوف کے محض کانوں کی رنگت گاڑھی نہیں کی ، بلکہ اُس کی آنکھوں میں ‘‘آنکھ چُرائی ‘‘ بھی بھردی ہے ۔یہ جو پاکدامنی کی دھاک ہے نا ، یہ ریاکاری کے پے در پے اور مسلسل ترانوں ڈراموں کے بغیر قائم ہی نہیں رہ سکتی ۔ مگر، دوسری طرف طاہرہ اقبال کے افسانوں پر چلتے چلاتے میں، یونہی سرسری طور پر تبصرہ کرنے کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ اگلے نے یہ افسانہ صرف ایک بار پڑھا ہے ۔بلوچی ڈِش ڈلغ کی دیگ میں اوپر کی چسکیوں کا مزہ بھی ہوتا ہے ، مگر اُس تہہ میں لگی ہوئی نیم جلی نیم ٹھوس شدہ کرنڈی کو چبائے بغیر آپ کو ’’ڈلغ شناس‘‘کہا ہی نہیں جاسکتا ۔ طاہرہ اقبال کے افسانے کو ایک دفعہ پڑھنا اُسے نہ سمجھنے کے مترادف ہے ۔
دیہی زندگی بہت سخت زندگی ہوتی ہے ۔ کھردری ،جیسے مریض کی ڈی ہائیڈریٹ شدہ زبان ۔شدید جیسے ضیاء الحق کے کوڑے ،جیسے جون میں سبی کا سورج ، اور حتمی اور دوٹوک جیسے سردار کا فرمان۔
دیہاتی زندگی سے متعلق ہونے والے بلوچ بالخصوص مشرقی بلوچستان کے بلوچ کے لیے اُس کے پنجابی الفاظ و محاورے بالکل مشکل نہیں ہوتے ۔ چنانچہ ، پہلی بار تو کہانی ، الفاظ ، محاوروں اور زبان کے مزے لینے پڑھو۔ بھئی وہ لکھتی نہیں گاتی ہے ۔
اس کے افسانے میں حقیقت نگاری اور ڈرامائیت اس درجہ شیر و شکر ہوئے ہیں کہ جدا نہیں کیے جا سکتے۔
طاہرہ اقبال اپنے کرداروں کے لہجہ اور ڈکشن پر بہت ماہرانہ نظر رکھتی ہے اور شاید اسی لئے اس کے دیہی زندگی سے متعلق افسانے جو ڈرامائیت سے بھر پور ہوتے ہوئے ڈرامہ نظر نہیں آتے بلکہ اس کے افسانے فطرت سے اس درجہ قریب نظر آتے ہیں کہ وہ اپنی ڈرامائیت سے محروم ہو کر شاید اپنی وقعیت سے بھی محروم ہو جائیں ۔(3)۔
ایک پہر یا ایک روز کے وقفے کے بعد دوبارہ پڑھو اُس کی گہرائی ناپنے کو ۔ آپ کو جنس میں نفسیات ، دیہات میں طبقات ، اور سماج میں پولیٹیکل اکانومی کی تہیں دکھائی دیں گی۔۔۔میرا اُس کے نئے قاری کے لیے خبردار کرنے والا ایک مشورہ ہے ۔ اس کا ہر افسانہ دوبار پڑھو۔
اُس کے افسانے کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اگلے ہفتہ دس دن تک افسانہ اور اس کے کردار آپ کے ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ آپ کے ذہن کے کندھے پہ سوار، آپ کی ساری سوچوں پہ مسلط ، وہ آپ کا ساتھ نہیں چھوڑتے ۔ چنانچہ ہمارا تجربہ ہے کہ اس کا افسانہ ایک شخص پڑھ کر اپنے پورے حلقہ احباب میں اُسے دہراتا رہتا ہے۔
کہانی میرا تو ویسے ہی بھٹہ بٹھا دیتی ہے ۔ مہینوں تک کہانی کے کردار ، اُن پہ سرگزشت اور کہانی کا انجام دل و دماغ پہ قبضہ کیے رکھتے ہیں۔ مگر، طاہرہ اقبال کی کہانیاں تو میری گردن کوسامنے کی طرف سے دبوچی رہتی ہیں۔ پڑھتے ہوئے ہر جگہ حتماً کہہ دیتا ہوں کہ یہاں افسانہ ختم ہونا چاہیے۔ مگر وہ کلائمکس پر کلائمکس دیتی جاتی ہے ۔ اور وہ اسے میرے وہم وگمان سے بھی بلند کوہِ شاشان کی چوٹی پر پہنچا دیتی ہے ۔
قارئین کے معاملے میں طاہرہ ہم سب کی طرح بہت زیادہ خوش قسمت نہیں رہی۔ وہ ایک ایسے خطے کی رہنے والی ہے جہاں ’’اندرون بینی‘‘ نام کو بھی موجود نہیں۔ اُس کا قاری ، لُک اور سیمنٹ سے موٹی اور مضبوط کردہ اپنی جلد کو کھر چنا کریدنا تک نہیں چاہتا ۔ بدترین جاگیرداری میں گردن گردن ڈوبا یہ سماج دوسروں کی جاگیرداری کو برا بھلا کہتا ہے ، روانڈا سے لے کر چچنیا تک دوسروں کے عیب بیان کر کر کے زندہ رہتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے ایک بھی پاکستانی کامریڈ کے منہ سے طاہرہ اقبال کا نام نہیں سنا۔ ان لوگوں نے انقلاب جو دنیا بھر میں لانا ہے!! ۔(اور اس کا مطلب ہے کہیں بھی نہیں لانا ہے!)۔
طاہرہ تو پنجاب کے دیہات کی قصہ خوانی کرتی ہے ، دیہات جو کہ کہانی کا ٹیک سنگھ کا ٹوبہ ہے ۔ سرچشمہ ہے تخلیق کا۔ سچی ، کھری، بے حجاب اور حقیقی سچی کہانیاں۔ اگر وہ اپنی کہانیوں کے سچی ہونے کا خود دعوی نہ بھی کرتی تب بھی ملاوٹ کی بدبو کہیں نہ کہیں تو نظر آتی ۔ نہ مبالغہ ، نہ لاف زنی ، نہ قسمیں ، نہ تسلیاں ۔ مجھے اس کی کہانیوں میں ایک فیصد بھی’’ گوئبلزی‘‘ نظر نہیں آتی۔ کوئی خوامخوا ہ والی ڈرافٹنگ ، کرافٹنگ موجود نہیں۔ طاہرہ اقبال ‘ اپنے کرداروں کی زبان سے فطری زبان بلواتی ہے ۔ اگر مگر والی اشاروں کی گفتگو ہوتی ہی نہیں۔ spontaneous گفتگو۔ کبھی جادو گری سے کسی کے کان کے نیچے تھیلا لٹکا کر وہاں سے انڈہ نہ نکالا۔ بس فطری بے نقاب دیہی سچائیاں ہیں۔ حتیٰ کہ اس نے تو الفاظ ، اصطلاحات، استعارات ، ضرب الامثال ، اور سُچی دعائیں اور گالیاں تک سب خالصتاً دیہات کے استعمال کیے ہیں۔ کبھی کبھی تو وہ پورے کے پورے فقرے پنجابی کے استعمال کرتی ہے ۔ یہ کتنا بڑا رسک ہے ۔ اس کے قارئین کی واضح اکثریت غیر پنجابیوں کی ہے مگر حیرت ہے کہ محض شہری اردو والوں کو پنجابی الفاظ کی یہ آمیزش گراں گزرتی ہے ۔ بقیہ لوگ کسی نہ کسی طرح تو دیہات سے وابستگی رکھتے ہیں۔ الفاظ مختلف ہوسکتے ہیں مگر دیہی فیوڈل زندگی کے مظاہر تو وہی ایک سے ہوتے ہیں۔ طاہرہ! مگر تم مایوس نہ ہونا۔ اپنی ماں کی بولی کا حق ادا کرتی رہنا۔ تمہاری زبان والے بیشک تمہیں کم پڑھیں ، مگر ’’تمہاری زبان بولنے والے مقتدرہ ‘‘ سے بھر پور دشمنی کے باوجود ، بلوچ تمہیں پڑھتا ہے۔۔۔ اور بہت تکریم سے پڑھتا ہے ۔
طاہرہ عورت کو بیان کرتی ہے ۔ عام اور سرسری نہیں ڈائی سیکٹ کر کر کے۔ آنکھ سے بھی ، اوردوربین خوردبین سے بھی۔ وہ نہ صرف پامال ، کچلی ، مسلی ہوئی عورت کو موضوع بناتی ہے ۔بلکہ وہ تو رانی ، مہارانی ، چودھرانی اوربیگم صاحباؤں کو بھی لکھتی ہے ۔ مگر اُس کی عورت ہو بہو شاہ لطیف کی عورت جیسی ہے۔ کراہیت ، بے جوڑ کی شادیاں ، اور جمالیاتی تمناؤں آرزوں کی قاتل جاگیرداریت میں بھی بغاوت کنندہ عورت۔ اپنی محرومی، پسماندگی ، جہالت ، بے حیثیتی اور بے بسی سے خوب شناسا عورت۔ مگر متحرک ، متجسس ، نبردآزما ۔۔۔اورایک بھر پور زندگی جیتی عورت۔ حِس اور اداراک والی عورت ، جو خود پر ہونے والے جبر کو سونگھ ، ناپ اور تول سکنے کی حس رکھتی ہے ۔ نہ وہ آمنّا کہتی ہے نہ صدقنا ۔ ظلم کے سامنے کیا صبر ،کیا شکر؟۔ طاہرہ کی عورت غیر منظم ہوتی ہوئی بھی اپنی نجات کے لیے نبردآزما ہے ۔ ۔۔۔ طاہرہ کے قلم کی عورت شدت سے محبت کرتی ہے۔ شدت سے وفا کرتی ہے ۔ محنت کی زندگی گزارتی ہے ۔ طاہرہ عورت کو وقار بخشتی ہے ۔ اُسے رعایت دیتی ہے ۔ اُس کا غرور ، اور گھمنڈ اور egoبچا کر رکھتی ہے ۔
میری راہنما جیسی یہ دوست مجھ سے چھ سال بر خوردار ہے ۔ وہ 20دسمبر1960کو پنجاب کے ساہیوال کے چیچہ وطنی کے ایک گاؤں میں ہماری داد اور تحسین و احترام پانے پیدا ہوئی۔
اس کے کان ،آنکھیں اور محسوس کرنے والی دیگر تین حواس ، محض اعضا کے بطور خلق نہ ہوئے تھے ۔ وہ ان سے محسوس ہی نہیں کرتی مشاہدہ بھی کرتی ہے ۔ گہرا ، کھرا اور ننگ دھڑنگ مشاہدہ۔
اکثر ایسا لگتا ہے کہ طاہرہ اقبال قاری کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ لائے بغیر سماج پہ زبردست طنز کر جاتی ہے ۔ نامعلوم و نامحسوس طور پر وہ جاگیرداری نظام کا تمسخر اڑاتی ہے ۔
اُس کے حج پہ جانے اور اُس کے بعد پی ایچ ڈی مقالے کی تیاری اور اشاعت کے سبب گوکہ سنگت میں اُس کے افسانے چھپنے کا سلسلہ سست رفتار ہوگیا تھا۔ مگر ہم اور ہمارے قاری کبھی اُسے بہت پُر تکلف اور محترمانہ ایس ایم ایس کرتے رہتے ہیں ، کبھی بے تکلف تحکمانہ انداز میں افسانہ بھیجنے کا کہتے ہیں۔ ۔ ہم قارئین کے مطالبات بھگت رہے ہوتے ہیں اور طاہرہ اقبال ’’جیسے یہ نہ جانتی ہو‘‘ کی مکمل تصویر بنی ہوتی ہے ۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ ’’سنگت ‘‘ کے بلوچستان میں طاہرہ اقبال کو خوب پڑھا جاتا ہے اور احترام ، دلچسپی اور توجہ سے پڑھا جاتا ہے۔ میں نے احباب کو اس کے افسانے پر بحثیں کرتے دیکھا ہے ، ’’کمال ‘‘‘ کا لفظ اُن سے یوں بار بار ادا ہوتا ہے جیسے اُن کا تکیہ کلام ہو۔ دل کرتا ہے طاہرہ کے نام کے ساتھ ’’ کمال‘‘ لگایا جائے۔ مگر تہذیبوں کی نازکیاں باریکیاں بھیانک جنگل بن کر مانع ہوتی ہیں۔ وہ چاہے نہ چاہے ، مانے نہ مانے طاہرہ اقبال سنگت اکیڈمی آف سائنسز کی پنجاب شاخ کی سربراہ ہے ، آج بھی، کل بھی۔
طاہرہ اقبال نے ایم فل کے لیے ’’منٹو کا اسلوب افسانوں کے حوالے سے ‘‘ کو عنوان چنا۔ بعد میں اُس نے اُسے کتابی شکل میں چھپوایا۔ 360صفحات کی اس تحقیقی کتاب میں جتنی عرق ریزی اُس نے کی اُس کو گواہی اُس کی بہت طویل ببلیو گرافی ہے ۔
اسی طرح ’’نگیں گم گشتہ‘‘ نام کا ایک سفر نامہ بھی اُ نے 2012میں لکھا ہے ۔ یہ بھارت اور بنگلہ دیش کے اُس کے سفر کی کہانی ہے ۔ نہیں چھیڑوں گا اس لیے کہ وہ یہاں مکمل طور پر یک طرفہ، اور جانبدار ہے ۔ ایسی طرف اور جانب کی جانب دار جو میری والی طرف اور جانب سے بالکل الٹ ہے ۔۔۔ المختصر ، وہ جو ہمارے حکمران ولی خان و بزنجو کو آخر تک یہ طعنہ دیتے تھے کہ انہوں نے پاکستان کو ’’ دل سے تسلیم‘‘ نہیں کیا۔ میں کہتا ہوں طاہرہ اقبال نے بنگلہ دیش کو ’’دل سے تسلیم ‘‘ نہیں کیا ۔ خامیاں دو طرح کی ہوتی ہیں ۔ ایک وہ جو خود آوازیں دے دے کر ، ڈھول دھمامہ پیٹ پیٹ کر اپنی اعلیٰ درجے کی موجودگی کی خبر دے۔ دوسری خامی وہ ہوتی ہے جو ہر سماج میں موجود ہوتے ہوئے بھی بہت نمائش میں نہیں ہوتی ۔ جب تک کہ بد خواہی میں آپ اُس کو کھوج کر ، کھود کر نہ نکالیں ۔ طاہرہ کے ہاتھ میں اس سلسلے کا بیلچہ بہت بڑا ہے ۔
اب آئیے اس کی کتاب’’پاکستانی اردو افسانہ‘‘ پر۔ ہمیں یقین ہے کہ جو انسان اس قدر اچھے افسانے لکھ سکتی ہے وہ افسانہ کی پرکھ پہچان میں بھی ماہر ہوگی۔
اس کتاب کے کل پانچ ابواب ہیں اور ہر ایک باب میں اوسطاً چار فصل ہیں۔
پہلے باب میں 1900 سے 1947کی تقریباً نصف صدی کے دورانیے میں افسانے کی حالت کا تذکرہ ہے ۔ جس کی ذیلی فصلوں کے عنوانات یوں ہیں:تمہیدی مباحث ، تاریخ وسیاست سے ادب کا تعلق، پاکستان کی تاریخ کا مختصر پس منظر، اور ، قیام پاکستان سے پہلے اردو افسانے میں تاریخی و سیاسی حالات کی ترجمانی ۔ اس باب کے آخر میں 164حوالہ جات دیے گئے ہیں۔
شروع کا یہ حصہ جسے ’’تمہیدی مباحث‘‘ کا نام ملا، غیر ضروری دُم لگتا ہے ۔ سیاست کیا ہے ، تاریخ کیا ہے ، تاریخ اور سیاست سے ادب کا تعلق کیا ہے۔ ایک تویہ موضوعات معلوم باتیں ہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ یہاں مصنفہ خودکھل کر کچھ نہ بولی۔ جن لوگوں کے حوالوں سے وہ بات کرتی رہی وہ بس مین سٹریم کے جگالی کنندگان ہیں جو بات کو اتنا گوندھتے ہیں کہ بات کی حرمت اور قدر گم ہوجاتی ہے ۔
ہمارت دانشوروں کی ایک عمومی عادت یہ ہے کہ وہ جب بھی برصغیر کی بات کر رہے ہوتے ہیں تو ایک دم ساری تاریخ کو کندچھری سے دوحصوں میں کاٹ دیتے ہیں: ہندوؤں اور مسلمانوں میں۔ اس موضوع پر ہمارے بظاہر بہت ہی انقلابی دانشوروں کی ساری روشن فکری یک دم ابو الا علی مودودی بن جاتی ہے ۔ اور ایک بار جب آپ یہ پوزیشن لیتے ہیں تو پھر یہ طوفانی دریا آپ کو اپنی مرضی سے چلنے نہیں دیتا بلکہ اپنے ساتھ بہالے جاتا ہے اور آپ کے پاس لکھنے کو پھر محمد بن قاسم اور ، راجہ داہر کی بیٹیاں رہ جاتی ہیں۔ وہ مغل ، ترک ، غزنوی ، اور غوری ڈاکوؤں ، اچکوں اور جرائم پیشہ حکمران کو ‘‘مسلمانوں کا دور‘‘ کہتے ہیں۔ مسلمانوں کی آمددر آتی ہے ۔ مسلمانوں کی حکومت کا ہزار سالہ دور یاد آجاتا ہے ۔ کس حسرت سے ‘‘مسلمانوں کے طویل اقتدار کا خاتمہ ‘‘ کا تذکرہ ہوتا ہے !۔
چونکہ طاہرہ اقبال بھی مکمل طور پر ملا عبدالعزیز کا برقعہ پہن کر یہ باب لکھتی رہی ہے ا س لیے اُسے محض انگریز اور مسلمان کے اصطلاحات یاد رہتے ہیں۔ اس فکس ادبی لسانی ماحول میں وہ ایسا دانشی جرات کر ہی نہیں پاتی کہ اگر ہمارا سب سے بڑا سامراج ’’انگریز ‘‘ تھا ، عیسائی نہیں، تو یہ بھی لکھ دیتی کہ یہاں اس کا مقبوضہ آدمی بلوچ ، سندھی پنجابی تھا، مسلمان نہیں۔ مگر وہ پاک دماغ بھی اُسی سازش کا شکار ہوجاتی ہے جس طرح دوسرے اردو لکھاری ۔ بھئی سید ھا عیسائی مسلمان لکھو۔ نہیں سنڈیمن بدمعاش محض انگریز ہے اور بہادر شاہ ظفر بد معاش ہوتے ہوئے بھی ترکمن نہیں، بلکہ مسلمان ہے ۔ (جب تک اللہ اِن لوگوں کو ہدایت دیتا ہے اُس وقت تک ہم مٹی کے ڈھیر کے نیچے پڑے ہوں گے !)۔
رجعتی فیوڈل علاقوں سے ابھری ہوئی اردو اپنے ’’سنگ بستہ‘‘ چوکھاٹ میں تقریبا ہر لکھاری کو جکڑ لیتی ہے۔ شاید اردو کی چوکھاٹ پہ وہ رویہ حاوی ہے جس کے تحت لکھنے والے کو جب کسی انقلابی کی تلاش ہوتی ہے تو اِس کی نظریں رحم علی ، ہو شو شیدی ، اورصمدخان اچکزئی پہ نہیں پڑتیں بلکہ اُس کے ڈیلے انگریز ایجنٹ ’’سر سید احمد خان میں پھنس جاتے ہیں‘‘ ۔ ’’ہندوستان کے مسلمان ، ہندوستان کے مسلمان ‘‘،’’ علی گڑھ تحریک ‘‘۔ ……یوں یہ عالم محقق ہماری والی آزادی کی تلخ وطویل جنگ کو تحریک نہیں کہتی ، بلکہ احمد خان کے یک نفری کام کو تحریک کہتی ہے ۔
ہماری یونیورسٹیاں جب سر سید سے نکلتی ہیں تو ایک اور شب کوری میں مبتلا ہوجاتی ہیں اور سیدھا 1947تک آجاتی ہیں ۔ درمیان میں اُنھیں کچھ نظر نہیں آتا۔ نہ میامی کی جنگ ، نہ نفسک و ساڑتاف ، گمنبد، ترک ،اور، گوخ پروش کی جنگیں۔۔۔ کیسے کیسے اچھے دانشوروں کو ہم نے بے معلومات رکھ کر انہیں جہالت کے ترجمانوں کی حد تک گرادیا ہے ۔ ہماری، سستی ،کا ہلی اور سماجی غیر ذمہ داری نے رجعت کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ لہذا طاہرہ جیسے سونے لکھاری کو بھی ترنگزئی ،کاکاجی، یوسف مگسی ، امین کھوسہ، صمد خان اچکزئی، عبدالعزیز کرد، عنقا کچھ بھی نظر نہیں آتا۔
لہٰذا یو پی سی پی ، لدھیانہ ، مسلم لیگ ، اور سیالکوٹ ہی جغرافیہ کی تاریخ ہے اور تاریخ کا جغرافیہ ہے اور ۔۔۔ پھر پاکستان بن جاتا ہے ۔ کسی جنگِ آزادی ، کسی شہید کا ذکر تذکرہ نہیں۔ لہٰذا جیسا پہاڑ ویسے جانور کے مصداق وہ انہی افسانہ نگاروں کا تذکرہ کرے گی جو سرسیدی پہاڑ کے جانور ہیں۔ طاہرہ ایک لحاظ سے بے قصور بھی ہے ۔ بھئی جب اردو میں لکھاہی یہی کچھ گیا ہے تو وہ کہاں سے سامراج دشمن افسانے لاتی ۔ بد قسمتی سے اردو کا اٹھان اور ترقی ہی اُس علاقے میں ہوئی جہاں سامراج دشمنی اور جنگ آزادی موجود ہی نہ تھی۔ اس سلسلے میں طاہرہ اقبال بالکل بے قصور ہے ۔ ( اور مجھ سمیت اُس کے فین ، طاہرہ پہ میری تنقید پہ مجھ پر ٹھیک تنقید کرتے ہیں)۔
البتہ اتنا تو ضروری تھا کہ وہ انگریز سے آزادی کی اِن بہت بڑی اور مسلسل جنگوں کا کم از کم ذکر کرتی ۔ ایسے بڑے واقعات اور حقائق کو دفن کر کے پاکستانی رجعتی یونیورسٹیوں سے پی ایچ ڈی کی ڈگریاں تو وصول کی جاسکتی ہیں۔ مگر کتابی صورت میں چھاپنے کے بعد ایسی کبیرہ گناہوں کی گرفت سے بھلا کیسے بچا جاسکتا ہوگا۔
اس کتاب کا دوسرا باب ’’نوز ائیدہ مملکت پاکستان کے مسائل اور اردو افسانہ‘‘ ہے ۔ یہ 1947 سے 1958تک کا دور ہے جس میں محترمہ طاہرہ اقبال نے پاکستان کے ابتدائی مسائل، ہجرت کا موضوع اور اردو افسانہ ، مسئلہ کشمیر اور اردو افسانہ ، مسئلہ فلسطین اور اردو افسانہ کے موضوعات سے زبردست کُشتی لڑی ہے ۔ وہ ٹھیک کہتی ہے کہ اِس دور انیے میں اردو افسانہ زیادہ تر پنجاب اور ہندی مہاجروں کے اُن مصائب پر مشتمل ہے جو تقسیم ہند کے دوران فسادات پر مبنی ہے ۔ اور اردو چونکہ ’’ وہیں ‘‘ تھی اس لیے اس کا افسانہ بھی وہیں کی مڈل کلاس کی زندگی کے گرد گھومتا رہا ہے ۔ مقامی اکثریتی آبادی اور پھر سندھ بلوچستان اور پختونخواہ کا تذکرہ ہی گول ۔۔۔۔ اردو افسانے کے پاؤں اسی لیے تو آج تک زمین پہ آنے سے محروم ہیں۔
ہم سب جانتے ہیں کہ نیا ملک بھی انہی دو کمیونٹوں کی تمناؤں کے ٹوٹنے کے واقعات جنم دیتا رہا ۔ کلیم ، لوٹ مار، بے یقینی اور چھینا جھپٹی اُسی روزسے اِن دونوں کمیونٹیوں کی نفسیات میں یوں گھل مل گئی کہ آج تک بقیہ پاکستان اُس کی بھینٹ چڑھا ہوا ہے ۔ اِدھر لوٹو، اُدھر قبضہ کرو۔ غلام محمد بیراج، گوادر ، حتیٰ کہ افغانستان ۔ قبضے کی بھوک ہے کہ ختم ہونے کو نہیں آتی۔
259حوالہ جات سے مزّین اِس باب میں عرق ریزی اور محنت اپنے عروج پہ ہے ۔
کتاب کا تیسرا باب ’’اردو افسانہ پر مارشل لا اور جنگوں کے اثرات‘‘ پر مشتمل ہے جو کہ 1958سے 1971تک کے دردناک زمانے کا احاطہ کرتا ہے ۔
اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مارشل لا میں بھی مین سٹریم (سٹیٹس کو) اردو افسانے کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ مارشل لا کھل کر بات کرنے کہاں دیتا ہے ۔لہٰذا عوامی امنگیں لیا ہوا افسانہ اب الفاظ اور فقروں سے ایسی آنکھ مچولی میں لگ گیا کہ ابلاغ کا ایک بالکل ہی نیا اور متبادل نظام سامنے آگیا۔ علامتی بات، تجریدی بات، گرفت سے بچنے والی بات ۔۔۔ چونکہ مارشل لا ہمیشہ عقیدہ کو ساتھ لاتا رہتا ہے اس لیے مذہبی باتیں اردو افسانہ کا جزوِ لانیفک ٹھہریں۔ اوپر سے فلسطین اور کشمیر کے المیوں نے انسانی کی بجائے ( سندھی بلوچی اور پشتو کے برعکس) پنجاب اور کراچی کے درمیانہ طبقے میں مذہبی رنگ اختیار کرلی۔ لہٰذا اردوافسانہ میں الفاظ ، اصطلاحات ، اور استعارے مذہبی لغات والے در آئے ۔ اسی زمانے میں پاکستان ہندوستان جنگیں ہوئیں۔ چنانچہ مذہبی رنگ والی حب الوطنی والا اردو ادب تخلیق ہونا فطری بھی تھا اور اس میں اسٹبلشمنٹ کی مرضی بھی تھی۔
واضح رہے کہ اس باب میں قیام بنگلہ دیش (جسے ہماری دوست ’’ سقوط مشرقی پاکستان‘‘ کے معنی خیز نام سے یاد کرتی ہے ) کا عرصہ بھی شامل ہے ۔ بنگال کا بنگلہ دیش ہوجانا گوکہ دو قومی نظریے کی کامیابی ٹھہری ، اور کچھ افسانے اس واقعہ سے سبق لینے کا اشارہ بھی کرتے ہیں مگر عمومی مزاج تو سیٹ ہوچکا تھا، اُس میں کم ہی تبدیلی آئی۔ جمہوریت، بھٹوئی نعرے بازی، بلوچستان میں فوج کشی جیسے بڑے واقعات بھی سٹیٹس کو کے ادبی قلعے کو ہلانہ سکے ، جسے ریاست نے بہت استادی سے حصار بنادیا تھا۔
تین فصلوں پر مشتمل اس باب میں 274تحقیقاتی حوالہ جات موجود ہیں۔
چوتھا باب 1977سے لے کر 1988 تک کے برسوں پہ محیط ہے جسے طاہرہ ’’شدت پسندی کا عہد ‘‘ کہتی ہے ۔ یہاں مردِ مومن کے مارشل لا کی پہلی فصل ہے، بھٹو کی پھانسی دوسری فصل ہے اور یہیں ‘‘سندھ کے نسلی ولسانی مناقشات میں اردو افسانہ ‘‘کی سرگزشت بیان کی گئی ہے ۔ اُدھر پنجاب میں شہروں کے مڈل کلاس میں ضیا کے مارشل لا کی مقبولیت زبردست تھی۔ ڈیرہ غازی خان ہائی سکول سے لے کر پنجاب یونیورسٹی تک طلباء ، اساتذہ ، اور کلرک سب جماعت اسلامی کے قبضے میں تھے (اور آج تک ہیں) ، اور جماعت اسلامی ضیا کے ساتھ تھی۔ مگر جب ضیا ذرا زیادہ طویل ہونے لگا تو مڈل کلاسز (خواتین ، وکلا اور سیاسی پارٹیوں کا ) ایک حصہ سیاسی سرگرمیوں پہ عائد بندشوں کو محسوس کرنے لگا۔ بالخصوص بھٹو پھانسی نے (اُس کی پارٹی لیڈر شپ کو چھوڑ کر) و رکرز اور عوام الناس کو توجھنجوڑ ڈالا۔ اس قدر کہ لگتا تھا کہ انقلاب ہی آئے گا مگر انقلاب ، یہاں کی بجائے افغانستان میں آیا۔ بس پھر کیا تھا، پاکستان کی رجعتی اسٹبلشمنٹ نے یک دم پڑوس کے اُس انقلاب کی مخالفت میں امریکہ اور یورپ کو ساتھ لیا ، مشرقِ وسطی کے شاہوں شیخوں کی گرفت والی ریاستوں سے پیسے لیے اور یوں ، ہر محاذ پر افغانستان ، اور چنانچہ سوشلزم کے خلاف لڑائی شروع کردی۔ مذہبی شدت پسندی اور جنونیت ترانہ، نعرہ ، افسانہ ، ناول ، اورصحافت کا موضوع رہیں۔
فہرست کے صفحہ نمبر اور اصلی نمبروں میں فرق والے اس باب میں کل 297حوالہ جات سے استفادہ کیا گیا ہے ۔
آخری پانچواں باب1991سے لے کر2015تک ہے جسے اس نے ’’دہشت گردی کا موضوع اور اردو افسانہ ‘‘کا نام دیا ہے ۔ یہیں اسلامی ایٹم بم دھماکے پر ، ایٹم سائنس کے پی ایچ ڈی سائنسدان چاغی کے دوستیں وڈھ کی سنسانی کو نعرہِ تکبیر کی صداؤں سے گونجواتے رہے ۔ اس محقق کے بقول شروع میں اردو افسانے نے خیر مقدم کہا بعد میں آنکھیں کھلیں تو ’’غلط غلط‘‘ کی کچھ مدہم آوازیں بھی آنے لگیں۔
اور پھر ، سوویت یونین روس بن گیا۔ نجیب ، چوک میں پھانسی چڑھا۔اور ملا عمر، نواز شریف کی تشنہ آرزو پر پانی پھیر کر خود امیر المومنین بن گیا۔ داڑھیاں ناپی جانے لگیں، گلے کٹنے لگے، بم پھٹنے لگے ۔ الغرض جو کچھ حکمرانوں نے بویا تھا وہ اب ( انہیں نہیں ، بلکہ پورے سماج کو) مل رہا تھا ۔ خیبر پشتونخواہ، بلوچستان اور سندھ برباد ہوئے ۔
’’بلوچستان کا مسئلہ اور اردو افسانہّ ‘‘بھی اسی باب’’دہشت گردی اور اردو افسانہ ‘‘میں شامل ہے ، پتہ نہیں کیوں؟ ۔ اِس اچھی انسان کی نیت پہ ہم کیوں شک کریں۔ بلوچستان رجعتی لکھاریوں کو تو باہم متحدو متفق کر گیا جنہوں نے اسے ہمیشہ را، اور، خاد کے حقیر تناظر میں دیکھا۔ مگر یہ پاکستان کے عوام پسند لکھاریوں کو بھی اپنی طرف مائل نہ کرسکا۔ محض’’ چند‘‘ بلوچ اور ’’ بہت ہی چند‘‘ غیر بلوچ ادیب بلوچ سیاسی معاملہ کو سمجھ سکے۔ مگر وہ بھی بہت مشروط طور پر ، اور اگر مگر سے پُر۔ طاہرہ اقبال انہی اچھے انسانوں میں شامل ہے ۔ گوکہ وہ یک طرفہ سرکاری اطلاعات کی بھر مار میں بھی تفکر کی مشین استعمال کرتی ہے ۔ اور بہت آدھی ہی سہی مگر اُس سچائی تک پہنچ جاتی ہے جس کے اندر ہمارے عوام زندگی گزار رہے ہیں۔
اس باب کے بقیہ تین فصلوں میں ایٹمی دھماکے اور اردو افسانہ ، مشرف مارشل لا، اور ، نائن الیون کے پس منظر کا اردو افسانہ شامل ہیں۔
۔225حوالہ جات کے اس باب کے بعد نوصفحات پر مشتمل ماحصل دیا گیا ہے ۔
****
طاہرہ اقبال سے جب بھی فون پہ بات ہوتی ہے تو وہ ایک بات کھل کر کہتی ہے ۔۔۔۔ وہ ادیبوں دانشوروں میں موجود بے شمار سپر مینوں کے سخت خلاف ہے ۔ تماشایہ ہے کہ تقریباً تقریباً وہی ، یا پھر دوسرے ادبی سپر مین ہر حکومت کو مل جاتے ہیں ۔ اے این پی ، پیپلزپارٹی، مسلم لیگ، یا نیشنل پارٹی۔ جس کی بھی حکومت آجائے اُسے ایسے مہا قد آور ادیب و دانشور مل جاتے ہیں جن کا نہ کوئی مقصدِ حیات ہے اور نہ سماجی حیات سے کوئی وابستگی ۔ بس بدبو دار فکر پہ یوڈی کلون سپر ے کر کے سردار اور سرکارکی قربت حاصل کرلی۔ اور فتوی لگادیا: یہ ادبی فرقہ حلال، وہ فرقہ حرام۔ طاہرہ اقبال سماجی لڑھکن میں لڑھک کر حلال فرقہ میں جائے بھی تو فوراً سنبھل جاتی ہے ۔ اور یکدم واپس عوامی گروہ میں آن موجود ہوتی ہے ۔ ظاہر ہے اس پر مِن من تو کرے گی ہی مگر وہ اِس من من سے عزیزوں رشتے داروں کی زبانیں تو بند نہیں کرسکتی جو ہمیشہ زبان، آنکھوں ، ابروؤں ، گردنوں ، کے اشاروں سے بولتی رہتی ہیں:’’ فلاں کو دیکھو کہاں پہنچ گیا اور تم۔۔؟‘‘۔
ہم اسی ’’ تم ‘‘ کے ساتھ ہیں۔
حوالہ جات
۔1۔ طاہرہ اقبال ۔ دیہی عورت اور ہڑپہ کی قدیم تہذیب۔ ماہنامہ سنگت کوئٹہ ۔ اکتوبر 2011صفحہ 48
۔2۔ ایضاً
۔3۔ صدیقی، محمد علی۔طاہرہ اقبال کی افسانہ نگاری۔ ماہنامہ سنگت، کوئٹہ ۔مارچ 2011صفحہ۔ 4 2