میں ایک کمرے میں بند ھوں۔ مجھے پتا نہیں کہ میں نے خود اپنے کو بند کیا ہے، یا مجھے بند کیا گیا ہے۔ مگر اتنا پتا ہے کہ میں بند ہوں۔ میں کچھ نہیں دیکھ سکتا۔ میرے کمرے کا ہر چیز الٹا ہوا ہے ۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ میرے کمرے کا ہر حصہ سلطنتوں میں تقسیم ہے۔میں ہر جگہ قدم رکھتا ہوں۔ مجھے ایک نئی سلطنت کی موجودگی محسوس ہوتی ہے۔ مگر میں یہ سب محسوس کررہا ہوں کیونکہ میں دیکھ نہیں سکتا۔ مجھے اپنے پرندوں کے آوازیں ابھی تک سنائی ہو دے رہی ہیں کہ وہ بہت سارے دنوں سے پیاسے ہیں۔میں مٹکے میں پانی دیکھتا ہوں۔ مجھے مٹکے میں پانی کے بدلے مٹی اور ایک چراغ مل جاتا ہے۔ میں اس چراغ کو جلا کر اپنی کتابوں تک پہنچ جاتا ہوں۔ کہ میں کچھ پڑھ لو۔ مگر افسوس میرا آخری امید چراغ بھی میرے ہی کتابوں میں گرکر بجھ جاتا ہے۔۔۔میں کچھ نہیں کر پاتا کیوں کہ میرے پرندے بھی پیاسے ہیں۔اور میری کتابیں بھی جل گئی ہیں۔ میرے کمرے میں کچھ بھی نہیں ہے۔ بہت اندھیرا ہے۔ ایک لائٹ اور ایک پنکھا ہے وہ بھی خراب ہے۔ میں اب رو رہا ہوں۔ مجھے لگتا ہے یہ سب میرے اپنوں نے کیاہے۔ میں بھاگ جاتا ہوں کھڑکی تک پہنچ جاتا ہوں۔ کھڑکی کے قریب ایک سوراخ ہے۔ میں اسی سوراخ سے باہر دیکھتا ہوں۔ وہاں سب کچھ روشن ہے۔ بڑی بڑی بلڈنگیں ہیں اسکول کالج اور یونیورسٹی ہیں۔ایک میں ہوں جس کمرے میں اندھیروں میں ہوں۔میں پر بھاگ کر اپنے پرندوں کے پاس جاتاہوں جو سالوں سے بھوک اور پیاسے ہیں۔اور ان میں سے کچھ گم ہیں۔ مجھے محسوس ہورہا ہے کہ میں کسی اور کا ھوں۔ میرے ہاتھوں کے ناخن میرے بال میرے کپڑے میری سوچ سب کسی اور کی ملکیت ہے۔میں بس ایک بت ہوں۔ جو کچھ نہیں کر سکتا۔ میں لاوارث ہوں۔
میں مجبور ہوکر روتا ہوں کہ مجھے کچھ بھی نہیں چاہیے۔ ابھی میں اندھیروں میں رہنے کا عادی بن گیاہوں۔ بس میری جلی ہوئی کتابیں واپس کردو۔ میرے پرندوں کو پانی پلادو۔ بس اتنی روشنی دو کہ میں اس کمرے میں چہل قدمی کرسکوں۔ اور مجھے کچھ بھی نہیں چاہیے۔ میں اب اندھیروں کا عادی بن گیا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے اور کچھ بھی نہیں چاہیے
(ایک ادھوری سوچ )

0Shares
One thought on “میں اندھیروں میں ہوں  ۔۔۔ اعجاز احمد بزنجو”

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے