سفید ٹیکسی حمزہ کے پاس آکر رکی۔ ڈرائیور نے کھڑکی کا شیشہ نیچے کیا اور پوچھا۔ ’’کہاں جانا ہے ینگ مین؟‘‘ ڈرائیور کے چکنے چہرہ پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔
’’شکریہ ! ٹیکسی نہیں چاہیے۔ مجھے سامنے ہوٹل میں جانا ہے ۔ ‘‘ حمزہ نے جوان دیا۔
دسمبر کے ٹھٹھرے ہوئے دن میں سڑک کی دوسری جانب سفید لاٹن ہوٹل نمایاں تھا۔ حمزہ کے پاس وہ نوجوان لڑکیاں کھڑی تھیں جنہوں نے اس کے ساتھ اُس کار بروتک کا سفر کیا تھا۔ انہوں نے سر کے بالوں کو نیلا اور سرخ کرایا تھا اور ان کی ابرؤں اور ٹھڈیوں سے چاندی کی ننھی بالیاں لٹک رہی تھیں۔ وہ سب کی سب اچک کر ٹیکسی میں بیٹھ گئیں۔ ان میں سے ایک نے شوخ لہجے میں ڈرائیور کو پتہ بتایا۔ ٹیکسی چل دی ۔ حمزہ نے مڑ کر سٹیشن کی انکوائری آفس کی جانب دیکھا، جہاں دو کلرک اکتائے ہوئے سڑک کی جانب دیکھ رہے تھے ۔ اس نے سوچا واپس جانے کے لیے ٹرین کا وقت پوچھ لے لیکن اس نے ارادہ ترک کردیا۔ کل وہ کوئی بھی ٹرین لے سکتا ہے۔ ممکن ہے اسے آج ہی جانا پڑے۔ اینجلا کو اس نے آنے کی خبر نہیں دی تھی۔ اس سے ملنے کے بعد نہ جانے دل کا کیا حال ہو؟ ۔حمزہ نے اداسی سے سوچا۔
حمزہ سست قدموں سے لاٹن ہوٹل کی جانب چل دیا۔ ہوٹل کی دیوار پر چڑھی آئی وی کی شاخیں برہنہ تھیں اور ساتھ کے پارک میں چیری بلوسمس کی پتیاں بھی گرچکی تھیں۔ خوابیدہ فوارے کا پانی منجمد تھا۔ حمزہ رک کر اسے دیکھنے لگا۔ ماضی میں جب وہ اینجلا سے ملنے آتا تھا تو لاٹن ہی میں ٹھہرتا تھا۔ اور جب بہار ہوتی یا موسم گرما تو دونوں ہوٹل سے نکل کر اسی پارک کی چہار دیواری پر آ بیٹھتے ۔ پارک میں کھلے گلاب کے سرخ، زرد پھولوں کو دیکھتے اور سامنے سٹیشن سے نکلتے خوش و خرم سیاحوں کو دیکھ کر مسکراتے ۔
’’ینگ مین !‘‘ٹیکسی ڈرائیور کے الفاظ حمزہ کو یاد آئے ۔
اس کے سرپر چند لے پن کا ہلکا نشان نہ ہوتا اور کنپٹیوں پر سفید بال نہ ہوتے اور زندگی عام انسانوں جیسی ہوتی تو وہ سچ مچ ینگ مین ہی ہوتا۔ لیکن اسرائیل میں پانچ سال کی قید بامشقت اور وہاں جو تشدد اس پر ہوا اس نے اس کی شوخیوں ، چلبلے پن اور بے فکری کا خاتمہ کردیا تھا۔ عمراب بوجھ بن گئی تھی اور زندگی ہر طرح کی آسانیوں سے محروم ۔ اتنا کچھ گنوانے کے بعد فلسطینی ریاست اب بھی ایک خواب ہی تھی۔ بے یقینی اور اکتا دینے والی تھکان نے اسے دبوچ لیا۔ مدت ہوئی اس نے طبقاتی کشمکش ، جمہوریت اور انقلاب کا خواب دیکھا تھا۔ سوویت روس کے انہدام کے بعد بھی اس کے خیالوں میں تبدیلی نہیں آئی تھی ۔ لیکن اب سب کچھ ختم ہوچکا تھا ۔ سارے خواب ، امیدیں اور آرزوئیں سبھی شیشے کی ٹوٹی ہوئی کرچیوں کی طرح اسے رگڑتی رہتی تھیں۔ حمزہ کا ینگ مین فنا ہوچکا تھا اور اینجلا بھی کسی اور کی ہوچکی تھی۔ حالانکہ مدتوں دونوں کی دوستی رہی تھی۔ جسے جسمانی اور ذہنی رشتوں نے تازہ رکھا تھا۔ جب حمزہ پارک کے پاس سے جانے لگا تو اس کی نگاہ گلاب کے بے برگ پودے میں ایک ادھ کھلے پھول پر پڑی۔ اس کی زرد رنگت ویرانی میں زندگی کی علامت حمزہ کو محسوس ہوئی ۔ ساتھ ہی اس کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آگئی۔
ہوٹل کے فوئر میں سب کچھ پہلے کی طرح تھا۔ کاؤنٹر پر پرانے وقتوں کی گھنٹی ، میز پر بڑے سے گلدان میں کارنیشن کے کاغذی پھول اور وہ عجیب سی بوجیسے بہت سارے پرانے کمبل سوکھنے کے لیے ڈال دیئے گئے ہوں۔ کچھ بھی تو نہیں بدلا تھا۔ حمزہ نے ایک کمرہ بک کیا اور ریسپشنسٹ سے ونڈمل اسٹریٹ کا پتہ پوچھا۔ اس نے بتایا کہ سڑک سمندر کے قریب ہے ۔ فاصلہ زیادہ نہیں تھا اس لیے حمزہ نے بس لینا مناسب نہیں سمجھا۔اس کے علاوہ ہوٹل کا کرایہ دینے کے بعد اسے پندرہ پاؤنڈ بچالینے کی امید تھی جسے وہ دن اور رات کے کھانے میں قیمت ادا کرسکتا تھا۔
سردی کی وجہ سے سڑک پر چند راہگیر تھے ۔ کرسمس قریب تھا ، جس کی خوشی میں دوکانوں میں رنگین روشنیاں تھیں۔ واٹر سٹون کی کتابوں کی دکان حمزہ کو نظر آئی۔ کوئی اور دن ہوتا تو دکان کے اندر جا کر کتابوں کی ورق گردانی کرتا۔ لیکن جب سے پارٹی کی کتابوں کی دکانیں بند ہوئی تھیں اس کا دل پڑھنے سے اچاٹ ہوگیا تھا۔ اس نے اپنے آپ کو سمجھا لیا تھا کہ جب کتابوں میں معاشرے کی برہمی اور انتشار کی اصل وجہ نہ ملے پھر مطالعے کا کیا فائدہ ؟
اٹھائیس نمبر ونڈمل سٹریٹ کے دروازے کی گھنٹی حمزہ نے بجائی۔ کچھ دیر بعد دروازہ کھلا۔ ڈھیلے ڈھالے سرخی مائل لمبے سے فراک میں ملبوس اینجلا سامنے کھڑی تھی۔ چہرے کے نقوش وہی تھے ۔ وہی حیران سی بے چین آنکھیں ، لمبا چہرہ ، ننھا سامُنھ اور سیدھی ناک اور معصومیت بھی وہی پہلے جیسی تھی۔ لیکن اسے حاملہ دیکھ کر حمزہ کے ذہن کو جھٹکا سالگا ۔ ساتھ ہی تیزاب بھری چھری اس کی روح میں اتری اور چرخی کی طرح گھوم گئی۔
’’ہیلواینجلا!‘‘ اپنی اذیت پو قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے حمزہ بولا۔
’’ہیلو حمزہ!‘‘ اینجلا کے چہرے پر تعجب کی وجہ سے شکنیں آگئی تھیں۔ اس کے وجود میں وہ چنگاریاں اڑیں جو اس کی چاہت اور اپنائیت کے احساسات کو گرم کر دیتی تھیں، لیکن وہ جلد ہی بجھ گئیں۔ چہرے پر پرانی آشنائی کی صرف مسکراہٹ اور حیرانی رہ گئی۔
’’اندر آسکتا ہوں؟‘‘
’’ہاں، کیوں نہیں‘‘۔
حمزہ دروازے سے داخل ہوا۔ دونوں ایک دوسرے سے لپٹے لیکن اینجلا نے بو سے کے لیے اپنا خنک رخسار پیش کیا اور جلد ہی آغوشی سے خود کو جدا کر لیا۔ دونوں لاؤنج میں آگئے ۔
’’ حشام نے تمہاری رہائی کی خبر دی تھی۔ اسی سے میرا پتہ تمہیں ملا ہوگا‘‘۔ اینجلابولی اور حمزہ کو صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
کمرے میں گیس کا ہیٹر جل رہا تھا جس کی وجہ سے وہاں خوش گوار گرمی تھی۔ کارنس پر کتابیں رکھی تھیں اور دیوار پر کارل مارکس کی تصویر ٹنگی تھی۔ درمیان میں میز پر فنانشیل ٹائمز پڑا تھا۔ حمزہ نے انور یک اتارا جسے اینجلا نے ہال میں جاکر ہینگر پر ٹانگ دیا۔
’’حشام نے اور کچھ نہیں بتایا ؟ ‘‘ اینجلا جب واپس لاؤنج میں آئی تو حمزہ نے اس سے پوچھا ۔
’’ نہیں ۔ اتنا تو سمجھ سکتی ہوں کہ اسرائیلوں کے جیل میں تم پر کیا گزری ہوگی؟‘‘
’’عذاب دونوں جانب سے تھا۔ اسرائیلوں کا طبعی ستم اور فلسطینی قیدیوں کا ذہنی جبر ‘‘
’’کیا مطلب ؟ ‘‘ اینجلا نے کسی قدر حیرت سے پوچھا ۔ وہ سامنے کے صوفے پر بیٹھ گئی تھی۔
’’میرے سامنے جو فلسطینی قیدی تھے وہ سبھی حماز سے تعلق رکھتے تھے ۔ جن کا دعویٰ تھا کہ جب بھی آزاد فلسطینی ریاست قائم ہوگی تو وہاں شرعی حکومت قائم کریں گے ‘‘۔ حمزہ بولتے ہوئے رک گیا۔ اس نے سر کو صوفے کی پشت سے ٹکا دیا اور چھت کو تکنے لگا۔ ایک خشک ہنسی اس کے چہرے پر آگئی۔ اس کی نگاہیں اینجلا پر واپس آگئیں اور بولا ۔’’میں نے جب کہا کہ ہر مذہبی حکومت کی طرح وہ بھی فسطائی ہوگی اور تاریخ کا پہیہ پیچھے نہیں جاتا تو میں ان کے لیے اچھوت ہوگیا‘‘۔
’’ لیکن تمہیں اسرائیلوں نے گرفتار کیوں کیا ؟ ۔تم تو اپنے والدین سے ملنے گئے تھے ۔ کیا تم بھی ؟‘‘
’’نہیں میں خود کش بمبار نہیں بنا تھا۔ ایسی بمباریوں سے آزادی کی جنگ نہیں جیتی جاتی۔ آزادی اور جمہوریت میں فرق نہیں ہے ۔ میرا ایک عزیز خودکش بمباری کرتے ہوئے مارا گیا تھا ۔ جب میں اس کے گھر میں پُر سے کے لیے گیا تو وہیں سے اسرائیلوں نے مجھے گرفتار کر لیا‘‘۔
’’خیر ۔ تمہیں رہائی مل گئی ۔‘‘ اینجلا مطمئن لہجے میں بولی۔
’’ہاں ملی، لیکن وہ نہیں جو میں چاہتا تھا۔‘‘
’’کیامطلب ؟‘‘
’’یہاں آنے کی وجہ تمہاری سمجھ میں نہیں آئی‘‘
’’ملازمت کی تلاش میں آئے ہوئے ہوں گے‘‘۔ اینجلا اس کی بات سمجھ گئی تھی پھر بھی اس نے ناسمجھی کا اظہار کیا۔
سمندر قریب تھا۔ وہاں سے سائرن کے بجنے کی آواز آئی۔ سمندر پر کہر چھا چکی تھی اور سائرن کی کرخت آواز بندرگاہ کی جانب آتی ماہی گیروں کی کشتیوں کو خبر دار کر رہی تھی۔
’’ملازمت؟ وہ مجھے کیوں ملنے لگی۔ اور وہ بھی یہاں؟۔ میں ماہی گیر نہیں۔ مچھلیوں کی تجارت نہیں کرتا۔ اس ننھے بندرگاہ میں مجھے کون سی ملازمت ملے گی؟ ‘‘ حمزہ نے کسی قدر تلخی سے کہا۔
’’یہاں بہت سارے ہوٹل ہیں جو زیادہ تر گرمی کے موسم میں کھلے رہتے ہیں۔ لیکن کچھ سردی میں بھی مصروف رہتے ہیں۔ جہاں کام کرنے والوں کی ضرورت رہتی ہے ۔ اچھا یہ بتاؤ کافی پیوگے یا چائے ؟‘‘
’’جو بھی تم آسانی سے بنا سکو‘‘۔
’’وہی پرانا جواب ۔‘‘ اینجلا کے چہرے پر کسی پرانی یاد سے مسکراہٹ آگئی۔ ماضی میں جب کبھی وہ ساتھ ہوتے اور اینجلاا میزبانی کے فرائض انجام دیتی تو حمزہ اسے یہی جواب دیا کرتا۔
جب اینجلا کچن میں گئی تو وہ اٹھ کر ان کتابوں کو دیکھنے لگا جو کارنس پر تھیں۔ سبھی شیکسپیئر اور ابسن کے ڈراموں کے مجموعے تھے۔ وہ واپس آکر صوفے پر بیٹھ گیا اور اس کی پشت پر سرٹکا کر آنکھیں بند کرلیں۔ بے یقینی اور اکتادینے والی تھکان نے اسے پھر آن لیا۔
دنیا میں بلند ہوتے نعرے اس کے ذہن میں گونجنے لگے۔ تہذیبوں کا تصادم ۔ امریکہ میں رجعت پسندوں کی بڑھتی ہوئی طاقت۔ اسلام کی یہودیوں اور عیسائیوں کے خلاف جنگ جس میں خودکش بمباریوں سے فتح ہوگی۔ ’’غربت کی ذلت کس طرح دور ہوگی اس کے لیے کوئی محاذ نہیں ۔ کہیں بھی نہیں۔ ‘‘ ایک ہلکی سی سسکی کے ساتھ حمزہ نے اپنے آپ سے کہا۔
اینجلا کافی سے بھرا مگ لے کر آگئی۔ ایک کو اس نے حمزہ کی جانب بڑھایا ۔ اس نے چسکی لی ۔ گرم کافی میں وہی ہلکی سی مٹھاس محسوس ہوئی جو اسے پسند تھی۔
’’کیا مجھے کسی ہوٹل میں ملازمت دلاسکتی ہو؟ ‘‘ اینجلا کو حمزہ گھورہا تھا۔ اس کی قمیص کا کالر پھٹا تھا۔ اینجلا کو اس کے خستہ پل اوور کے شانے پر سر سے گرے چند بال نظر آئے ۔ کوئی اور زمانہ ہوتا تو وہ وہ حمزہ کے پل اوور کو جھاڑ کر صاف کر دیتی اور قمیص کی مرمت بھی کردیتی ، لیکن وہ اسی طرح بیٹھی رہی۔
’’میرا کوئی ہوٹل نہیں ہے ‘‘۔ اینجلا نے رکھائی سے جواب دیا۔
’’میں مذاق کر رہا تھا۔ میری جیب میں واپسی کا ٹکٹ موجود ہے ۔‘‘ حمزہ نے مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ سچ تو یہ تھا کہ اسکاربرو میں اسے کوئی نوکری مل جاتی تو وہ رک جاتا اور کسی نہ کسی بہانے اینجلا سے ملتا رہتا۔
کچھ دیر دونوں خاموش رہے۔ باہر سے بھاگتی موٹروں کی آوازیں آئیں۔ ان ساعتوں کی طرح جو رنج والم کے شور سے بوجھل بھاگتی رہتی ہیں۔
’’ کیا تمہارا خاوند کسی ہوٹل میں کام کرتا ہے ؟‘‘
’’ہاں۔ وہ میرا خاوند نہیں، پارٹنر ہے ۔ ہم دونوں ساتھ رہتے ہیں۔‘‘ اینجلا کا لہجہ اب بھی خشک تھا۔ اس کی نگاہیں جھکی تھیں اور وہ اپنے مگ کو تک رہی تھی، جسے اس نے دونوں ہاتھوں سے پکڑا ہوا تھا۔
’’ کیا وہ شیکسپیئر اور ابسن پڑھتا ہے ؟‘‘
’’نہیں ۔ سعید زیادہ پڑھا لکھا نہیں ہے ، سکول کے بعد اس نے تعلیم ترک کردی۔ میں اسے پڑھ کر سناتی ہوں ۔اسے بالی وڈ کی فلمیں پسند ہیں‘‘۔ یہ کہتے ہوئے اینجلا مسکرادی ۔
’’بالی وڈ؟‘‘
’’وہ ہندوستانی ہے ۔ پتہ نہیں کیوں اسے وہ فلمیں پسند آتی ہیں؟‘‘
’’اپنی زمین سے جلدی رشتہ نہیں ٹوٹتا۔ اور فنانشل ٹائمز بھی تم ‘‘
’’ہاں میں ہی پڑھتی ہوں۔ ‘‘ اینجلا نے حمزہ کا جملہ مکمل کردیا۔
’’ جاننے کے لیے کہ دنیا میں ہورہا ہے ؟ ‘‘ حمزہ نے ہلکی سی جمائی لیتے ہوئے پوچھا ۔
’’وہی ہوتا ہے جو وہ چاہتے ہیں۔ منافع اور نقصان دونوں ہی ۔ ‘‘ اینجلا اخبار کے سرورق کی جانب اشارہ کر رہی تھی جس پر ترقی یافتہ ملکوں کے سربراہوں کی بڑی سی تصویر تھی۔
حمزہ نے مُنھ بنایا اور اپنے لبوں کو انگلی سے سہلایا ۔ پھر بولا۔
’’ تم نے میرا انتظار نہیں کیا اینجلا۔‘‘ اس کے چہرے پر غم ناک مسکراہٹ تھی۔
’’بہت دنوں تک کیا حمزہ۔ مدت ہوئی لوگوں نے پرچم سمیٹ لیے اور فوج نے بغیر لڑے جنگ ہار دی۔ پھر بھی جب تک تم ساتھ رہے کچھ زندہ رہا میرے پاس ۔ لیکن جب تم نہ رہے اور تمہارے آنے کی امید بھی نہیں رہی تو میں نے سوچا کہ اس جان لیوا انتظار کا کیا فائدہ؟‘‘۔
حمزہ نے دیوار پر ٹنگی کارل مارکس کی تصویر پر نگاہ ڈالی اور پوچھا۔’’ پھر یہ تصویر کیوں ہے ؟‘‘اس کا لہجہ تیکھا تھا۔
’’حوصلہ اور امید کو روشن رکھنے کے لیے۔اس آدرش کو یاد رکھنے کے لیے جو تاریخ کی ٹھوکر سے نہیں ٹوٹتا ۔ ‘‘ اینجلا نے جواب دیا اور اٹھ کر میز پر رکھے ٹشو پیپر سے تصویر کے شیشے کو صاف کرنے لگی۔
ڈھیلے ڈھالے فراک میں اینجلا غبارے کی طرح حمزہ کولگی۔ حمل سے نمایاں اس کے پیٹ کو دیکھ کر اسے اس بچے کا خیال آیا جو اس کے جسم میں اس کے خون کی دھارسے زندہ مچل رہا تھا اور اس روشنی کا منتظر تھا جو دنیا میں آنے کے بعد اسے نظر آنے والی تھی۔ اس بچے کی رگ جاں اینجلا کے متحرک دل سے جڑی تھی۔ جب وہ پیدا ہوگا تو شاید اس کی آنکھیں بھی اینجلا کی آنکھوں کی طرح بے چین اور حیران سی ہوں گی ۔ شاید اس کی ناک بھی اینجلاجیسی ہو۔ حمزہ نے سوچا۔ اینجلا سے کھسک کر اس کی نگاہیں دیوار پر گئیں جس پر نیا وال پیپر تھا جس پر ننھے پھولوں کی بہار سے وہ شگفتہ محسوس ہوا۔
’’لگتا ہے گھر کی آرائش ہوتی رہی ہے ‘‘۔
’’سعید کو جب فرصت ہوتی ہے وہ گھر کے چھوٹے بڑے کاموں میں لگا رہتا ہے ۔ وہ چاہتا ہے جب بچہ پیدا ہو تو گھر کی ہر شے نئی نظر آئے ‘‘۔ اینجلا نے اپنے پیٹ کو تھپتھپاتے ہوئے جواب دیا۔
ہال میں فون کی گھنٹی بجی۔ اینجلا اٹھ کر وہاں چلی گئی، جب وہ واپس آئی تو بولی۔
’’ سعید کا فون تھا۔ بہت خیال رکھتا ہے۔ فون کر کے برابر میری خیریت پوچھتا رہتا ہے ‘‘۔
اینجلا پاس ہی کھڑی تھی۔ جب وہ حمزہ کے ہاتھ سے خالی مگ لینے لگی تو حمزہ نے اس کے پیٹ پر ہاتھ رکھ دیا۔ اینجلا کے فراک کے نیچے کوئی شے کلبلاتی اسے محسوس ہوئی۔
’’اس کا نام کیا رکھو گی ‘‘۔
’’حمزہ‘‘۔ جواب دے کر اینجلا کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ حمزہ بھی کھسیانی ہنسی ہنس دیا۔
’’بیٹا ہونے پر سعید اسے باپ کا نام اور اگر بیٹی ہوئی تو اپنی ماں کا نام اسے دے گا۔ یہی اس کافیصلہ ہے ۔ ‘‘ اینجلا نے بتایا ۔
’’گو یا پیچھے کی جانب سفر کرے گا‘‘۔ حمزہ نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا ۔
’’جب سامنے کا راستہ نظر نہ آئے تو پیچھے مڑ جانا ہی آسان ہوتا ہے ‘‘۔
’’ٹھیک کہتی ہو‘‘۔ حمزہ بولتا ہوا جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔
’’اچھا تم سے ملاقات ہوگئی۔ اپنا پتہ دے دو۔ جب بچہ پیدا ہوگا تو میں تمہیں خوش خبری دوں گی‘‘۔ اینجلا کی آنکھوں میں مسرت تھی اور وہ ہاتھوں کو ایک دوسرے پر اس طرح مار رہی تھی جیسے تالیاں بجا رہی ہو۔
حمزہ اداس سا ہوگیا۔ ہال میں جاکر اس نے اپنا انور یک پہن لیا۔ اینجلا بھی اس کے پیچھے پیچھے آگئی۔ حمزہ کو خیال آیا کہ وہ اینجلا کی زندگی کے کسی صفحے پر لکھا کوئی لفظ بھی نہیں رہا۔ اس نے اتنا بھی نہیں کہا کہ حمزہ اتنی دور سے آئے ہو ایک دو دن کے لیے اسکاربرومیں رک جاؤ۔ اس خیال کی اذیت کے باوجود حمزہ کا ہاتھ اس کی جیب میں چلا گیا۔ اس نے دس پاؤنڈ کا نوٹ نکال کر اینجلا کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
’’ابھی میرا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے ۔ اس سے کوئی تحفہ خرید کر نومولود کو میری جانب سے دے دینا ۔ گڈبائی ‘‘۔
اینجلا کا جواب سننے کے لیے حمزہ رکا نہیں۔ وہ گھر سے باہر نکل گیا۔