کتاب اباسین پہ سحر ہوتی ہے
مصنف: ڈاکٹر شاہ محمد مری
صفحا ت : 124
قیمت : 150 روپے
مبصر : عابدہ رحمان
دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح افغانستان بھی شدید اور بدترین قبائلی اور سرداری نظام کا شکا رہا۔جہاں سرداروں کی خدائی میں تعلیم نہ ہونے کے برابر ، صحت کی سہولتوں سے محروم عوام اور جاگیرداروں کا بول بالا تھا۔ اور جہاں عورت صرف ایک بکاؤ مال تھی۔ لیکن ظلم و ستم کی اس اندھیر نگری میں ایسے بھی چند لوگ ہوتے ہیں جو سانس رساں ہوتے ہیں ، جن کی امید بھری آواز سانسوں کے تسلسل کو قائم رکھنے میں مدد گار ہوتی ہے۔ جو غریبوں ، مجبوروں اور استحصال زدہ لوگوں کی سانسوں کو رواں رکھنے کے محرک ہوتے ہیں ۔ جو گھپ اندھیرے میں بہ مثلِ روزن ہوتے ہیں۔
وہ ایک ایسا ہی روزن، ایک ایسا ہی ساہ رساں اور ایک ایسا ہی باغی تھا جس نے اس سارے کریہہ نظام کے خلاف ’ نہیں‘ کا عَلَم بلند کیا اور باغی کہلایا۔ اس کے اس نعرۂ بغاوت میں نعرۂ امید بھی شامل تھا ۔ اپنی سوچ کوتحریر کی صورت دی اور مختلف ناموں سے لکھتا رہا۔ اس کی یہ امید ثور انقلاب کی صورت بر آئی۔
افغانستان کا یہ باغی ، یہ روشنی ’ دا اباسین سپیدے ‘ کا مصنف سلیمان لائق ہے ۔جس کا ڈاکٹر شاہ محمد مری کا کیا گیا خوبصورت ترجمہ ’ اباسین پہ سحر ہوتی ہے‘ جب میں نے پڑھنا شروع کیا تو یہ محض نثر پارے کہاں تھے بلکہ درد پارے اور محبت پارے تھے۔جنہیں پڑھتے ہوئے سارا وقت میرے کانوں میں قافلے کے اونٹوں کی گھنٹیاں بجتی رہیں تو کبھی لختہ اور زرغونہ کی انگڑائی لیتے وقت سکوں کی جھنکار سنائی دیتی رہی۔کبھی بانسری کے درد کے ساتھ محبوبہ سے جدائی پر اس کی آنکھوں کی نمی محسوس ہوتی رہی تو کبھی ہندوکش کی ہوائیں سنسناتی رہیں ۔ ایسا بھی ہوتا رہاکہ ایک بے اماں وطن کے ندی نالوں ، اس کے جھرنوں کی سسکار دل پکڑتی رہی۔
یہ کتاب ایک ناول یا ایک کہانی نہیں جو اپنے قاری کو اپنے کرداروں میں یوں جکڑ لیتی ہے کہ پلک جھپکنا بھول جائے ۔لیکن پھربھی یہ درد پارے ایک ایسی ہی کہانی کا تسلسل ہیں کہ جو پڑھنے والے کو اِدھر اُدھر ہر گز جانے نہیں دیتی اور محبت، جدائی، ریزہ ریزہ اور زخمی وطن کی فریاد، غلامی کی زنجیروں کی جھنکار اور اس آزادی کی پکار کے کردار‘ ایک ہی منزل کی جستجو ‘اسے ایک ناول ہی کی صورت تو دیتے ہیں۔
’ چرواہے کا نغمہ‘ میں وہ کہتے ہیں کہ ’ ان پہاڑوں کی ہر کھائی نے میرے گیت اور میری بانسری کی لے سن رکھی ہے۔ میں نے ہر پہاڑی کی چوٹی اور ہر موڑکو ریوڑوں کے مالکوں کے ظلم و جبر کے قصے سنائے ہیں‘ ۔ پھر آگے وہ ایک سڑاند زدہ معاشرے کی طرف کس طرح اشارہ کرتا ہے کہ ’میں اس موسیقی کے لیے دھنیں کمپوز کرتا ہوں مگر زمین کے قدیم باسیوں کو میری دھنوں سے چڑ ہے۔وہ ان دھنوں اور اس مستقبل کے بیچ دیوار کھڑی کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔مگر میں صبح صادق کی طرح ابھر کر سورج کے لیے ہمیشہ گیت گاتا رہوں گا‘۔
سلیمان لائق بانسری کو ایک طرح سے درد و غم کا استعارہ بھی سمجھتا ہے جبکہ دو سری طرف وہ درد بھری لے کو درد کشا بھی کہتا ہے ؛ ’ بانسری پشتون قوم کے محنت کشوں کی طویل بدنصیبیوں اور چیخوں کی تاریخ کی عکاس ہے۔ جو شخص بانسری کی دردناک لے کو نہیں پہچانتا، سمجھو وہ پشتون قوم کی تاریخ کو نہیں جانتا۔ اے نوجوان چرواہے، بانسری بجاتا جا۔ اور اس کی لے کے سنگ مجھے اس شرمناک زندگی کے غموں سے ایک لمحے کے لیے دور لے جا‘۔
دل بہت ہی بری طرح سے کٹتا جارہا تھا،جب ایک گھناؤنے معاشرے کی اک جھلک میں ’ طوائف ‘ میں پڑھ رہی تھی ’ جس طرح اپنی بھوک تیز کرنے کے لیے اچار اور کالی مرچ استعمال کرتے ہیں ، اس طرح کبھی کبھار بھوکے ننگے لوگوں کی تصویروں کی نمائش کر کے اور ان لوگوں سے ہم دردی ظاہر کر کے اپنے عیش و عشرت کو دوام بخشنے کی کاروائی کرتے ہیں اور یاپھر وہ اس طرح سے اپنے مجرم ضمیر کو لوریاں دے کر سلا دیتے ہیں ۔ وہ غلط طور پر یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ بھوک، اچاراور ناخوش گوار چیزوں کی یادگاریں انھیں بدہضمی سے نجات دلا سکیں گی، بد ہضمی جو ان کی عیاشیوں کا قدرتی نتیجہ ہے۔‘
سلیمان لائق جب اس درد اور تکلیف کو برداشت نہیں کر پاتا تو کبھی وہ واپس بچپن میں کھو جانا چاہتاہے اور بچہ بن جانا چاہا ہے اور کبھی اپنے درد کو ایک رقاصہ کے رقص سے ہم آہنگ کر کے اپنے وجود کے درد پر پھاہا رکھتا ہے۔ ’ بچپن‘ میں وہ کہتا ہے ’ کیا ہر سہ پہر کو دریا کے کنارے ریت سے گھروندے بناتے یہ خوبصورت بچے مجھے اپنا ساتھی تسلیم کریں گے؟‘ اورپھر وہ غم اور تکلیف سے بلبلاتے ہوئے رقاصہ کو کہتا ہے ’ میرے جذبات کی گہرائی کو اپنے دائمی فن کے حسن سے ہم آہنگ ہونے دو اور میرے تصور میں مجھے اپنے آہنی پنجرے کی کھڑکیاں برباد کرنے دواور مجھے اپنے ساتھ عوام کی آزادی کے نغمے گانے دو‘۔
ہر انسان پر ایسا وقت آتا ہے کہ جب وہ حالات کے ہاتھوں رو دیتا ہے اور ہلکا ہو جاتا ہے لیکن سلیمان لائق کی یہ بے بسی دیکھیں کہ ’ وہ لوگ کس قدر خوش نصیب ہیں جو روتے ہیں اور رونے کی سکت رکھتے ہیں۔ ‘
لیکن اس سب کے باوجود وہ اباسین پہ سحر کی امید لیے رہا اور اس سحر کی دوسروں کو بھی امید دلاتا رہا۔ وہ نہ خود ڈگمگایا اور نہ ہی دوسروں کو ڈگمگانے دیا۔
’ جس طرح رات کے بعد صبحِ صادق ہوتی ہے اور صبحِ صادق کے بعدسورج نکلتا ہے ، اسی طرح غلامی اور استبداد کے بعد آزادی ناگزیر ہے مگر انسانی بندشوں کی رات فطرت کی رات سے بہت لمبی ہوتی ہے۔اب جب کہ میرے بازوؤں میں نئی قوت آگئی تو شاید یہ کالی زنجیریں ٹوٹ جائیں اور آزادی کی صبح میسر ہو۔نکلو اے مقدس سورج نکلو ‘۔
ایک بہت خوبصورت کتاب اور اس کا اتنا ہی حسین ترجمہ کہ پڑھتے ہوئے آپ کو کہیں بھی جھول محسوس نہیں ہوگا کہ یہ ترجمہ ہوا ہے بلکہ یوں لگے گا کہ جیسے یہ لکھی ہی اردو میں گئی ۔ ضرور پڑھیے اور مزہ لیجیے۔
A beautiful narration in deed. In fact Dr sb has got tender heart and understands the pain of humans.