رنگ سفر میں رہتے ہیں اور
خوشبو کے سنگ، تتلی بن کر
اُڑتے اُڑتے کھوجاتے ہیں
شاید مٹی ہوجاتے ہیں
اورپھر اک دن!
بھیس بدل کر آجاتے ہیں خوابوں میں
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ
خواب اگر مٹی ہوجائیں
آنکھیں پتھر ہوجاتی ہیں
پتھر تو بھاری ہوتے ہیں
کتنے بوجھ اٹھائیں گی یہ پلکیں آخر
بوجھل بوجھل سی رہتی ہیں
رنگوں کے کھوجانے پر
تصویریں دکھوکہ دیتی ہیں
’’یوں ‘‘ سمجھیں ہم ساحل پر ہیں
جھاگ سے لکھے افسانے میں
ذیادہ دیر نہیں رہنا ہے
بہہ جانے میں
بارش، بادل ایک بہانہ ہوتا ہے
سب کو جانا ہوتا ہے
روحیں یہ سب دیکھ رہی ہیں ، ہنستی ہیں
رشتوں کے بافیدہ جال میں الجھے لوگ
نامحرم قبروں پر فاتحہ پڑھتے لوگ