میں خواب کے کنارے بیٹھے بیٹھے
ہلکورے لیتی لہروں میں
تیرنے کا ہنر سیکھ لیتی
تو مجھے تمہارے لمس کی
ناؤ نہ تیار کرنی پڑتی
میں ہواکی شال اوڑھ کر
بگولوں میں رقص کرتے ذرات کے ساتھ
گھوم گھوم کر
کائنات پیدا کرنے کا ہنر جانتی
تو مجھے آرزو کی کالی چوکی ٹھوکنے کے لیے
کیلوں سے ہاتھ زخمی نہیں کرنے پڑتے
میں سراب میں روشنی کی طرح
منعکس ہوکے رہ سکتی
اور پیاسی آنکھ سے خود تک آنے والی
لکیر کازائچہ بنا سکتی
تو اپنی ہتھیلیوں کی لکیروں کی کھوج میں
خود کو نہ کھودتی رہتی
روح کے سیرابی کے پیالوں میں، ادراک۔۔۔
بھر بھر پیتی رہتی
تو شائد مجھے
وجود کی کھال سے
تمنا کا مہنگا سودا نہ طے کرنا پڑتا

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے