’’بدن دریدہ‘‘ کی اشاعت سے اور تو جو کچھ ہوا یا نہ ہوا، لیکن اُردو تنقید میں چند سطروں کا دائمی اضافہ یقیناًہوگیا۔ اس کی اشاعت کے بعد سے اب تک کسی بھی شاعرہ یا ادیبہ کی نگارشات پرایسی تحریر شاذ ہی میری نظر سے گزری ہے جس میں یہ اضافی معلومات موجود نہ ہوں:
’’فلاں فلاں شاعرہ، اپنی نسوانیت پر احتجاج نہیں کرتیں۔ وہ جرأت مند ضرور ہیں۔ مگر بے شرم نہیں ہیں۔ وہ شاعری ضرور کرتی ہیں مگر تہذیب کے دائرے میں رہ کر…‘‘
تب کیا اُردو کے مضمون نگار کسی بھی ادیبہ/ شاعرہ پر لکھتے ہوئے ’’بدن دریدہ‘‘ کے بھوت سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکتے؟ کیا یہ انھیں اس بری طرح ستاتارہتا ہے؟ کیا یہ ابلیس تھا، جس نے تنقید کے ان خداؤں کو زچ کر دیا؟ چلیے یہ بھی خوب ہوا:
میں کھٹکتا ہوں دِل یزداں میں کانٹے کی طرح
تو فقط اللہ ہو، اللہ ہو، اللہ ہو
بقول غالب :۔
یک قدم وحشت سے درسِ دفتر امکاں کھلا
تو اے عزیز مضمون نویسو اور تنقید نگارو! یہ کتاب ایک بھوت کیوں بن گئی آپ کے لیے؟ وجہ صاف ظاہر ہے۔ آپ نے بھی تو اسے اذیتیں دے دے کر مار ڈالنے کی کوشش کی تھی۔ پس تو اسی لیے یہ ایک چڑیل، ایک پچھل پائی بن کر آپ کا تعاقب کر رہی ہے اور جب بھی آپ کسی مرگھٹ، شمشان یا قبرستان سے گزرتے ہیں، (یعنی تنقید لکھتے ہیں) تو یہ آپ کو بے خبری میں آلیتی ہے۔ اب آپ کی نجات اسی میں ہے کہ اپنے گناہوں (کج فہمی) سے توبہ کریں، اپنے ظلم (بد ذوقی) پر نادم ہوں اور اگر بتیاں سُلگا کر نیاز دیں۔ امید ہے افاقہ ہوگا۔ اب جو مضمون آپ پڑھیں گے وہ اسی امید پر لکھا جارہا ہے۔
’’بدن دریدہ‘‘ کی اشاعت ۷۳ء/۷۴ء میں ہوئی تھی۔ اس کی اشاعت نے جو ہنگامہ برپاکیا اس نے مجھے حیران و پریشان کر دیا تھا۔ سب سے زیادہ بے بسی میں اس بات پر محسوس کرتی تھی کہ اس کے ایسے مطلب نکالے جارہے تھے جو میرے خواب و خیال میں بھی نہ تھے۔ تب سے اب تک ایک زمانہ گزر گیا۔ ایک نسل جوان ہوئی ایک نسل بوڑھی ہوگئی اور اس کے بہت لوگ آج دنیا میں نہیں ہیں۔ لیکن آج بھی مختلف مضامین میں مجھے اس کی نظموں کے مطالب کے بارے میں ایسی باتیں نظر آتی ہیں جو ان کے نفسِ مضمون سے قطعی مختلف ہیں۔ شاید مجھے ان نظموں کو فٹ نوٹسں کے ساتھ شائع کرانا چاہیے تھا۔ یہ نافہمیاں مستقبل میں دور ہوجائیں گی۔ اب میں اتنی خوش گمان نہیں رہی ہوں۔ اسی لیے روئے زمین سے معدوم ہوجانے سے پہلے میں ان کا مطلب بتا ہی دوں تو بہتر ہے۔ میں اپنی ان مظلوم نظموں کے ساتھ کچھ انصاف کرکے رخصت ہونا چاہتی ہوں۔
’’بدن دریدہ‘‘ کی نظموں میں گہرا کرب و غم ہے، شدید کشمکش ہے، مگر اس میں سرخوشی بھی ہے اور ضاعی اور کاریگری بھی۔ اس کی چند نظمیں بلاشبہ شاعرہ کا یہ خیال ظاہر کرتی ہیں کہ سیکس انسانی تجربوں کا ایک بے مثال مسرت خیز، نشاط آفریں، جُز ہے۔مگر ناقدین اس پر غصّے سے پیچ و تاب کیوں کھانے لگے؟ انھیں یہ بات فحش کیوں معلوم ہوئی؟ کیا جدید اُردو شاعری میں ایسا کسی دوسرے شاعر نے نہیں کہا؟ اگر اس سوال کا جواب ’’شاید نہیں!‘‘ ہے تو پھر اس شاعری کو ہمارے یہ معزز اور عالم و فاضل تنقیدی معترضین اُردو شعری ادب کے سرمائے میں ایک قابل قدراور اہم اضافہ کیوں نہیں سمجھ رہے؟ یہ اس کا مطلب مسخ کرکے اسے ذہن کی پراگندگی کیوں ثابت کرتے رہے؟
اس کائنات کی ہر جاندار شے میں سیکژ والٹی ایک ایسی انوکھی تحریک ہے جس کی مادّی، نفسیاتی اور روحانی جہات اور مضمرات شاید نامعلوم ہیں۔ اس کے مظاہر کا تعین ہی اہل فکر کے لیے ایک چیلنج رہا ہے۔ ان لاتعداد پہلوؤں میں جو جہات واضح طور پر ابھرتی ہیں ان میں ’’فعالیت‘‘ بھی شامل ہے۔
’’بدن دریدہ‘‘ کی بعض نظموں میں اگر آپ کو عورت کی سیکژوالٹی کا اظہار ملتا ہے تو اسے مبتذل، بے شرمانہ وغیرہ سمجھنے کے بجائے اس ادراک کے ساتھ پڑھنا چاہیے (جومرد شعرا کے کلام کا مطالعہ کرتے ہوئے ازخود آپ کو حاصل ہوجاتا ہے) کہ اس کا تعلق محض ایک جسمانی عمل سے نہیں ہوتا بلکہ فرد کی ذات کے اثبات سے بھی ہوتا ہے۔ عام مردوں میں اس کوباعث افتخار اسی لیے سمجھا جاتا ہے کہ وہ غیرشعوری طور پر محسوس کرتے ہیں کہ یہ نسل بڑھانے کی حیوانی جبلت سے بڑھ کر ایک ایسی پرُ اسرار قوت ہے جس کی جڑیں کائنات یا معاشرے میں ان کے فعال کردار ادا کرنے کی صلاحیت میں ہیں۔ اسی طرح عورت کے لیے بھی سیکژوالٹی کا اظہار اپنے آزادو باوقار فعال وجود کا اثبات ہے۔
’’بدن دریدہ‘‘ پر ایک انتہائی ذلّت انگیز تبصرہ یہ تھا کہ’’ یہ نظمیں لوگوں کو چونکانے کے لیے لکھی گئی ہیں۔ لکھنے والی سنسنی پھیلا کر توجہ کا مرکز بننا چاہتی ہے اور اپنے عورت ہونے کا ناجائز فائدہ اٹھا رہی ہے۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ اگر مجھے ذرا بھی اندازہ ہوتا کہ اس پر اتنا شدید اور اس نوعیت کا ردِعمل ہوگا تو یہ نظمیں شاید لکھی تو پھر بھی جاتیں مگر انھیں شائع کرنے سے پہلے میں دو مرتبہ سوچتی۔ شاید اشتیاق کی جگہ بڑی تشویش اورصنفی تعصب ختم کرنے کی کم سے کم پندرہ صفحات پر مشتمل درد مندانہ اپیل کے ساتھ شائع کرواتی۔
کسی بھی شاعر یا فنکار کے پاس اپنے فن کے تعلق سے ماضی کی تخلیقات کا ایک خزانہ ہوتا ہے۔ اُردو ادب، جو مجھے ورثہ میں ملا، کوئی زاہدانہ، خشک، تنگ نظر ملفوظات کا پشتارہ نہیں تھا۔ یہ صد رنگ پھولوں سے بھری شاداب وادی کی طرح تھا جس میں کوئی نیا لکھنے والا اپنے لیے منفرد راستہ بناسکتا تھا۔ وصل وفراق کے مضامین اس میں عام تھے اور ان کی تفسیر متعدد طریقوں سے مجازی یا آفاقی ہوسکتی تھی۔ گو سچ یہ ہے کہ کلاسیکی شاعری کا ضخیم حصّہ، جس عشق، ہجر یا وصال کا تصور پیش کرتا ہے وہ مجازی یا حقیقی، دونوں صورتوں میں عورتوں کو نہیں بلکہ خوبصورت لڑکوں، خوبصورت مردوں کو مدنظر رکھ کر لکھا گیا ہے۔ شاعر اگر مجاز کے راستے سے حقیقت تک پہنچتا تھا تو وہ مجاز بھی ایک مرد ہی تھا۔ میں اس پر ہرگز معترض نہیں ہو رہی ہوں۔ یہ نہایت اعلیٰ درجے کی شاعری ہے اور اس کے حسن میں کلام نہیں۔
لیکن اس حقیقت کا کیا کیا جائے کہ عورت ایک اصلی وجود بھی ہے۔
’’عورت‘‘ اُردو کی قدیم و جدید شاعری میں بھی موجود ہے۔ لیکن اس سے عشق، ہجر، یا وصل (جو ظاہر ہے ہمیشہ مجازی ہے، یہاں حقیقت تک پہنچنے کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے!)اس کے جسم کے پُر از تشبیہات بیان کے سوا کسی دوسری سطح پر نہیں ملتا۔ یقیناًیہ تمام تشبیہات ،استعارے، کنائے، معاملہ بندیاں، مرد قارئین کے لیے ایروٹک بھی ہیں اور ان کی جمالیاتی خوبیاں بھی۔اس کے باوجود کیا یہ اس قدر حیرت کا موجب ہے کہ عورت انھیں پڑھتے پڑھتے اکتا جائے اور محسوس کرے کہ اس کے وجود کو ہی محض چند ’’چیزوں‘‘تک گھٹایا جارہا ہے؟ یہ انار،ناشپاتیاں، کنول، متعدد قسم کے پھل پھول اور سبزیاں جن پر تقریباً تمام شعرا حضرات نے حتی المقدور طبع آزمائی کی ہے، کیا کسی گڑیا کے بارے میں ہیں جس کے اندر روئی بھری ہوئی ہے؟
’’بدن دریدہ‘‘ کی نظموں میں نسوانی جسم کے اعضا کا نام اس لیے آیا ہے کیوں کہ یہ ’’چیزیں‘‘ نہیں، عورت کے وجود کا حصہ ہیں۔ علامتیں استعمال نہیں کی گئی ہیں کیوں کہ ان نظموں میں یہ اعضا بذاتِ خود ایک جذبے، ایک انکار کی علامت بن جاتے ہیں۔ ان میں لفظ ’’پستان‘‘ صرف عورت کی چھاتی نہ ہوکر ایک شدید غصے کا استعارہ ہے۔
ان نظموں میں نسوانی جسم کا حوالہ اس لیے تکرار سے آیا ہے کہ وہ کائنات ہو یا معاشرہ، یا مرد سے رشتہ، ہر تناظر میں صدیوں سے عورت کو آپ نے اُس کے بدن کے حوالے سے ہی دیکھا ہے اور اس کے رول کا تعین کیا ہے۔
سو اس حوالے کے ساتھ ان نظموں میں وہ خود گفتگو کر رہی ہے۔ آپ ان کو سمجھے بغیر ناخوش ہوئے۔ اگر سمجھ جاتے تو اور بھی برافرختہ ہوتے کیوں کہ ان کے معنی وہ کچھ اور بیان کر رہی ہے، جو آپ کی مقرر کردہ ’’تعریف‘‘ سے مختلف ہیں۔
مگر ابتدا میں عورتوں، حتیٰ کہ کئی عورت ادیبوں کا رویہ خاصاا لجھا ہوا تھا۔ وہ یہ طے نہیں کر پاتی تھیں کہ یہ نظمیں ان کے اپنے دل کی بات کہہ رہی ہیں یا ان کے محفوظ معاشرتی مقام ہی پر کوئی سوال اٹھا رہی ہیں۔ وہ مطمئن نہیں تھیں اور مردوں کی کہی ہوئی ان باتوں پر (بعض اوقات مردوں سے بھی پہلے) یقین کرسکتی تھیں کہ یہ سب کچھ محض سنسنی پھیلانے کے لیے لکھا جارہا ہے۔ اس طرح کسی مختلف، بے چین کر دینے والی تحریر کو، اس کی خالق سمیت، ایسے خانے میں ڈال کر، جس کا حقیقی زندگی سے واجبی ساتعلق بھی نہ ہو، چین کی سانس لی جاسکتی ہے۔ یہ سوچنا تسلی بخش ہوسکتا ہے کہ یہ تو ایک عجوبہ ہے یا سنکی ہے یا شہرت کی دیوانی ہے۔ اصل زندگی، ہماری موجودہ مروج اقدار، معاشرے میں ہمارامقام، وہی ہے جیسا ہمیشہ تھا اور ہمیشہ جسے ویسا ہی رہنا ہے۔
اس کے باوجود وہ صرف چند عورتیں ہی تھیں، کشور ناہید، زہرہ نگاہ، ہاجرہ مسرور، جنھوں نے ان نظموں کو سمجھا۔ آخر الذکر دو غالباً کچھ Shocked ضرور تھیں لیکن پھر بھی وہ دوسرے لوگوں کی طرح انھیں ’’لذت انگیز خود نمائی ‘‘ کے کرتب نہیں سمجھ رہی تھیں۔ اُس کڑے دور میں ان کی ہمدردی اور سمجھ داری سے لبریز نسوانی نگاہیں میرے لیے جلتی دھوپ میں کسی مہربان ٹھنڈے سائے کی طرح تھیں!
مگر ہمارے تنقید نگار، ادب کے پارکھ، لفظ ’’پستان‘‘ کے بعد ان نظموں کا مزید ایک لفظ بھی پڑھنے پر آمادہ نہ تھے۔ وہ اپنی اعلیٰ تر’’ قیافہ شناسی‘‘ سے بھانپ چکے تھے کہ اب ان نظموں میں اور ہوگا ہی کیا!
کیا یہ لفظ جدید اُردو شاعری میں پہلی بار آیا تھا؟
’’خدا حشر میں ہو نگہبان میرا
کہ دیکھی ہیں میں نے
مسز سالا مانکا کی آنکھیں
وہ بانہیں، وہ رانیں، وہ پستان!‘‘
ان سطروں پر کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ بلکہ شاید زانو پر ہاتھ مار کر ’’ہائے ظالم مار ڈالا!‘‘ کا نعرہ بلند کیا گیا۔ (ن م راشد صاحب نے یہ لکھی بھی اسی موڈ میں ہیں) لیکن۔
ابھرے پستان سے اوپر
اقلیما کا سر بھی ہے
پڑھ کر آپ غصّے سے کانپنے لگے۔ جب آپ نے پڑھا۔
ابلے لہو کے جوش سے
پستان اس کے پھٹ چکے
تو آپ نے کتاب اٹھا کر دور پھینک دی!
ایک نظم ’’میگھ دوت‘‘ کی ان سطروں پر شدید لے دے ہوئی۔
میں کہ بنتِ ہجر ہوں
میری ایسی پیاس ہے
میں کہ میرے واسطے
وصل بھی فراق ہے
مجھ میں ایسی آگ ہے
اس کے جو معنی نکالے جارہے تھے اس نے پہلے تو مجھے چکرایا اور پھر گنگ سا کر دیا۔ مطلب یہی سمجھا جارہا تھا جسے لکھتے ہوئے ہی کوفت ہوتی ہے کہ لیٹرلی، شاعرہ کی تسلی نہیں ہوسکتی۔ اس کی تو پیاس ہی نہیں بجھ سکتی۔ وہ خود کہہ رہی ہے۔
بدنصیب شاعرہ نے یہاں صرف ایک فلسفیانہ اُڑان بھرنے کی جسارت کی تھی۔ (بے شک، فکر ہر کس بقدرِ ہمت اوست) یہ سطریں اُس دوئی کی جانب اشارہ کرتی ہیں جو ہر ’’من وتو کے درمیان موجود رہتی ہے۔ یہ ان گنت فلسفیوں، شاعروں، مفکروں کا صدیوں سے مشاہدہ رہا ہے۔ انسان میں اپنے وجود کو کسی دوسرے وجود میں ضم کرنے کی ایک ناقابل وضاحت طلب رہتی ہے۔ یہ کیا ہے؟ صوفیائے کرام نے اسے خدا سے وصل کی آرزو بتایا۔ اسے فطرت یا عناصرِ فطرت سے وصل کی خواہش بھی سمجھاگیا ہے۔ (رومی نے اس کی یہی تعبیر کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ موسم بہار میں ہمارا دل اسی لیے خوش ہوجاتا ہے، کیوں کہ یہ سبزہ ہمارے وجود کا ایک روپ تھا۔) کیا انسان اپنی اصل کی طرف لوٹنا چاہتا ہے، اس کے اندر دوبارہ مدغم ہونا چاہتا ہے؟ انسان نے اس بات پر ہزاروں برس سے غور کیا ہے۔ اس کا کوئی حتمی جواب نہیں۔ (اور اگر ہے تو میں نہیں جانتی۔) مگر اس نظم میں میرا مطلب یہی تھا۔ برصغیر کی تہذیبی روایت نے ہمیں ’’کرشن‘‘ کا ورثہ بھی دیا ہے۔ ایک دیوتا جو، اتنا سیاہ تھا کہ نیلا نظر آتا تھا، مگر وہ دیوتا ہے۔ اس قوت کا مظہر جس نے انسان اور کائنات کو تخلیق کیا۔ (یہ ایک نیلے رنگ کا مرد نہیں۔) بارش کئی عناصر میں روح سی پھونک دیتی ہے۔ ہوا، مٹی، پانی، سب اپنے آپ کو محسوس کراتے ہیں۔ سو وہ دوئی، جو انسان کو انسان سے محسوس ہوتی ہے،شاید ان جاگے ہوئے عناصر میں مدغم ہوسکے۔ میں اس کا حصہ بن کر اپنی ذات کھو دوں اور پُرسکون ہوجاؤں۔
اس پوری نظم کا مطلب کیا ہے؟ یہ نظم پڑھ کر ہی کوئی محسوس کرسکے تو کرسکے۔ اس کے معنی اس سے علیحدہ نہیں، اس کے اندر ہی ہیں۔ لیکن چند نکات کے بیان کے بعد شاید ان حیران کن معترضین کو اس کے معنی اتنے مبتذل نہ نظر آئیں۔ واللہ اعلم!
میرا جرم شاید یہ تھا کہ میں نے شاعرانہ خمار میں خود کو ’’بنتِ ہجر‘‘ کہا، ’’پیاس‘‘ اور ’’آگ‘‘ کے الفاظ استعمال کیے اور اس اندیشے کو مسترد کردیا کہ معاشرے میں حتیٰ کہ ادب میں، ایک عورت کے قلم سے یہ الفاظ کیا شدید ردعمل پیدا کریں گے اور لوگوں کے دماغ کو کہاں کہاں لے جائیں گے۔ اگر یہ نظم، بالکل ان ہی الفاظ میں کوئی مرد شاعر لکھتا، تب بھی کیا اس کا ایسا ہی اثر ہوتا؟
میں فرزندِ ہجر ہوں
میرے اندر ایسی پیاس ہے۔
میرے لیے وصل بھی فراق ہے
میں میگھ رس میں بھیگ کر ہانپ رہا ہوں
تو جو اپنے بالوں کو ہوا کے دوش پر
اُڑاتی ہوئی آئی ہے، میگھ کی دیوی
میرا دل کہہ رہا ہے
کہ مدھر ملن کی گھڑی یہی ہے
آپ دیکھ سکتے ہیں۔ نظم پہلے جیسی نہیں رہی۔ اب آپ کے لیے اس میں وقار پیدا ہوگیا۔ شاعر کو کوئی ایسا عورت باز نہیں سمجھے گا جس کی تسلی ہی نہ ہوتی ہو۔ اب آپ کی نظر میں ہجر اور وصال کے معنی ہی بدل گئے۔ آپ کہیں گے، کیا خوبصورت نظم ہے! آپ پر اس کی جہات آشکار ہوجائیں گی۔ آپ سمجھ جائیں گے کہ شاعر صرف کسی سندر ناری سے نہیں بلکہ کسی برتر آفاقی قوت سے ہم آغوش ہونا چاہتا ہے۔
سنہ۳ ۷/۷۴ء کا زمانہ میں نے ہفتوں، مہینوں، پیدل چلتے ہوئے، یہ سوچتے ہوئے گزارا کہ انسان اور عورت ہونے میں کیا فرق ہے۔ شاید یہ دو الگ الگ چیزیں نہیں۔ لیکن یقیناًیہ ایک ہی بات بھی نظر نہیں آتی!
’’بدن دریدہ‘‘ کی نظمیں ۷۲ء سے۷۳ء تک لکھی گئی تھیں۔ اس وقت فیمنزم کی تحریک مغرب میں بھی اپنے ابتدائی دَورمیں تھی اور مجھے اس کی سن گن تک نہ تھی۔ یہ نظمیں کسی تحریک کے زیر ثر نہیں لکھی گئی تھیں۔ بس کچھ خیال تھے جو فطری طور پر ایک ذہن میں پیدا ہوئے اور ان کا اظہار کر دیاگیا، فیمنسٹ تحریک کی اہمیت کا اصل اندازہ تو مجھے’’ بدن دریدہ‘‘ کی اشاعت کے بعد ہوا۔ اچانک یہ احساس کہ ’’اف خدا! تو صورتِ حال یہ ہے! عورت کے بدن میں جنم لینے کے بعد آزادی کاسانس تک لینے کے لیے جی جان سے ایک جنگ کرنی ہے۔ شاید آخری سانس تک ۔
ان نظموں کے متعدد پہلو ہیں۔ یوں بھی نہیں کہ ان میں سیکس یا سیکژوالٹی کا گزر تک نہ ہو، مگر مجموعی طور پریہ نظمیں ایک جواں سال عورت کے دماغ کا آئینہ ہیں، جو اچانک ایک دہلیز پار کرکے پہلی بار زندگی کے متعدد سوالوں سے، تضادات سے دوچار ہو رہی ہے، ان سے جُوجھ رہی ہے، ان کا مطلب اور ان کے تعلق سے اپنا مطلب سمجھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ آپ کو اس کے صفحات میں تیز گرم لو کے جھکڑچلتے ہوئے محسوس ہوسکتے ہیں۔
کیوں؟
کیوں کہ یہ ایک نوجوان عورت ہے۔
جوانی آخر ہے کیا؟ جب مرد جوان ہوتا ہے، تو وہ کیا محسوس کرنے لگتا ہے؟
آپ کہیں گے: سیکس کی خواہش!
مگر اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہوتا ہے۔ وہ اپنے اندر ایک اتھاہ طاقت محسوس کرتا ہے۔ اس میں کس بل آجاتا ہے۔ وہ اپنے چار اطراف نظر ڈالتا ہے اور صحراؤں اور دریاؤں کو اپنے پروبال میں سمیٹ لینا چاہتا ہے۔ وہ ہر ناپسندیدہ شے کو بدل ڈالنا چاہتا ہے۔ وہ کائنات کو ازسرِ نو ڈھالنا چاہتا ہے۔
لیکن، عورت…؟ جب عورت جوان ہوتی ہے تو کیا محسوس کرتی ہے؟
اس کے لیے تو ذہن پر زیادہ زور ڈالنے کی ضرورت ہی نہیں۔ عورت شرم و حجاب محسوس کرتی ہے۔ جوانی، جو مرد کے لیے بھرپوراثباتِ ذات کا زمانہ ہے، عورت کے لیے صرف شرم، صرف حجاب، صرف مفعولیت اور نفئی ذات کا دور ہے؟
فرض کیجیے ایسا نہ ہو۔ جواں سال عورت کوبھی اپنے اندر اتھاہ طاقت محسوس ہوتی ہو، صحراؤں اور دریاؤں کو اپنے پر وبال میں سمیٹنا چاہتی ہو۔ وہ تسخیر کائنات کرنا چاہتی ہو۔ وہ اپنی ذات کا اثبات کرنا چاہتی ہو، وہ کائنات کی ہر ناپسندیدہ چیز کو ازسرنو ڈھالنا چاہتی ہو؟
اس دور میں مجھے تمام تجریدی صنائع و بدایع، تشبیہ، استعارے سے وحشت ہونے لگی تھی۔ میں زبان کو بالکل نئی طرح لکھنا چاہتی تھی۔ ایک دُھن سی تھی کہ صنعتوں کے ملبے کو کھود کر اصلی الفاظ دوبارہ نکالے جائیں۔ میرا خیال تھا کہ ایک طاقتور جذبہ، احساس یا خیال اپنا پیکر خود بناتا ہے، اپنے لیے درست لفظ خود چنتا ہے۔ اسے معمولی تراش خراش کے بعد ویسا ہی لکھ دینا چاہیے۔ میں اصلی الفاظ کو دوبارہ لکھ کر ان کی طاقت دیکھنا چاہتی تھی۔
(غلط یا صحیح، مگر کسی مقام پر زبان کے بارے میں یہ خیال کسی بھی شاعر کے ذہن میں آسکتا ہے۔ اس طرح وہ اپنے لیے کوئی نیا ڈکشن بناتا ہے اور پیرایہ اظہار میں کوئی نیا رنگ شامل ہوتا ہے۔)
’’بدن دریدہ‘‘ کی نظموں کی زبان آپ کو بہت اختصار پسند اور براہ راست ملے گی۔
اور موضوعات؟ ایک نظم کا نام ’’بدن دریدہ‘‘ بھی ہے۔ جس پر ایک پاکستانی نقاد نے لکھا کہ یہ سیکس کا بدمست جنگل ہے تو دوسرے نے کہا کہ شاعری ہے یا کوک شاستر۔
سر سرانے دو ذرا رات کے اس ریشم کو
اس میں ملفوف کسی عہد کی اک لاش بھی ہے
رات جو جرم بھی ہے جرم کی پاداش بھی ہے
میرے اطراف پتنگوں کی طرح اُڑتے ہیں
میرے بوسے وہ مرے جھوٹ سے بوجھل بوسے
خون کی چھینٹیں اُڑاتے ہوئے گھائل بوسے
یہ ہے سیکس کا بدمست جنگل! یہ کیسا جنگل ہے جس میں خون کی چھینٹیں اُڑ رہی ہیں؟
اب تو وہ میری تھکاوٹ بھی مجھے چھوڑ چکی
وہ دریدہ بدنی جان کو بھی توڑ چکی
خوں روانی سے بدن چھوڑ رہا ہو جیسے
یا رواں قافلہ آبلہ پا ہو جیسے
اس نظم کا مطلب سمجھنا اتنا دشوار نہ تھا۔ باکرہ، رسموں کا رشتہ، اس کی آغوش میں، یہ سب ایک دوسرے کے ساتھ منسلک نظمیں ہیں۔ جن پر اگرکی بھی گئی تو اتنی خیال آرائی کہ یہ انتہائی سرد مہری اور نفسانی خلل کی علامتیں ہیں۔ بالکل ذاتی، نجی باتیں، کنفیشنل شاعری۔ کیا یہ لازم تھا کہ ان لغویات کی شاعری بناکر وہ ہم سب کو بھی پڑھوائے! جب کہ یہ ایک عجیب قسم کی عورت کے جذبات ہیں۔
یہ اضافہ کس قدر فوری طور پر کیا جاتا ہے کہ یہ صرف تمھارے نجی جذبات ہیں!
ن م راشد صاحب نے غریب فروغ فرخ زاد پر ایک مختصر سا تعارفی مضمونچہ بھی لکھا تھا۔ ایک جملہ پڑھ کر مجھے لطف آگیا۔ لکھتے ہیں، ’’اس شاعری میں ہمیں ایک عورت کا (صرف ایک عورت کا) چہرہ نظر آتا ہے۔‘‘
وہ مجبور تھے کہ بہ سرعُت یہ وضاحت کر دیں کہ چہرہ صرف فروغ کا ہے، کچھ اور شک نہ کیجیے گا۔
’’خدا نہ کرے کہ اس شاعری میں ہمیں ہر عورت کا چہرہ نظر آنے لگے! مثلاً میری بیوی… وہ کیوں ایسی ہونے لگی! میرے اپنے خاندان کی عورتیں… وہ دوسری قسم کی ہیں بھئی؟‘‘
کیوں؟ ’’بدن دریدہ‘‘ صرف ایک عورت کے انفرادی احساسات کیوں ہیں؟یہ کیوں سوچنا بھی نہیں چاہتے آپ کہ تمام عورتوں کے احساسات یہ ہیں؟ کیا آج بھی اس پورے برصغیر میں، ایشیا میں، افریقا اور مشرقِ وسطیٰ میں، کروڑوں عورتوں کو ان کی رضا و رغبت سے قطعاً لاتعلق رہتے ہوئے ایک نام نہاد حجلۂ عروسی میں نہیں دھکیل دیا جاتا؟ وہ سیکس، جو اُن کے شوہر ان کے ساتھ کرتے ہیں، کیا اس میں ان کی کوئی خواہش، کوئی امنگ شامل ہوتی ہے؟ وہ کیا محسوس کرتی ہیں؟ کیا ایسا ہی نہیں، جیسا کہ’’ بدن دریدہ‘‘ میں لکھا ہے؟
(ہم اپنے چھوٹے بڑے قلعوں اور مکانوں میں رہ رہے ہیں۔ کیا تم انھیں پتھر مار مار کر توڑنا چاہتی ہو؟ ہمارا سکون غارت کرنا چاہتی ہو؟ سیبوچر! دہشت گرد!)
دوسری نظموں پر تو اصرار نہیں، لیکن مشرق کی تمام عورتوں کے لیے ’’بدن دریدہ‘‘ جس نظم کا عنوان ہے، اس کے حرف بہ حرف سچ ہونے پر تو شک و شبہ ہی نہیں کیا جاسکتا۔ وہ سب ایسا ہی محسوس کرتی ہیں۔ وہ اس بات سے کبھی آشنا ہی نہیں ہوتیں کہ سیکس ایک مسرت خیز، پرُاسرار، جشن حیات بھی ہوسکتا تھا۔
مغربی ممالک میں، جن کی مذمّت کرتے ہوئے آپ کبھی نہیں تھکتے (اور جن کی، اپنے فائدے کے ہر فکر و فلسفے کو آپ فوراً اپناتے ہوئے تاخیر بھی نہیں کرتے۔) عورتیں اپنی پسند سے شادی کرتی ہیں۔ ایسا کوئی گزشتہ ۷۰/۷۵ برس سے ہو رہا ہے۔ شادی کے اس طریقے کا رائج ہونا نصف انسانیت کی لبریشن کی راہ پر نہایت اہم قدم تھا۔ بالآخر پوری دنیا میں اسی طرح ہونا چاہیے اور ہونا ہے۔
وہ نظم جس کا نام ’’بدن دریدہ‘‘ ہے، ایک نوحہ ہے، یہ سیکس کا نوحہ نہیں ہے، (فریجڈٹی، اعصابی خلل!) یہ نسوانی جسم کے بے دردانہ استحصال کا ماتم ہے، جس سے اس کی اپنی خواہش اور امنگ کو بے دخل کر دیا گیاہو۔
بدن دریدہ کی نظموں کا کلیدی خیال اثباتِ ذات ہے۔ اس مجموعے میں جابجا ایسی نظمیں یا اشعار نظر آتے ہیں جو ایک کشمکش کا آئینہ ہیں۔ لکھنے والی، ان اشعار میں ایک جہد بقا سے دوچار ہے۔
’’وصل ایک کرن بن کے‘‘ میں شاعرہ کہتی ہے۔
تیری تیز آنکھوں میں
اشتیاق کا شعلہ
اس طرح بھڑکتا ہے
میرے دل کا پروانہ
بے قرار سا ہو کر
اس طرف لپکتا ہے
پھر یہ کون شیطان ہے
کھینچتا ہے جو مجھ کو
تجھ سے دور رکھتا ہے
موت جب کہ آنی ہے
میری ذات فانی ہے
شاید یہ سوچتی ہو کہ اپنی ذات کو مٹا دینا، اپنی فکر، اپنی رائے، اپنی آزادی کو اس ’’دوسرے‘‘ کے اندر فنا کر دینا ہی بہتر ہو۔ لیکن وہ ایسا کرتی نہیں ہے کیوں کہ :
وصل سے پرے لیکن
اک اجاڑ سناٹا
ایک زرد ویرانہ
بڑھ رہا ہے منہ کھولے
یہ کرن گھلنے کو
جو قوتِ مزاحمت اسے اپنی ذات کو فنا کر دینے سے روکتی ہے وہ اس کو منفی ماننے سے بھی انکار کرتی ہے۔ وہ اس کو ایک مثبت طاقت، بلکہ قوت حیات سے تعبیر کرتی ہے۔
ہاں میں اس کو پہچانی
مجھ کو روکنے والی
زندگی کی مشاطہ
زندگی کی مشاطہ
کیوں مجھے سجاتی ہے
جسم کے اندھیرے میں
آگ سی جلاتی ہے
شاعرہ کو اپنے وجود کی فنامنظور نہیں۔ اس کا محاورۂ اظہار پرانی شاعری کا ہے جس میں عاشق اپنے معشوق میں فنا ہو کر خالقِ حقیقی تک پہنچتے ہیں۔ مگر یہ شاعر نہیں، یہ تو شاعرہ ہے۔ ایک عورت !اور عملی زندگی میں اس ’’وصلِ اکبر‘‘ اس ’’دو وجودوں کے مل کر ایک ہو جانے‘‘ کا حاصل جمع صرف اس کے آزاد وجود کی نفی ہے۔ صرف یہ کہ دوسرے کی رضا کا تابع ہوجایا جائے۔ (ازبرائے خدا غور کیجیے کہ یہ کوئی ’’جنسی‘‘ مسئلہ نہیں۔ جنس میں تو جیسا کہ آپ جانتے ہیں ، عورت کی موت واقع نہیں ہوتی۔ یہ مطلب پہنانے سے قبل اس معمولی سی بات کا خیال کیوں نہیں آسکا؟) اسے تابع دار ہونا منظور نہیں۔ اپنی ذات کے دفاع میں وہ نرم و نازک جذبات کو طاق پر دھرسکتی ہے۔
تم آؤ گے
آئینے سے ٹکراؤ گے
اور پیشانی پر زخم لیے رہ جاؤ گے
وہ اعلان کرتی ہے کہ
وہ واسطے کی طرح درمیاں بھی کیوں آئے
خدا کے ساتھ مری ذات کیوں نہ ہو تنہا
(کیا یہ ایک مضحکہ خیز منظر ہے؟ عورت کی آواز میں یہ اعلان؟ چھوٹا منہ بڑی بات!)
تو کیا یہ نظمیں معاشرے میں عورت کے غیر منصفانہ مغلوب کردار کے بارے میں ہیں؟ اس کا جواب یقیناً’’ہاں‘‘ ہے مگر دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ میرے ذہن میں کسی نظریے کے تحت نہیں آئی تھیں۔ یہ میں نے شعوراً عورت ذات کی جانب سے نہیں کہی تھیں۔ لیکن اس کشمکش سے دوچار ہونے والا وجود نسوانی تھا جو اپنی نسائیت سے باخبر تھا۔ اپنے کرب اور غم کو عورت ذات کے تناظر میں دیکھنے کا شعور ’’بدن دریدہ‘‘ کی نظموں میں بتدریج صاف ہوتا ہوا نظر آسکتا ہے۔ اس کی چند نظموں میں یہ نہایت ’’ارضی‘‘ پیکار کسی شدید روحانی کشمکش کا مظہر نظر آتی ہے۔ شاید دوسرے شاعروں کے ساتھ بھی یوں ہی ہوتا ہو اور انسان، زندگی کی کوئی مجازی گرہ کھولنے میں اپنی انگلیاں اور جگر لہولہان کرتے ہوئے کسی آفاقی اسرار کا پرچھاواں سا اپنے آس پاس ڈولتا محسوس کرتا ہو۔ لیکن ہر صورت میں، ’’بدن دریدہ‘‘ کی نظموں میں جس ’’انکار‘‘ کی گونج ہے وہ اپنی سب سے گہری سطح پر کائنات، سماج اور مرد سے رشتے میں عورت کا روایتی، مقرر کردہ کردار تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔
اس کی بعض نظموں میں گہرا، حزن آلود disillusionment، شکستِ فریب کا احساس ہے۔
’’واہمہ ہے کہ اسی جھیل کی گہرائی میں
کوئی اثبات کا حرف
کوئی اقرار کہیں میری صدا سنتا ہے
دل مگر جانتا ہے
یہ مرا دل کہ فریب آشنا ہے
پتھر سے وصال مانگتی ہوں
میں آدمیوں سے کٹ گئی ہوں
چھوٹی وصل و فراق سے میں
انجان ڈگر پہ چل رہی ہوں
ہاں میرے وجود میں کجی تھی
اب خوش ہوں کہ اب بھٹک رہی ہوں
ان تمام نظموں اور اشعار کو ہمارے مضمون نگاروں اورتنقید نویسوں نے صرف جنسی عمل کے تعلق سے سمجھا اور خوش ہوکر تالیاں بجائیں کہ انھوں نے پالامار لیا۔ محترم سلیم اختر صاحب نے تحریر کیا۔ ’’مگر تمام جنسی جدوجہد کا حاصل یہی نکلا کہ’’ میں تو بنتِ ہجر ہوں۔‘‘
آخر ایسا کیوں ہوا؟ یہ مطالب کیوں اخذ کیے گئے؟
کیوں کہ لکھنے والی ایک عورت تھی، اے عزیز قاری!
اب آپ ان اشعار کو کسی مرد شاعرکی زبان سے سنیے۔
پتھر سے وصال مانگتا ہوں
میں آدمیوں سے کٹ گیا ہوں
چھوٹا ہجر و وصال سے میں
انجان ڈگر پہ چل رہا ہوں
ہاں میرے وجود میں کجی تھی
اب خوش ہوں کہ اب بھٹک رہا ہوں
اس کایا کلپ کے بعد آپ کو نظم کا بالکل دوسرا مطلب سمجھ میں آئے گا۔ آپ کہیں گے واللہ! شاعر کسی اہم موضوع پر سوچ رہا ہے۔ اسے کوئی جستجو ہے، کوئی تلاش ہے۔ وہ زندگی کے کسی دوراہے پر کھڑا ہے۔ (جنس کے کسی دوراہے پر نہیں)
بہرحال، ’’صداقتِ مطلق‘‘ کی جستجو اس ذہنی بافتے کا محض ایک تار ہے۔ کسی پیڑ کے نیچے دھونی رماکر بیٹھنا اس ذہن کا مقسوم یا آرزو نہیں۔ یہ کافی مجازی ذہن ہے اور تاریخی مادّیت کو زیادہ قبول کرتا ہے۔
سرسراہٹ تھی فرشتوں کی نہ سرگوشئ غیب
چند سوکھے ہوئے پتوں پہ ہوا ہنستی تھی
بعد از مرگ کے پیماں مرے دل میں گونجے
اور اس لمحے میں ان سب کی ضرورت نہ رہی
’’بدن دریدہ‘‘ کی نظمیں تقریباً سات برس میں لکھی گئی تھیں۔ لازماً ان کے موضوعات میں تنوع ہے۔ مگر سلوک سب کے ساتھ یکساں ہی کیا گیا۔کسی نظم میں کسی دلکش عورت کی شخصیت کا عکس ہے۔
ہم نے دیکھی عجیب اک ناری
سانولا رنگ جامنی ساری
ہیں مدور خطوط سر تا سر
چھاتیاں گول اور گج بھاری
اور باتوں میں ایسی چنچلتا
جھوٹے رنگوں کی جیسے پچکاری
(جب میں نے اشاعت کے لیے اسے جریدہ’’ فنون‘‘ میں بھیجا تو اس کے مدیر محترم احمد ندیم قاسمی نے مجھے خط لکھ کر بھیجا۔ ’’یہ سطر، چھاتیاں گول اور گج بھاری نکال دیجیے۔ یہ پاکستان ہے بی بی۔‘‘ قاسمی صاحب میرے مہرباں دوست ہیں۔ وہ مجھے ملامتوں کی بوچھاڑ سے بچانا چاہتے تھے۔ مگر میرے او گھڑ دماغ میں یہ نہ سمایا کہ ایک عورت کے قلم سے لکھنے پر یہ سطرمعیوب کیوں ہوگئی جب کہ ایک مرد کے قلم سے یہ قابل قبول ہوتی۔ میں تو ایک کامیاب تصویر کشی پر خوش ہو رہی تھی۔)
یا کسی نظم میں، کسی ناکام عورت کے لیے احترام بھری درد مندی اور محبت کا اظہار ہے۔
تپا ہوا یہ چہرہ جیسے بادِ سموم سے جھلسا پھول
اوراس پر بھوری آنکھوں کے دئیوں کی لو
دیکھنے والوں کے دل کوبرماتی ہے
بات بھی اس سے کروتو جلتے دل کی آنچ سی آتی ہے
مگر ان نظموں پر کسی کی نظر نہ گئی۔ ان کے لیے یہ کہا گیا کہ یہ شاعرہ نے اپنے اوپر ہی لکھی ہیں۔ ایسا بالکل نہ تھا۔ یہ تو دوسری عورتوں پرلکھی ہوئی نظمیں ہیں۔ یہ بھی ایک پختہ عقیدہ ہے کہ ایک عورت، دوسری عورت پر شاعری نہیں کرسکتی۔ (جبکہ مولانا روم پورا دیوان شمس تبریز کے نام کرسکتے ہیں۔)
’’بدن دریدہ‘‘ کی وہ واحد نظم جو بہت پسند کی گئی، ’’لاؤ ہاتھ اپنا لاؤ ذرا‘‘ تھی۔ یہ ایک حاملہ عورت کے جذبات کا اظہار ہے۔ مردانہ معاشرہ عورت کے لیے ماں کے کردار کو بخوشی قبول کرتا ہے۔ لہٰذا، نظم کو بھی پسند کیا گیا۔ چلیے صاحب! بہت شکریہ، تسلیم! آداب! مگر یہ نہ سمجھئے گا کہ اسے ہی بخش دیا گیا۔
جناب ضمیر الدین احمد نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’خاطر معصوم‘‘ میں اس پر دوسری طرح نظر ڈالی۔ (خاطر معصوم کالب لباب یہ ہے کہ عورتوں میں بھی جنسی خواہش ہوتی ہے۔ بیسویں صدی کے آخر تک یہ افواہ اُردو کے ادیبوں، تنقید نگاروں و غیر ہم تک پہنچ ہی گئی!)
پہلے تو انھوں نے شاعرہ کو ایک کلین چٹ دی اور لکھا کہ’’ بدن دریدہ‘‘ کی نظمیں فحش تو خیر نہیں ہیں۔ (میری احسان نا شناسی کہ میں نے ان کا شکریہ تک ادا نہ کیا۔) پھر لکھا ’’مگر جنسی تو ہیں۔ یہاں تک کہ بعض اوقات شاعرہ پوری جنسی معلوم ہوتی ہے۔‘‘ (خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ ’’پوری جنسی‘‘ سے ان کی کیا مراد تھی۔دوسرے شعرا کیا ادھورے جنسی معلوم ہوتے ہیں؟ یہ تو اس سے بھی بدتر ہے۔) آگے چل کر رقم طراز ہیں۔
’’حاملہ ہونے پر بھی وہ اس عمل کو یاد کرتی ہے جس کے باعث حمل ٹھہرا۔‘‘
تم نے اندر مرا اس طرح بھر دیا
پھوٹتی ہے مرے جسم سے روشنی
اس نہایت بے قصور، بے ضرر بات کو، جو صرف اس حقیقت کوتسلیم کرتی ہے کہ عورت کے بطن میں مرد کا بچہ ہے، یعنی بچہ دونوں کا ہے اور اس طرح یہ بچہ عورت کے دل میں اس مرد کے لیے محبت کا جذبہ پیدا کر رہا ہے، اس بات پر محمول کیا گیا کہ اس موقع پر بھی وہ اس عمل کی لذت یاد کرکے غالباً جھرجھری لے رہی ہے۔ اس حد تک تو جنس زدہ ہے !
خامہ انگشت بدنداں کہ اسے کیا لکھئے
ناطقہ سر بہ گریباں کہ اسے کیا کہیئے
(نوٹ: یہ بات فاضل مصنف کے علم میں یقیناًنہیں تھی، یا جھرجھری بھرتے ہوئے ذہن سے نکل گئی کہ استقرارِ حمل کے لیے لذت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ حمل یوں بھی ٹھہرجاتا ہے۔ ہمارے مشرقی ممالک کی آبادیاں عورتوں کی لذت پرستی کے باعث نہیں بڑھ رہی ہیں۔)
ان سوالوں پر اگر آپ غور کریں تو آپ کو اُردو کے ادبی کلچر کی نفسیات کی تہ میں ، اس کے رگ و ریشے میں گندھا صنفی تعصب نظر آئے گا۔ زبان کی اصطلاحات تک، عورت کے تناظر میں اپنا مطلب قطعی بدل لیتی ہیں۔ مثلاً ’’جنسی تجربہ‘‘ ہی کو لیجیے۔ مرد کے حوالے سے یہ الفاظ ایک ایسے وقوعے کے مظہر ہیں جس کی متعدد جہات ہوتی ہیں۔ ایک طرح سے مرد کے وجود کی تکمیل، خوشی، سرشاری وغیرہ اس کی مضمرات میں شمار کیے جائیں گے یعنی یہ experience ہے۔ لیکن یہی الفاظ عورت کے تناظر میں کس قدر مختلف ہیں! اوّل تو تنقید نگار کے ذہن میں آئے گا۔ ’’یہ نظم جنسی تجربے کے بارے میں ہے۔‘‘ اور اس کے بعد لفظ ’’تجربہ‘‘ اس کے تخیل کو ایک ایسی لیبارٹری میں لے جائے گا جہاں نابکار عورت مختلف مردوں کے ساتھ نت نئے جنسی تجربے کر رہی ہو۔ اب تجربہ کا لفظ وہ experiment کے معنوں میں سمجھ رہا ہے۔
فحش صرف نظموں کے اس مجموعے کو ہی نہیں، اس کی لکھنے والی کو بھی ٹھہرایا گیا۔ مطلق یہ پروا کیے بغیر کہ بے نیازی سے لکھی ہوئی یہ سطریں مصنفہ کے لیے کس قدر اذیت ناک ہوسکتی ہیں۔ سلیم اختر صاحب نے لکھا۔
’’جنسی پیاس اس شاعرہ کا محبوب موضوع ہے۔‘‘ (جو نظمیں انھوں نے مثال کے طور پر بغیر اشعار دیے ہوئے گنوائیں اس میں ’’برفباری کی رت‘‘ بھی شامل ہے جو برف پر لکھی ہوئی ایک نظم ہے۔)
لیکن یہاں تک لکھ کر انھیں خیال آیا کہ ’’پیاس‘‘ تو محرومی سے پیدا ہوتی ہے۔ تو کیا ’’اس قسم کی‘‘ شاعری کرنے والی عورت کوئی روکھی پھیکی زندگی گزار رہی ہے؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے! اس لیے اگلے جملے میں وہ دور کی کوڑی لائے اور لکھا:’’ اور یہ تشنگی کمی کی نہیں بلکہ وفور کی پیدا وار ہے۔‘‘
اب آپ اس فکری داؤ پیچ پر غور کرتے رہیے۔ یا پھر میرے ساتھ مل کر ان حیران کن قلابازیوں پرہنسں لیجیے۔ (افسوس کرنے سے جب فرصت ملے تو میں جی کھول کر ہنس بھی لیتی ہوں۔)
ایسی سفاکیوں پر مجھے کیوں کر شدید صدمہ نہ ہوا ہوگا؟ میں ایک معمول ہستی ہوں۔ میرے پاس کوئی بلٹ پروف جیکٹ تو نہ تھا، جسے پہن کر میں زندگی بسر کر رہی تھی! یہ سارے زہرآ لو دتیر میرے جگر کے پار کیوں کر نہ ہوئے ہوں گے؟ اس سنگ باری نے میری زندگی کے قیمتی برسوں کو آنسوؤں میں ڈبو دیا۔ جیسے کسی کو گرم لوہے سے داغا جائے، اس طرح، اس دَور میں مجھے شب و روز محسوس ہوتا تھا۔ کیوں آپ نے مجھے ہمیشہ دکھی رکھا؟ ہمیشہ اشک بار! پھر بھی میں ہنستی رہی۔ سمجھنے کی کوشش کرتی رہی۔ زندگی کو، آپ کو اور اپنے آپ کو…
’’بدن دریدہ‘‘ کی نظموں کو میں نے یہ سوچ کر لکھا ہی نہیں تھا کہ چوں کہ میں عورت ہوں لہٰذا، فلاں موضوع پر لکھنا، یا کسی خیال، کسی تصور کو الفاظ میں تجسیم کرنا میرے لیے نامناسب ہے۔
یہ میری مجبوری ہے۔ زندگی کے معانی اور اس کے رشتے سے اپنے فن کے معنی پر یقین رکھنے والے شاعر کا ذہن آزاد ہوتاہے اور ایک بے خوفی، آزاد ذہن کی لازمی خصوصیت ہوتی ہے۔ آپ اس کے گرد لاکھ دیواریں بنائیں، اس کے سامنے لچھمن ریکھائیں کھینچیں، لیکن وہ اس کے لیے وجود نہیں رکھتیں۔ وہ یہ سوچ سوچ کر نہیں لکھتا ہے کہ سماج، حالات، سیاست وغیرہ نے کیا لکھنا اس کے لیے مناسب قرار دیا ہے اور کیا لکھنے کی اجازت اسے نہیں ہے۔
ہندوستان میں آر ایس ایس نے میری نظم’’تم بالکل ہم جیسے نکلے‘‘پر ہنگامہ برپا کر دیا۔ اسے لکھتے ہوئے میں نے یہ سوچاہی نہیں کہ میں نہ تو ہندو ہوں اور نہ ہندوستانی، پھر کیسے میں ہندوستان میں پھیلائے جانے والے جنون کا مذاق اُڑاسکتی ہوں؟ میں نے اس پر شک ہی نہ کیا کہ وہ میرے اپنے ہیں۔ کیا میں نے وہ نظم لکھ کر غلطی کی؟ اپنے لیے حالات کو بہت برا تو یقیناًبنالیا۔ ہندوستان… جس کی جمنا کے کنارے میں خاک میں ملنا چاہتی تھی، وہاں جانے کے خیال سے اب صرف آنکھ میں آنسوآتے ہیں۔ کانوں میں صرف ایک شور گونجتا ہے۔ افراتفری کا ایک منظر… جو پُتلی میں کہیں منجمد ہوکر رہ گیا ہے۔
وہ نظم…تو بہرحال لکھی گئی اور پڑھ بھی دی گئی۔ کیا یہ اچھا ہوا؟ کون جانے…! کون جانے کبھی اس کے اصل معنی سمجھ ہی لیے جائیں… کون جانے کہیں ’’بدن دریدہ‘‘ کی نظموں کے معنی بھی صحیح سمجھ ہی لیے جائیں… یا انھیں ادب اور زندگی کی کثیر جہتی تناظر میں دیکھا جاسکے۔ گو یہ بہت دشوار ہے ۔ اُردو کلچر کے لیے ایک تخلیق کار عورت کے خیالات، مشاہدے، اور جذبے کے اظہار کے بے دریغ، بے خطر بہاؤ کو قبول کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ قدم قدم پر ’’مشرقی عورت‘‘ ہونے کی شرائط کسی تحریر کو یکسوئی سے پرکھنے کی گنجائش ہی نہیں چھوڑتیں۔
’’ بدن دریدہ‘‘ کی ایک نظم ’’ابد‘‘ کے عنوان سے ہے۔
یہ کیسی لذت سے جسم شل ہو رہا ہے میرا…
اسے پڑھ کر کہا جاتا ہے کہ لوگوں نے دانتوں میں انگلی دبالی۔ ایک مشرقی عورت اور یہ خرافات! کیا یہ ڈوب مرنے کا مقام نہ تھا؟
دراصل یہ موت کے موضوع پر لکھی گئی تھی۔ اس زمانے میں میرا دل و دماغ موت کے تصور سے عجب طرح مسحور رہتا تھا۔ میں اس پر لکھنا چاہتی تھی۔ مگر میں موت کو ایک حسیاتی تجربے کے طور پر پیش کرنا چاہتی تھی۔ مجھے خیال آیا کہ موت، جو زندگی کا چراغ گل کر دیتی ہے، جسمانی وصل سے کس قدر مشابہہ ہے کیوں کہ وہ بھی وجود کو ایک اندھیرے میں لے جاتا ہے، اس لیے کیوں نہ موت کو اسی صورت میں پیش کیا جائے۔ اس خیال کے ساتھ بہت توجہ سے میں نے احساس موت کی تجسیم کے لیے حسّیاتی خیال بندی کی کوشش شروع کی اور نظم لکھی گئی۔
’’یہ کیا مزہ ہے کہ جس سے ہے عضو عضو بوجھل
یہ ڈوبتی نبض، رکتی دھڑکن، یہ ہچکیاں سی
گلاب و کافور کی مہک تیز ہوگئی ہے‘‘
وغیرہ… اور پھر آخر میں
’’بس اب تو سر کا دو رُخ پہ چادر
دیے بجھادو‘‘
جب یہ شائع ہوئی تو اسے پڑھ کر کسی نے یہ نہ سمجھا کہ یہ موت کے موضوع پر ہے۔ بعد میں اسے میں نے حیرت سے پڑھا تو کچھ ہنسی بھی آئی۔ واقعی، بات یہ ہوگئی تھی کہ ’’حسیات‘‘ کے تعاقب میں موت بے چاری نظم سے کچھ غائب ہی ہوگئی ہے۔ اب یہ نظم موت کے بارے میں نہیں، جسمانی وصل کے بارے میں ہے جس کی تجسیم موت کر رہی ہے۔ (مردوں کی شاعری پر لکھتے ہوئے اسے آپ ’’وصل‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ عورت کی شاعری میں آپ کوئی باوقار لفظ استعمال نہیں کرنا چاہتے اور صاف صاف ’’سیکس‘‘ کہنا پسند کرتے ہیں۔ بہت خوب۔ یونہی سہی۔ آپ اس جملے کو یوں ہی پڑھیے کہ اب یہ نظم ’’سیکس کی تجسیم‘‘ ’’مرگ‘‘کی صورت میں کر رہی ہے۔) اس کایا کلپ سے میں کچھ خوش نہ تھی۔ لیکن میں نے دل میں کہا، ہم اسے کیا کہہ سکتے ہیں؟ کیا غیرشعوری طور پر، موت پر زندگی کی فتح؟ اس صورت میں بھی یہ ایک تازہ شعری تمثیل ہے۔ سو اس پر مُسکرا کر میں اس کو بھول بھال گئی، اس بات سے بالکل بے خبر کہ نظم کیا قہر ڈھاتی ہے۔ معاشرے کی اخلاقی اقدار کو کس طرح تہس نہس کر رہی ہے، عورتوں کو کج روی کی طرف لے جارہی ہے، ’’فری سیکس‘‘ کا پرچار کر رہی ہے۔ (یہ بھی خوب اصطلاح ہے۔)الغرض معاشرے میں ایک مکمل انار کی قائم کر رہی ہے۔ نظم کا اصل مطلب اور مقاصد یہ ہیں کہ شادی بیاہ سب فضول کی باتیں ہیں۔ مرد و زن کو سرِعام گلی کوچوں میں سیکس کرنا چاہیے۔ اخلاق اور مذہب پر لعنت بھیج دینا چاہیے۔ وغیرہ! اس نظم کے تعلق سے ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کی ایک سطرمیں نے اشاعت سے قبل حذف کر دی تھی۔ وہ سطر جو کہیں اختتام کے قریب آتی تھی، یہ ہے۔
قوی ہیکل سیاہ حبشی مرے بدن پر جھکا ہوا ہے
میرے ایک دوست کا شدید اصرار تھا کہ چوں کہ اس میں ’’سیاہ حبشی‘‘ یعنی ایک مرد کا بالواقعی ذکر آجاتا ہے، لہٰذا یہ مناسب نہ ہوگا۔
برسوں بعد، شیخ ایاز کی ایک نظم دیکھ کر میں حیران رہ گئی۔ اس کا عنوان ہی یہ ہے۔
’’موت کالاا داس حبشی ہے‘‘
کس قدر عجیب بات ہے! موت کے لیے حبشی کا استعارہ ایاز کے ذہن میں بھی آیا! (یقیناًہمارے تخیل میں مشابہت تھی۔ تب ہی ان کی شاعری کا ترجمہ میں اس قدر ڈوب کے کرسکی۔)
بالکل ایسی ہی حیرت کی سنسنی ایک طویل عرصے بعد فروغ فرخ زاد کی شاعری کا ترجمہ کرتے ہوئے میں نے دوبارہ محسوس کی۔ فروغ کی نظم ’’صبر سنگ‘‘ میں مجھے ’’عشق‘‘ کی تجسیم کے لیے عین وہی شبیہ ملی جو ’’بدن دریدہ‘‘ کی نظم ’’عشق، تم جس کی تمنائی تھیں‘‘ میں ہے۔ دونوں نظموں میں عشق ایک منہ زور ’’جاندار‘‘ ہے جو کسی وجود میں سماگیا ہے۔فروغ کی سطریں ہیں۔
آں من دیوانہ عاصی
در در و نم ہائے و ہو می کرد
مثت بر دیوارِ ہامی کوفت
روزنی را جستجو می کرد
’’بدن دریدہ‘‘ کی نظم ’’عشق، تم جس کی…‘‘ میں یہ ’’تاریخ سے پہلے کا اندھا عفریت ہے جو جسم میں در آیا ہے۔‘‘
بھاری پیکر بہت آہستہ سے جنباں ہے مگر
مجھ کو معلوم ہے کس جست کی ہے اس میں تڑپ
انگلیاں پھیر رہا ہے کہ نشاں پائے کوئی
ڈھونڈتا ہے کوئی دروازہ، کوئی راہ ملے
دوسری بار حیرت موضوع کی مماثلت پر ہوئی۔ فروغ کی ایک نظم کااُردو ترجمہ حسبِ ذیل ہے۔
جوڑا
رات آتی ہے
اور رات کے بعد
تاریکی
اور تاریکی کے بعد
آنکھیں
ہاتھ
اور سانس، سانس، سانس
پھر دو سرخ نقطے
جلتے ہوئے سگریٹوں کے
گھڑی کی ٹک ٹک
اورد و دل
اور دو تنہائیاں
اس نظم میں لمحات وصل کے فوراً بعد کی کیفیت اور منظر ہے۔ یہ نہایت منفرد موضوع ہے جس پر شاید کبھی کچھ لکھا ہی نہیں گیا ہے۔ وصل سے قبل کے شوق و بے تابی پر سیکڑوں اشعار اُردو، فارسی میں موجود ہیں لیکن مذکورہ موضوع پر کسی مرد شاعر نے طبع آزمائی نہیں کی ہے۔ (شبِ وصال کے بعد آئینہ تو دیکھ اے دوست۔ جی ہاں فراق کا یہ شعر موجود ہے۔ ایک اکیلا شعر جو اس موضوع پر ہے۔ لیکن نہ اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد کچھ ہے۔اس میں بھی کیفیت، احساسات کا ذکر نہیں۔) غالباً یہ ایک خالص نسوانی دلچسپی کا موضوع ہو، جس پر صرف عورتیں ہی غور کرتی ہوں۔ ’’بدن دریدہ‘‘ کی نظم ’’پہلی بار‘‘ بالکل اسی موضوع پر ہے۔
پہلی بار
پیار کے بعد
اک دوجے کی بانہوں میں
اپنے دماغ اور بدن کی عریانی کے آئینہ خانے میں
اتنے نہتے
اتنے نازک
سانس جھجک کرلیتے ہیں ہم
کانچ کے پُتلے ٹوٹ نہ جائیں
ان دو نظموں کی فارم بھی حیرت انگیز طور پر یکساں ہیں۔ یہ مختصر ہیں، ان میں چھوٹی چھوٹی سطریں ہیں، جیسے آہستہ آہستہ نظر ڈال کر مشاہدہ کیا جائے۔ گو ان میں بات مختلف کہی گئی ہے مگر ان کا موقع ایک ہے اور وہ بھی ایسا جس پر مرد شعرا نہیں لکھتے۔ ہوسکتا ہے دوسرے لوگ ہر دو نظموں کے بارے میں کچھ اور رائے رکھیں مگر مجھے ان دونوں میں کئی اعتبار سے حیران کن مماثلت نظر آئی۔ (صرف دو مشرقی عورتوں کا حساس مشاہدہ)
’’بدن دریدہ‘‘ کی ایک نظم ’’میرے ہاتھ‘‘ ان نظموں میں سرفہرست ہے جو یہ حد مسترد کرتے ہوئے لکھ ڈالی گئیں کہ ایک عورت کے لیے یہ مناسب ہے یا نہیں۔ بلاشبہ یہ ایک ممنوعہ موضوع پر لکھی ہوئی نظم ہے۔ اس نظم کے شعری اجزا کیا ہیں ؟ بادل، ہوا، آسمان، سبزہ، ایک عورت کا جسم۔ ایک عورت کے ہاتھ۔۔۔ لاشعور کے کسی تاریک تہہ خانے میں نہیں، آسمان، بادل، ہریالی اور ہوا کی سنگت میں یہ نظم نمود پاتی ہے۔
’’میں بھی اپنے پنکھ جھٹک کر
پر تولوں اور بھروں اُڑانیں
اپنے بدن میں خود کھوجاؤں
یہ تن کا آکاش، یہ دھرتی
دھیرے دھیرے پھیل رہے ہیں‘‘
اس نظم سے تعلق رکھنے والا ایک واقعہ میں کبھی نہ بھولوں گی۔ ہندوستان میں قیام کے دوران الٰہ آباد میں میرے لیے کمیونسٹ پارٹی مارکسسٹ نے چند شعری نشستوں کا انتظام کیا تھا۔ ہندوستان میں میری سیاسی پناہ کے کچھ مخالفین بھی تھے۔ وہ لوگ اپنے مصائب میں مبتلا تھے اور پاکستان کے حالات کا انھیں کچھ علم نہ تھا۔ مگر میرے لیے ایک کردارکُش مہم ضرور چلا دی گئی تھی، جس میں مجھے ایک فریبی، مکار عورت کے روپ میں پیش کیا گیا تھا جو نہ صرف مشرقی کلچر کی دھجیاں اُڑاتی رہی ہے بلکہ اب نہ جانے کن مقاصد کے تحت سیاست میں بھی دخل دے رہی ہے۔ الغرض بالکل ایک ماتا ہری کاسا تصور تھا۔
ایک شعری نشست میں یہ عجیب واقعہ ہوا۔ ابھی میں نے دوایک نظمیں ہی پڑھی ہوں گی کہ آواز آئی، ’’یہ تو آپ صرف سیاسی موضوعات پر پڑھ رہی ہیں۔ ذرا اپنی وہ نظم، ’’میرے ہاتھ‘‘ بھی تو سنایئے۔‘‘ میں نے فوراً نظر اٹھا کر دیکھا تو سناٹے میں آگئی۔ میرے سامنے ایک بزرگ شخص بیٹھے تھے۔ بوسیدہ کپڑے، سر پر دوپلی، ملگجی ٹوپی، سفید داڑھی، چہرے پر تلخی اور آنکھوں میں طنز بھری مسکراہٹ…
میں نے دل میں کہا، ’’لو گرو! اب سناؤ انھیں کینز رپورٹ…‘‘
لیکن میں کچھ نہیں کرسکتی تھی۔ اگر یہ کوئی امتحان تھا، کوئی اگنی پر کھنتا، تو اس سے مجھے گزرنا ہی تھا۔ میں نے ساری طاقت مجتمع کرکے کتاب کھولی اور نظم سنانی شروع کردی۔ اس وقت وہاں بیٹھے ہوئے دوسرے تمام افراد میرے ذہن سے محو ہوگئے تھے۔ صرف وہ بزرگ شخص نظر آرہے تھے جو بغور مجھے نظم پڑھتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔
اس وقت میرے دل کی عجب حالت تھی۔ ذہن سے ان گنت خیالات گزر رہے تھے۔ کون ہیں یہ؟ کیا کوئی میرے اپنے؟ جیسے میرے اپنے ہی خاندان کے کوئی بزرگ… مصائب جھیلتے ہوئے۔ بوسیدہ دامن میں اپنی روایتوں کو سمیٹے ان کی حفاظت کے لیے کوشاں اور میں؟ یہ کو ن تھی جو ان کے سامنے بیٹھی تھی؟ ان کے قبیلے کی ایک ناخلف بیٹی؟
سرزنش کے قابل؟
میں طاقت سے نہیں ڈرتی۔ کسی بھیانک مقتدر قوت سے ٹکرا جانے میں تو شاید پل بھر کی دیر نہ کرتی۔ لیکن اپنے مقابل بیٹھے ہوئے بزرگ کی بوسیدہ حالی اورسن رسیدگی کے سامنے میرا دل خوف سے لرز رہا تھا۔ آنکھوں میں آنسو اُمڈے آرہے تھے مگر ایک عزم بھی محسوس ہو رہا تھا۔ دل کہہ رہا تھا۔ سننا چاہتے ہیں تو سن لیجیے۔ یہ آپ کے اپنے قبیلے، کفو خاندان کی عورت ہے۔ اسی نے یہ سب کچھ لکھا ہے۔ اگر اس دامن میں چھپی روایتوں میں عورت کی زبان بندی، اس کے ذہن کی جستجو علم آگہی پر قدغن بھی شامل ہے تو اس عورت کا انکار بھی سن لیجیے۔ پھر میری دیکھتی آنکھوں کے سامنے ایک تبدیلی آئی۔ ان کی آنکھوں سے وہ طنزیہ مسکراہٹ غائب ہوگی۔ بوڑھے، شریف چہرے سے غصّہ اور تلخی کافور ہوگئے۔ اس کی جگہ خفیف سی حیرانی، سنجیدگی اور اُداسی چھاگئی۔ وہ نظم نہیں سن رہے تھے۔ یہ نظم توشاید انھوں نے پڑھی بھی نہیں تھی۔ شاید ان سے کسی نے کہا ہوگا کہ سیاسی شاعری کی اس محفل میں ’’میرے ہاتھ‘‘ کی فرمائش کیجیے اور پھر تماشا دیکھئے۔ بات صرف یہ نہ تھی کہ تماشا نہیں ہوا تھا۔ بات یہ بھی تھی کہ جس عیارہ اور مکارہ عورت کے بارے میں انھیں بتایا گیا تھا، وہ انھیں نظر نہیں آئی تھی۔
اس کے بعد وہ خاموش کچھ کھوئے کھوئے سے بیٹھے رہے لیکن جب میں نے دوسری کوئی نظم پڑھی تو انھوں نے اسے توجہ سے سنا۔ پھر اُٹھ کر چلے گئے۔ نہ جانے کون تھے۔ مجھے ان کا حیران، سنجیدہ چہرہ اب بھی یاد آتا ہے۔
اس نظم کے موضوع کے ممنوع ہونے سے اگر آپ قطع نظر کرسکیں تو شاید اس نتیجے پر پہنچ سکیں کہ اس میں تلذذ کی ایسی کسی کیفیت کا بیان نہیں ہے جس کی بنیاد پر اسے فحش قرار دیا جاسکے۔
آپ نے کہا کہ ’’بدن دریدہ‘‘ کی نام نہاد شاعری نے ہماری تہذیبی روایتوں کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں۔
کون سی روایتیں؟
سیدھی سی بات ہے کہ اُردو کلچر میں عام، متوسط طبقے کی عورتوں کی شاعری کرنے کی روایت ہے ہی نہیں۔ صرف چند طوائفیں کچھ اشعار موزوں کرلیا کرتی تھیں۔ادبی تاریخ میں ایک آدھ صدی میں کسی تنبولن یا کنجڑن کا نام بھی مل جاتا ہے۔ یا پھر مغل شہزادیاں تھیں، جن پر کوئی حرف زنی کی جرأت نہیں کرسکتا تھا۔ اس کے باوجود زیب النسا مخفیؔ کی عشق کی داستانیں (اور حرم کی حفاظت کے لیے کی گئی پرُجوش تردیدیں) اس کی شاعری سے زیادہ مشہور ہیں۔ یعنی اس پر بھی ایک اسکینڈل بنا ہی دیا گیا۔
پھر جب ۳۰ء کے آس پاس شعر لکھنے والی خواتین نمودار ہوئیں تو ان سے توقع رکھی گئی کہ وہ واہیات عشقیہ اشعار ہرگز نہ لکھیں۔ (یہ کام مردوں کے لیے چھوڑ دیں۔) کوئی سوال نہ اٹھائیں، کسی موضوع کی سطح کھرچنے تک کی کوشش نہ کریں۔ صرف یتیم خانے کے ترانوں جیسے نغمے الاپتی رہیں۔ اسی پر آپ اب بھی مصر ہیں۔ ’’شاعری طوعاً و کرہاً کرلو مگر خبردار! تہذیب کے فلاں فلاں دائرے میں رہ کر…!‘‘
میرا ہرگز یہ مقصد و مدعا نہیں کہ شاعری کرنے والی لڑکیاں یا عورتیں لازماً ’’بدن دریدہ‘‘ جیسی نظمیں لکھیں۔ دنیا کے لاتعداد موضوعات ان کے منتظر ہیں لیکن آپ عورتوں کی تحریروں کو خاطر میں یوں بھی کب لاتے ہیں۔ آپ ہر عورت کی شاعری کو ’’نسوانی آواز‘‘ اور ’’نسائی تحریر‘‘ کے قبرستان میں دفن کرتے ہیں جب کہ آپ کے ممدوح مفروضہ ’’عظیم شعرا ‘‘ ان کے معیار کی چار سطریں بھی نہیں لکھ سکتے۔ آپ سچائی کی حرارت، تحیر اور تازہ کاری سے خوفزدہ ہیں جو آپ کو کسی عورت کی شاعری میں نظر آئی تھیں۔ اب آپ سختی سے تنبیہ کرکے نئی شاعرات کے پر تو پہلے ہی کتر رہے ہیں۔ کسی بھی سمت میں پرواز وہ کیا کریں گی؟
عورتیں کس دائرے میں رہ کر، یا اسے پار کرکے لکھیں گی، کیا اس کا فیصلہ وہ خود نہیں کرسکتیں؟
شعری اظہار میں عورت کا حصہ آپ اپنی قبرستان پرستی کی حدود میں متعین کرنا چاہتے ہیں۔ جب آپ ’’تہذیب کے دائرے‘‘ اور ’’بے شرمی نہیں!‘‘ وغیرہ کی سرزنش کرتے ہیں تو دراصل کہنا کیا چاہتے ہیں؟ کیا یہ کہ مثلاً کوئی شاعرہ عشقیہ اشعار نہ کہے؟ آپ فرمائیں گے ’’کیوں نہیں… خواتین رومانوی غزلیں، نظمیں لکھیں۔ ’’رمزیت‘‘ اور ’’ایمائیت‘‘ آخر کسی مرض کی دوا ہیں؟ سو ان ہی حدود میں رہ کر لکھیں۔‘‘
بہت خوب۔ لیکن اگر عورتیں عشقیہ شاعری کریں تو کیا وہ مردوں ہی کی طرح لکھ سکیں گی؟ چلیے مثال کے لیے اُردو کی نہایت بے ضرر، نظم ہی لیجیے (جس کی سادگی پر کئی بقراط نقاد تبسم کرتے ہوں گے۔)
’’مجھے دے دے
رسیلے ہونٹ، معصومانہ پیشانی،حسین آنکھیں‘‘
کیا کسی عورت کے قلم سے محبوب کے لیے یہ سطریں ہی آپ قبول کریں گے؟ کیا آپ فوراً مشرقی قدروں کی دہائی نہ دینے لگیں گے؟
اور اگر وہ محبوب کے سراپا کا بیان کر بیٹھی، تب آپ کیا کیجیے گا؟ یہی کلچرل رویے ہیں، جن کے باعث اُردو شاعری میں نسوانی اظہار قطعی بے جان ہے۔ آپ نے اسے دانستہ محبوس رکھا ہے۔ بیشتر اُردو ادبی جرائد کے صفحات میں شاعرات اسی شرط پر بابرقع جگہ پاسکتی ہے کہ رٹی پٹی باتیں لکھتی رہیں اور ’’یتیموں کا بھی ہے اللہ بیلی‘‘ سے ایک قدم بھی آگے نہ جائیں۔
نسوانی شعری اظہار برصغیر میں موجود ہے، لیکن آپ کی نظروں سے اوجھل۔ کیوں کہ آپ اس کی تخلیق کاری کو تسلیم کرنے ہی سے منکر ہیں۔
عورتوں نے وہ گیت بھی بنائے ہیں جو ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش کے گاؤں گاؤں میں گائے جاتے ہیں۔ آپ نہایت طمانیت سے کہتے ہیں کہ یہ وہ انوکھی دھرتی ہے جہاں ہجر و وصال کے گیت عورت کی زبان سے کہلوائے گئے ہیں۔ یعنی مردوں نے عورتوں کی طرف سے اپنے لیے خود یہ گیت بنائے ہیں کہ اے پریتم آکر مجھے انگ لگا لے۔ کسی قدر مضحکہ خیز نرگسیت مردوں سے یہ گیت لکھواسکتی تھی!! یہ گیت عورتوں ہی کے بنائے ہوئے ہیں۔ لیکن آپ اسے کیوں تسلیم کریں گے!
اور شادی بیاہ کے شوخ و مسرور گیت، جو ہمارے برصغیر کی ہر زبان میں موجود ہیں؟ مثلاً سندھی کا مقبول سہرا۔ ’’ڈھگوپیرپیراں‘‘
یہ بیل تواَڑا ہوا ہے
مول تو اس کا ہزاروں کا تھا
مگر ہل چلا کر نہیں دے رہا
کاتک کے دن آگئے ہیں
ساون کا مینہ برس رہا ہے
اور بیل ہے کہ ہل چلانے سے انکاری!!
کیا یہ بھی مردوں نے بنائے ہیں؟ کیوں کہ ’’مشرقی عورت‘‘ تو ایسی شوخی کی جسارت کرنہیں سکتی۔
’’بدن دریدہ‘‘ کی ایک نظم ’’زبانوں کا بوسہ‘‘ ہے۔ اس پر بھی ’’اُردو کلچر‘‘ سخت شرمندہ ہوا۔ میری کس قدر بچکانہ توقع تھی کہ اسے تخلیقِ حُسن سمجھا جائے گا۔ کیوں کہ یہ اپنے موضوع پر ایک بھرپور نظم ہے جس کی مثال اُردو تو کیا دوسری زبانوں میں بھی مشکل ہی سے ملے گی۔
زبانوں کے رس میں یہ کیسی مہک ہے
یہ بوسہ، کہ جس سے محبت کی صہبا کی اُڑتی ہے خوشبو
یہ بدمست خوشبو، جو گہرا،غنودہ نشہ لارہی ہے
یہ کیسا نشہ ہے
مرے ذہن کے ریزے ریزے میں اک آنکھ سی کھل گئی ہے
یہ بھیگا ہوا گرم وتاریک بوسہ
اماوس کی کالی، برستی ہوئی رات جیسے
امڈتی چلی آرہی ہے
تم اپنی زباں، میرے منہ میں رکھے، جیسے پاتال سے میری جاں کھینچتے ہو
مجھے ایسا لگتا ہے تاریکیوں کے لرزتے ہوئے پُل کو میں
پار کرتی چلی جارہی ہوں
یہ پل ختم ہونے کوہے
اور اب
اس کے آگے
کہیں روشنی ہے
بوسے سے اٹھتی ہوئی خوشبو… صہبا کی خوشبو! نشے کی سی کیفیت میں ذہن کے ریزے ریزے میں ایک آنکھ سی کھل جانا… شعور کا یوں چونک اٹھنا، اماوس کی کالی، برستی رات کا،امڈتے چلے آنا، تاریکیوں کے پل کی لرزش، پار کرتے جانے کا احساس، احساس کی روانی، یہ احساس کہ پل ختم ہونے کو ہے، اس کے آگے روشنی ہونے کاگماں…
کہیں؟ کہاں؟ ہے بھی کہ نہیں؟ مگر ’’ایسا لگتا ہے‘‘
سب کچھ بردِ دریا…
افسوس، عزیزقارئین، اُردو شاعری کے محترم مدبرین! یقیناًوہ کوئی بھینس تو نہ تھی جس کے آگے میں بین بجا رہی تھی۔ یقیناًغلطی کچھ میری ہی رہی ہوگی جو اس نظم پر داد تو کجا،ایک ہنگامہ برپا ہوا۔
معترضین:(چیخ کر) تو کیا ایک فرنگی شاعر جو کچھ کرسکتا ہے، اُردو کلچر میں پلی بڑھی مشرقی عورت بھی وہی کرسکتی ہے؟
جواب: ہاں ہاں! کیوں نہیں؟ بلکہ فرنگی شاعر سے بھی بہتر…
معترضین: (عالم غیظ و غضب میں) وہ ایسا سوچ بھی کیسے سکتی ہے؟
جواب: ایسے!
(اور نورجہاں نے ہاتھ سے دوسرا کبوتر بھی اُڑا دیا)