ریاض ہمدانی چونکہ میزبان اور آرگنائزر تھا اس لیے پچھلے چند دنوں سے شناسا سابن چکا تھا ورنہ ہم پہلے ایک دوسرے کو نہیں جانتے تھے۔اب بھی کتنا جانتے تھے!! ۔ ہمارا اپنا زکریا خان جو تھا وہاں۔ وہی ہمارا ریاض بھی تھا، فیاض بھی اور ’’ بیاض‘‘ تو تھا ہی ۔
بس اتنا پتہ ہے کہ فون پہ گفتگو کے دوران ہمدانی مجھے جنرل ضیا ء الحق کی طرح چاپلوسی میں پگھل پگھل جانے والے افسروں جیسا نہ لگا۔ احترام اپنی جگہ مگر اُس کی باتوں سے میں کسی بڑے موقع پر ست کی سی بد بو محسوس نہ کرسکا تھا۔ پھر کسی نے بتایا کہ وہ ہمارے راہبرو لیڈر انوار احمد کی شاگردی رکھتا ہے تو بس میرے لیے یہی سند کافی تھی۔ میں انوار احمدکا نام سن کر آنکھیں بند کر کے اُس کے دوستوں سے دوستی بنا لیتا ہوں ۔بعد میں خواہ اُس کے شاگرد جس بھی غیر مستحسن جگہ پہ چاہیں مشاعرے پڑھتے رہیں،میں انوار کے گناہوں کی لکیروں کی قطار کے ساتھ ایک اور لکیر لگا کر آگے بڑھ جاتا ہوں۔(خبردار کرتا جاؤں کہ یہ لکیریں ذرا زیادہ ہوتی جارہی ہیں۔ میری تجویز ہے کہ وہ اسی سالہ بڈھوں کو اب شاگرد کہنا چھوڑ دے تاکہ ان بالغان کے گناہ ثواب اُنہی کے نامہِ اعمال میں لکھے جائیں)۔
گاڑی سے اتر کرجو دیکھا تو سامنے ایک لحیم شحیم آدمی کھڑا ’’بانہیں ‘‘نام کی چیز پھیلائے ہمارا استقبال کر رہا تھا ۔ مجھے بلوچی تھیر یم یاد آیا ۔ مجھے اساطیری ، رستم و سہراب (بلوچ )یاد آئے ۔ اتنا ہٹا کٹا اور طویل قد کا آدمی کہ ایک ہی ’’گلے ملائی‘‘ میں اپنے مخالف کے دل میں اُسی کی پسلیوں کے ذریعے ’’35پنکچر ‘‘کرڈالے۔ مجھے معلوم نہیں لونا چارسکی کس ڈیل ڈول کا شخص رہا ہوگامگر ہمدانی کی ساخت کلچر والی ، آرٹس والی اور آرٹس کونسل والی بالکل نہیں لگی۔
مگر میں بولا کچھ نہیں ۔ چاہا کہ ذرا بلوچی والے ضرب المثل کو آزما تو لوں جس کے تحت کہتے ہیں کہ ’’مرد ‘‘ کاحُسن اُس کے باہر نہیں اندر کی طرف ہوتا ہے ۔چاہا کہ اللہ بشک بزدار کی اس بات کوبھی آزمالوں جب وہ ہمارے ایک دوست کے بارے میں کہتا تھا کہ اس ’’کو جھے ‘‘آدمی کے سینے میں چاندی دل ہے۔
ریاض ہمدانی 2007سے ساہیوال آرٹس کونسل کا ڈائریکٹر ہے ۔اور ساہیوال محض شہر نہیں ڈویژنل ہیڈ کوارٹرہے ۔ چنانچہ وہ ایک ڈویژن کا ڈائریکٹر ہے ۔ اردو میں پی ایچ ڈی کردہ شخص ۔ اس نے چونکہ اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے پی ایچ ڈی کر رکھی ہے،اس لیے میرا اندازہ ہے کہ عربی زبان کے علاوہ بھی اس نے اُن سے بہت کچھ سیکھا ہوگا۔ اس کے تھیسز کا عنوان تھا: اردو ناول پر نو آباد یاتی تمدن کے اثرات ۔
اس شخص کو ہم نے اگلے دو دن تک بھگتنا تھا۔اس لیے کہ سارا شیڈول اُسی کا طے کردہ تھا۔
ہمدانی ہمیں گھر کے اندر لے گیا۔یہ بنگلہ مسعود صاحب اور اس کی بیگم شاد کا تھا۔ ہم تو ذہنی طور پر ہوٹل وغیرہ میں ٹہرنے کے لیے تیار ہو کر آئے تھے مگر ہمدانی صاحب نے ہمارے لیے گھر کی رہائش مناسب جانی۔ اور اپنے تعلقات استعمال کرتے ہوئے ہمیں دو راتیں ایک بنے بنائے ، بسے بسائے ،اور ہنستے ہنساتے گھر میں ٹھہرانے کا بندوبست کیا۔ انتظامی صلاحتیں ہیں ناں!
دیگر مقالہ نگاروں کو ایک ہوٹل میں رکھا گیا جس کا سارا خرچہ بھی اُس نے ایٹمی قوت والے ہمارے غریب اورمقروض ملک پہ نہیں ڈالا ۔ بلکہ ایک اور غریب شہری ،سلطان کے ذمے کردیا ۔ حب الوطنی کا تمغہ بھگوڑے پرویز مشرف کے بجائے ریاض ہمدانی کے سینے پہ سجاناچاہیے ۔ (یا سلطان کے گلے میں جوکہ مسعود کا چھوٹا بھائی ہے)
اس شہر کے لوگ توبالکل بھی پاگل نہیں ہیں اس لیے کہ ون یونٹ مسلط کنندہ صوبے کا اٹوٹ حصہ ہیں۔ مگر یہ دوبھائی پکے پاگل ہیں، اور ’’مرن ‘‘ کا شوق بھی انہی برادران کا تھا۔
مسعود نہایت سادہ، معصوم ، اور پررونق طبیعت کا مالک ہے۔ پارٹیشن کے بعد یہ سارا خاندان (6بھائی اور ایک بہن) ساہیوال میں اپنے والد کی ملازمت بطور ماسٹر ہائی سکول تعینات ہونے پر وہیں مقیم ہوگئے ۔ والد نے ریٹائرمنٹ کے بعد بزنس میں قدم رکھا۔ یوں یہ خاندان توساہیوال میں کاروبارسے منسلک ہوگیا۔
یہ دونوں بھائی بہت بزرگ سن ہیں۔ دولتمند ہیں، اس لیے مہمانداری میں سکون پاتے ہیں۔مگر ضروری نہیں کہ ہر دولتمند مہمان نواز بھی ہو۔99فیصد تو اُس کا الٹ ہوتے ہیں، اصطلاح استعمال نہیں کروں گا کہ مڈل کلاس والی تہذیب اجازت نہیں دیتی !۔
مسعود صاحب کاگھر کیا ہے، ایک عجائب خانہ ہے ۔ مگربہ یک وقت یہ گھر ایک ویرانہ بھی ہے ۔ عجائب گھر اس لیے کہ یہ بے شمارکمروں پر مشتمل ہے ۔ ڈائننگ کے علاوہ اس معمر جوڑے کی بے شمار تصویروں سے آراستہ ہال ہے جو ٹی وی لاؤنج بھی ہے اور ڈرائنگ روم بھی ۔ قدِ آدم (کوئٹہ میں مشہور بلند قامت شاعر جسے قد کی طوالت کے سبب آدم خان کہتے تھے) سے لے کر چھوٹی تصویر تک دیوار پہ چمک دمک پیدا کررہی ہیں۔ پھر اُس نے گھر سے ملحق ایک فائیو سٹار سہولتوں والا تقریباً دس کمروں کا مہمان خانہ الگ سے بنایا ہوا ہے ۔
ویرانہ اس لیے کہ اس بوڑھے جوڑے کی ساری اولاد اور پوتے نواسے سب ملک سے باہر آباد ہوچکے ہیں۔ ایک درد ناک تنہائی جو بدبخت کپٹلزم کا حصہ ہے۔ تنہائی تو گھر کو آسیب گاہ بناتی ہے ۔کیسا گھر ہوگا جس میں نونہالوں کے ہاتھوں نہ کوئی گلاس ٹوٹتا ہے ، نہ کسی کا بستہ گم ہوتا ہے ۔ نہ بچوں کی کلکاریاں ہیں نہ ڈھینگا مشتی ہے۔ لوہسون اس حد تک تو ٹھیک کہتا ہے کہ بہت ہی توسیع شدہ جوائنٹ فیملی عذاب ہے ۔مگر میں کہتا ہوں کہ نوے سالہ بوڑھے بچوں کو اپنی اولاد اور اولاد کے بچوں سے جدا رکھنے والے سماج کو بھی تو خدا مارے ۔ کپٹلزم کو خدامارے ۔
دونوں بھائی پٹرول پمپ مالکان ہیں ۔ آمدنی خوب ہے ۔ مسعود ساری زندگی شکار کھیلتا رہا اور قریبی اوکاڑہ چھاؤنی کے جرنیلوں سے یاریاں نبھاتا رہا۔ (ہم مزید تفصیل میں نہیں جاتے کہ حب الوطنی اور اخلاقیات دونوں کو خطرہ لاحق ہوگا)۔اس نے شکاریوں ہی کی سی بھر پور زندگی گزاری۔قصوں سے بھرا سینہ ہے ۔ شکار کی نوعیت ، تعداد اور حصول کے قصے سننے سے تعلق رکھتے ہیں۔اس کی زندگی میں تین ہی بڑی یادیں ہیں جو وہ ’’کھلے عام ‘‘ سنا سکتا ہے ۔ شکار، یاریاں، اور مہمان نوازی۔ہاں ایک اور نجیب بات ۔ اس بوڑھے کو اپنے ماں باپ بہت یاد آتے ہیں۔ ہر چوتھے پانچویں فقرے پہ اُن کی کوئی بات ضرور دہراتا ہے ۔ انسان کی بڑی بد قسمتیوں میں ایک یہ ہے کہ اُسے زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے پر یتیم ہونا پڑتا ہے ۔ (سائنس کچھ کریار!)
یہ دونوں بھائی ایک دوسرے سے الگ الگ گھروں میں اکیلے اکیلے رہتے ہیں۔ بس،مہمانوں کی آؤ بھگت کے لیے دونوں اکھٹے ہوجاتے ہیں۔
سلطان خوب مجلسی آدمی ہے ۔ میٹھی گفتگو سننی ہو تو مسعود کے بھائی سلطان کی سن لیجیے ۔ بزرگ سنی کی گفتگو کا ’’چَس‘‘ہی انوکھا ہوتا ہے ۔ ظاہر ہے پنجاب کے بزرگ کی گفتگو تو ’’نوائے وقت ‘‘ ، غزنوی،ہندو مسلم ، اورنسیم حجازی والی ہی ہوگی۔ مگراس شخص کی ادائیگی بہت خوبصورت ہے۔ ہر بات کو ایسی جگہ اور ایسے انداز میں بریکیں لگائے گا کہ آپ ’’ہاں؟‘‘ ،’’ اچھا ؟‘‘ ،اور’’ کمال ہے ‘‘ کہے بغیر نہیں رہ سکتے۔ وہ اس بوڑھی عمر میں سامعین کو ترستا ہوا، ہم اپنی بزرگ سنی میں بزرگوں کو تر سے ہوئے ۔ہاں یہ تذکرہ بھی ضروری ہے کہ پنجاب کے جوان بھی کوئی حقیقی چیز نہیں پڑھتے ۔ وہ بھی موبائل فون پہ ملّاطارق جمیل کی تقریریں ،اور دنیا اخبار کے کالم پڑھ کر ایم این اے ایم پی اے بنتے ہیں ۔
ہماری یہ محفل یک طرفہ طور پر سلطان صاحب کی گفتگو سے ہی جمی رہی ۔ کشمیر کا غم ، فلسطین کا دکھ، اور دوردراز چیچنیا پہ تشویش ۔ ایسے ماحول میں بھلا بلوچستان چھیڑنے کا مقام بنتا ہے ؟ ۔ ہم اپنی مٹی کی توہین کیوں کرتے ؟۔
شاد مسعود ایک معمر ’’نوجوان ‘‘خاتون ہے۔ گریس فل ، پروقار ، اور مسکراتی ہوئی۔ چونکہ سارا گھرانہ روٹری کلب اور اِنروھیل سے وابستہ ہے اس لیے ہمارے یہ تینوں دوست اسی کی فلاسفی لیے ہوئے ہیں۔ تینبھائی اور تین بہنوں کی سب سے چھوٹی اولاد ہونے کے ناطے ہماری اس میزبان خاتون کوخاصی محبتیں ملیں۔ والد کو بچوں کو پڑھانے کا جنون کی حد تک شو ق تھا۔ سو سب بہن بھائی بہت اعلیٰ رتبوں پر رہے۔ شادی کے بعد بھی اُس نے اپنی تعلیم کو جاری رکھا ۔نہ صرف لاہور یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوئی ۔ بلکہ جب اس کے بچے برائے تعلیم امریکہ چلے گئے تو وہاں بھی دوران رہائش بچوں کی یونیورسٹی میں کچھ کورسز کیے ۔شاد اِس عمر میں بھی تکڑے جوانوں کی طرح مہمانوں کے کھانے اور آرام کے انتظامات میں اِدھر اُدھر ہانپ کانپ رہی ہوتی ہے۔ ادب کی قدر کرنے والی خاتون ۔
ایک اضافی کمال یہ ہے کہ وہ اچھا خاصا گالیتی ہے۔ چونکہ منی بیگم ہمارے ساتھ والے کمرے میں ٹھہری ہوئی تھی اس لیے ہم اس کا ایک سازندہ پکڑ لائے اور شاد ؔ کی استادانہ گائیگی کو انجوائے کرتے رہے۔(دل نے کہا یہ ہمدانی اچھا آدمی ہے )۔
اس گھر میں ہم سے پہلے تین اور مہمان آچکے تھے ۔ ایک میاں بیوی اسلام آباد سے، اور ایک خاتون بہاولپور سے۔ اسلام آباد والا تو پروفیسر روش ندیم تھا۔ جسے میں اچھی طرح جانتا تھا، اُس کی بیگم کو پہلی دفعہ مل رہا تھا۔ رابعہ رشید بہاولپور سے تھی۔
روش ندیم صرف اس لیے فنکار نہیں کہ اس کا دکھانے کا نام ’’اور ‘‘ہے اور کھانے کا ’’اور‘‘ ،بلکہ وہ تو کوٹ کے معاملے میں بھی استاد ہے ۔ وہ اپنا کوٹ پر اسرار طور پر ہر جگہ بھول آتا ہے ۔ سانولا سا شخص ہے ۔ گوکہ بالوں نے پیشانی سے پسپائی شروع کردی ہے ۔ مگر ایک بھی بال رنگت کی سیاہ کاری سے باز نہیں آیا۔ پنڈ کا بھانڈ خواہ کچھ کہے ، چودھری محمد اسلم کا بیٹا تو چودھری ہی ہوگا۔۔۔ چودھری محمد ندیم اسلم۔ وہ پیروں مرشدوں کی بددعا والے شہر راولپنڈی کا ہے ۔ (اس شہر کواسلم فرخی اور افتخار عارف کے گولڑہ کا دربار بھی 20کروڑ لوگوں کی بد دعاؤں سے نہ بچا سکے گا)۔
روِش ’’ ابھی‘‘ 1967(پندرہ جون) کو پیدا ہوا۔ حسبِ ضرورت سنجیدہ رہنے والا یہ شخص اردو میں پی ۔ ایچ ۔ ڈی ہے ۔ اسی لیے ظاہر ہے کہ ڈاکٹر بھی ہے اور کہیں ڈیپارٹمنٹ چیرمین بھی ہے ۔’’ٹشو پیپر پر نظمیں ‘‘ لکھتا ہے۔ شانت موسم میں اس کی تخلیق منجمد رہتی ہے، اس لیے ’’دشت کے موسم میں نظمیں‘‘ لکھتا ہے۔جہاں ’’ابر کی آہٹ‘‘ وصال کو آئی محبوبہ کے قدموں کی آواز سے بھی زیادہ حیات بخش مظہر ہوتی ہے۔ کبھی ضرور پوچھوں گا کہ اُس نے ’’اپنے ‘‘ہوتے ہوئے اپنی ایک کتاب کا نام ’’منٹو کی عورتیں ‘‘ کیوں رکھا تھا۔ اس کی دیگر کتابیں ہیں: پاکستان، برطانوی غلامی سے امریکی غلامی تک۔ تیسری دنیا کا فلسفہِ انکار ۔ جدید ادبی تحریکوں کا زوال۔ فیض احمد فیض۔۔۔
چھوڑیے جی ،فہرست ہی اتنی طویل ہے کہ پوری حمود الرحمن کمیشن رپورٹ بن جائے گی۔ آپ کا سر کیوں کھپواؤں ؟۔
یہاں میری اس تحریر میں منیلاؔ کاتذکرہ ضروری ہے ۔مگر یہ منیلاؔ ،فلپائن کا دھواں زدہ، اور اُس کا ’’سٹی آف ڈیولز‘‘ نہیں ہے بلکہ یہ ایک حسین وباوقار خاتون کا نام ہے ۔ بھئی جب بلوچ اور انگریز اپنے بچوں بچیوں کے نام درختوں جانداروں والے رکھ سکتے ہیں تومنیلا کے والدین اپنی بیٹی کا نام منیلاکیوں نہیں رکھ سکتے؟ ۔
وہ ایم اے اردو ہے۔ پڑھاتی ہے، سماجی کام کرتی ہے ۔ پروفیسر ندیم تو خدا کی طرف سے احسنِ تقویم ہے ۔ یعنی سب جانداروں سے ساخت اور بناوٹ کے لحاظ سے بہتر اور حسین۔ مگر اِس میں ہمیں منیلا اور اُس کی کسلٹنسی نظر آئی نہ ہی سکن ٹریٹمنٹ کا کوئی کمال جیسا کہ منیلا کے بایوڈیٹا میں لکھا تھا :’’ سکن ٹریٹمنٹ اینڈ ہیئر کیئر کنسلٹنٹ ‘‘۔
وہاں تیسری مہمان ننھی سی بہاولپوری سکالر رابعہ رشید تھی جو بزرگوں میں ایڈجسٹ ہونے کی تگ و دومیں لگی رہتی ہے۔ اور بزرگ جب ایک بار علمیت کی بوندا باندی پر اتر آئیں تو احساس ہی نہیں ہوتا کہ نشیبی علاقوں کے جھگی جھونپڑے کب کے بحرہِ بلوچ میں غرق ہوچکے ہیں۔چنچل سی شوخ سی لڑکی جس کی آنکھوں کے حسن کی گہرائیوں میں تمناؤں آدرشوں کے بھانبڑ جلتے ہیں۔سوچتا ہوں اقبال تو چلو شاہین ساز تھا، مگر گل خان نصیر تو دنیاوی آدمی تھا ۔پھر اُس نے نوجوانوں کے لیے ساری دعائیں مانگتے مانگتے انہیں روز گار عطا کرنے کی دعا کیوں نہیں کی ۔ لگتا ہے کہ شیخ ایاز، فیض ، جالب اور اس قبیلے کے ہمارے دانشوروں کو اندازہ ہی نہ تھا کہ ایک زمانہ آئے گا جب شادی، بچے ،خوشیاں اور دنیاوی لین دین ،روزگار سے بندھے ہوں گے۔ پنجاب میں تو یہ بے روزگاری ایک بحرانی صورت لیے ہوئے ہے۔
یہ تو بتانا بھول گیا کہ وہاڑی کارہنے والا ، اور سیاحت کا شوقین شاعر ،رانا عرفان ڈھونڈتا ، کوستا بالآخر وہاں، پہنچ ہی گیا۔ اُس کی ہمت دیکھیے کہ وہ محض آدھ گھنٹہ کی ملاقات کے لیے بہت دور یعنی خانیوال سے آیا تھا اور پھر واپس ہوا کہ صبح اس کے دفتر میں ایک اہم میٹنگ تھی۔ پنجاب کے سارے جرنلسٹوں ، جرنیلوں اور ججوں پہ اس ایک پنجابی شاعر عرفان کی وفا کو نہ دوں !!۔ وہ چھلا وہ کی صورت آیا، ہمیں بات کا موقع دیے بغیر اپنی ہی سناتا رہا اور اجازت لے کے یہ جاوہ جا۔
اس دوران پتہ چلا کہ ہمیں ساہیوال پہنچانے والی گاڑی کے مالک اور اس کے دوست کی رہائش کا انتظام شہر کے کسی اور حصے میں کیا گیا تھا ۔اور وہ وہاں چلے گئے تھے۔ میرا کوٹ اُسی گاڑی میں رکھا تھا۔ کوٹ میں میرا مقالہ تھا، مقالہ کلیدی تھا۔ لہذا بلوچی اساطیری کہانی کی طرح پوری کانفرنس کی جان میرے کوٹ کی جیب میں تھی۔چلیں میرے یار کا ایک شعر سنیں: شہزادی قید میں ہے کسی دیو کی طریرؔ طوطا گلہ دبانے سے مر بھی نہیں رہا۔سمجھو کانفرنس کی شروعات وہی خطرے میں پڑگئی ۔ میں نے احباب سے کوٹ کا تذکرہ کیا تو سب اس بات پہ پریشان پوچھنے لگے کہ میرا بٹوا اس میں تھا؟۔میں کیا کہتا ؟ ہاں بولا۔ اوروہ شریف لوگ یقین دہانی کراتے رہے کہ کار کا مالک بہت ایماندار ہے۔ میں نے کیا کرنا تھا، ظاہر داری سے خود کو بے پرواہ ظاہر کرنے کے علاوہ چارہ کیا تھا۔ مگر رات بھر فکر سی رہی۔
رات ڈیڑھ دو بجے سوئے تو ساری رات کوٹ میرا پیچھا کرتا رہا۔ لیکن صبح کو وہاں اودھم یہ مچا ہوا تھا کہ روش ندیم کا کوٹ تیسرے ملک کے ایک کمرے میں پایا گیا۔رضا ایئر پورٹ کے کوٹ کی مسخ شدہ لاش بھی اُنہی جغرافیائی و نظریاتی سرحدوں کی خلاف ورزی کی زد میں پڑی تھی اور خود میرا کوٹ رئیل سٹیٹ بزنس کرنے والوں کی کار موٹر میں جس کے دروازوں کے ہینڈل چھت پر نصب تھے۔
ناشتے پہ میرا کوٹ آگیا۔ سب نے بہ یک زبان ہو کر مجھ سے بٹوا چیک کرنے کی فرمائش کردی۔ مگر میں نے جب بٹوا کے بجائے خوشی خوشی صحیح سالم مقالہ نکالا تو کہیں مایوسی پھیلی اور کہیں حیرت کہ ’’سب سے قیمتی چیز تو یہ تھی اور آپ آرام کی نیند سوئے! ‘‘ ۔ لوگ لاپرواہی کو بلوچ بہادری میں شمار کرتے ہیں !۔
اب تو مجھے کوئی غرض ہی نہ رہی تھی کہ کس کا کوٹ کس کے کمرے سے بر آمد ہورہا ہے ۔اور کس کی عینک کس سجدہ گاہ پہ رہ گئی تھی ۔اپنا مقالہ سلامت تھا۔میں مقالہ یابی کے نشے میں مسرور ہلکی سیٹیاں بجاتا رہا۔
ہم ناشتہ کر کے ، اپنے اپنے ’’کوٹ ‘‘پہنے ، زبانی طور پرمحترمہ شاد اور مسعود کا شکریہ کرتے ہوئے کانفرنس ہال کی طرف روانہ ہوئے ۔مگر ہم دل میں ریاض ہمدانی کی توصیف کر رہے تھے ۔اچھا کھانا اور اچھے میزبان اور اچھی رہائش تو ایک نعمت ہوتی ہیں ۔ اچھی انتظام کاری بھی تو بڑی صلاحیت ہوتی ہے ۔