سنگدل رواجوں کی
یہ عمارتِ کہنہ
اپنے آپ پر نادم
اپنے بوجھ سے لرزاں
جس کا ذرّہ ذرّہ ہے
خود شکستگی ساماں
سب خمیدہ دیوار یں
سب جُھکی ہوئی کڑیاں
سنگدل رواجوں کے
خستہ حال زنداں میں!۔
اِک صدائے مستانہ!
ایک رقصِ رِندانہ!۔
یہ عمارتِ کہنہ ٹوٹ بھی تو سکتی ہے
یہ اسیر شہزادی چُھوٹ بھی تو سکتی ہے
یہ اسیر شہزادی ۔۔!۔
جبرو خوف کی دُختر
واہموں کی پروردہ
مصلحت سے ہم بستر
ضعف ویاس کی مادر
جب نجات پائے گی
سانس لے گی درّانہ
محوِرقصِ رندانہ
اپنی ذات پائے گی
تُو ہے وہ زنِ زندہ
جس کا جسم شعلہ ہے
جس کی روح آہن ہے
جس کا نطق گویا ہے
بازوؤں میں قوت ہے
اُنگلیوں میں صناعی
ولولوں میں بیبا کی
لذّتوں کی شیدائی
عشق آشنا عورت
وصل آشنا عورت
مادرِ خداوندی
آدمی کی محبوبہ