(یہ مضمون 22دسمبر کو حیدرآباد میں ’ایاز میلے ‘ میں پڑھا گیا )
فہمیدہ ریاض کے بارے میں ماضی کے صیغے میں بات کرنا میرے لیے اب بھی مشکل ہے ۔ وہ میری لڑکپن کی ساتھی تھی ۔ میری Soulmateتھی۔ ہم نے زبیدہ کالج سے لے کر عمر کے اس حصے تک دنیا بدلنے کے خواب دیکھے تھے۔ کبھی ان خوابوں سے تعبیر کی جھلک دکھائی دی تو فرطِ مسرت سے ایک دوسرے کو گلے لگایا تھا۔ بہار کی رنگ برنگی کونپلیں پھوٹتی دیکھیں تو خود بھی ان رنگوں میں نہا گئے ۔ کہیں خواب چکنا چور ہوئے تو ساتھ مل کر آنسو بہائے ۔ مگر یا سیت کا شکار نہیں ہوئے ۔ پھر سنبھلے اور نئے مستقبل کے سنہرے سپنے دیکھنے لگے ۔ ہمارا دکھ سُکھ سا جھا تھا۔ کیسے مان لوں کہ وہ اچانک چھوڑ کر چلی گئی۔ اسی دوپہر تو فہمیدہ نے مجھ سے بات کی تھی اور ایک ہفتہ میں کراچی واپس آنے کا کہا تھا ۔ وہ تو نہ آئی مگر ہم اس کے جسد خاکی کو لاہور کی مٹی میں دفنا کر ویران آنکھوں اور دکھے دل کے ساتھ خالی ہاتھ چلے آئے کیونکہ فہمیدہ کی بیٹی ویر تا کی خواہش تھی کہ اُسے لاہور میں ہی دفنا یا جائے ۔
دو سال بیماری کے باعث وہ گھر رہی تھی مگر وہ دکھی نہ ہوئی۔ دُنیا کی پرواہ اس نے کب کی تھی جواب کرتی۔ وہ لوگوں کو معاف کردیا کرتی تھی کہ یہ بچارے تو اتنا ہی کرسکتے ہیں۔ وہ تو سارے انسانیت کے بارے میں سوچتی۔ حالات سے مضطرب ہوجاتی تھی اس کے دل میں اب بھی انقلاب کی خواہش موجود تھی۔ و ہ امن و خوشحالی ساری دنیا کے لیے مانگتی تھی مگر سندھ کی دھرتی اُس کو سب سے زیادہ پیاری تھی اور ہم میں ایک یہ قدر مشترک تھی۔
سندھودیش بی سوہنی دھرتی پنجھو سیس نوایاں ۔ مٹی ماتھے لایاں۔
ایاز کایہ انقلابی نغمہ میرے دل کے تار چھو گیا اورمیں سندھ کے ذرے ذرے سے پیار کرنے لگی۔
آزادی کے ابتدائی عشرے میں سندھی شاعری میں جدید شعری رجحانات سامنے آنے لگے تھے ۔بقول مظہر جمیل’’ اس عہد کی سب سے نمایاں بات خود شیخ ایاز کے جدید لب ولہجے کی آراستگی رہی ہے ۔’’ ان کے اردو کلام پر مشتمل پہلا مجموعہ کلام جولائی 1954میں ’’بوئے گُل نالہِ دل‘‘ کے نام سے جناب آفاق صدیقی نے مرتب کیا تھا۔ اس مختصر مجموعہِ کلام میں شیخ ایاز کی اردو غزلیں بھی شامل تھیں، گیت اور نظمیں بھی۔ لیکن اس وقت اس مجموعہ کا آہنگ اردو شاعری سے مختلف نہ تھا۔ ہاں ایک ایسا احساسِ جمال اُن کی شاعری میں نمایاں تھا جو انسان کو کسی حال میں مایوس ہونے دیتا ہے نہ ہراساں۔ شیخ ایاز کی اُس دور کی شاعری حیرت زدہ سوالات کی شاعری ہے ‘‘۔
فہمیدہ ریاض نے جس محنت ، پیار اپنی تخلیقی صلاحیتوں، اور شاعرانہ ہنر مندی سے شیخ ایاز کے منتخب کلام کا ترجمہ کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ اور لوگوں نے بھی ترجمے بہت اچھے کیے ہیں لیکن حمایت علی شاعر کہتے ہیں کہ فہمیدہ ریاض نے اپنے ترجمے کے لیے عظمت اللہ خان، آرزو لکھنو ی اور میراجی کی زبان منتخب کر کے سندھی زبان کی لطافت کو بڑی حد تک ضائع ہونے سے بچالیا ہے ۔ اس زبان اور سندھی میں نہ صرف لفظی یگانگت ہے بلکہ لسانی فضا بھی کم وبیش یکساں نظر آتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر مقامات پر اصل شاعری کی مہک بھی ان ترجموں میں محسوس ہوتی ہے ۔
فہمیدہ خود کہتی ہے کہ ایاز کی شاعری سندھ کی مخصوص دھرتی ، اس کے منفردبیل بوٹوں، پھل پات ، پنچھیوں اور ندی نالوں سے سنگھاری ہوئی ہے ۔ یہ شاعری سندھ کی دھرتی سے پھوٹی ہے اور اس کی منفرد خصوصیت کو برقرار رکھنے کے لیے ترجمے میں اُن کے نام جوں کا توں رہنے دیئے گئے ہیں ۔ مثلاً کنچھی جو سندھ کا ایک سیاہ پرندہ ہے ۔ دھوپا،یا بھٹائی جو ندیوں کے نام ہیں ، سنگری جو سندھ کی خاص پھلی ہے سندھی زبان کے ایسے الفاظ ہیں جو آسانی سے اردو میں جذب ہوسکتے ہیں اور ان سے ہماری زبان کا دائرہ اظہار مزید وسعت پائے گا۔ زیرِ نظر ترجمے میں برملا کام میں لائے گیے ہیں’’ لیکن اتنی محنت کرنے کے باوجود فہمیدہ خود کہتی ہے کہ میں اس ترجمے سے مطمئن نہیں ہوں کہ آیا یہ مکمل ہے یا کوئی کسر رہ گئی ہے ۔ کیونکہ کسی بھی تخلیق کا خواہ وہ نثر ہو یا خصوصاً شاعری اپنی اصل زبان سے کسی اور زبان میں منتقل کرنا بے حد مشکل کام ہے ۔
میں جب یہ ترجمہ پڑھتی ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ میری دوست نے کوئی بھی کسر نہ چھوڑی اور ایاز کی شاعری میں وہی بے ساختگی اور غنائیت باقی رکھی ہے ۔
حلقہ میری زنجیر کا ۔ میں ایاز کے جس کلام کا انتخاب کیا گیا ہے وہ1962سے 1973تک کی شاعری ہے ۔ ایاز کے پانچ مجموعے شائع ہوئے تھے اور بعد میں ’’اب سورج ڈھل رہا ہے گھاٹیوں میں ’’اور ‘‘ بھگت سنگھ کی پھانسی ’’شائع ہوئے ۔ ان ہزاروں شعروں میں ابیات ، دوھے، نظمیں، گیت، اور غزل شامل ہیں ۔ اس کتاب میں کوشش کی گئی ہے کہ مختلف اصناف کی زیادہ سے زیادہ نمائندگی کی جاسکے۔ مجھے اِن کا یہ ترجمہ بہت خوبصورت لگتا ہے ۔
اب تو سورج ڈھل رہا ہے۔
پربتوں میں
شل ہوئے ہیں پیر تھک کر
پھر بھی کوئی چل رہا ہے
پربتوں میں
ریت کی ٹیلے کے اوپر
وہ دیا جو جل رہا ہے
پربتوں میں
اک نئے سورج کا سپنا
اُس کے اندر پل رہا ہے
پربتوں میں
آنے والا دن ابھی سے
اپنی آنکھیں مل رہا ہے
پربتوں میں
اس آنے والے دن کے انتظار میں کئی کارواں گذر گئے اور کئی نئے قافلے اور آئیں گے۔ یہ سلسلہ ازل سے جاری ہے ۔ اور ابد تک جاری رہے گا۔ دنیا کو بہتر سے بہتر بنانے کا خواب جن دلوں میں بستا ہے وہ اس گذرگاہ پر جوق درجوق آئیں گے ۔ تاریخ ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ اپنے نشیب و فراز کے ساتھ یہ سفر جاری رہے گا۔
فہمیدہ نے یہ امید ظاہر کی تھی کہ اس ترجمے کو پڑھ کر نہ صرف لوگ یہ اندازہ لگا سکیں گے کہ ایاز کی اصل شاعری کس بلا کی ہوگی بلکہ سندھی زبان سیکھ کر خود اس بھرے سمندر کی شناوری کریں جو ایاز نے دس پندرہ برس کے مختصر عرصے میں تخلیق کی ہے ۔
مگر اردو بولنے والوں کے ساتھ یہ مسئلہ رہا ہے کہ چونکہ پاکستان میں مختلف قوموں میں رابطے کی زبان اردو رہی ہے ۔ وہ اپنی دیگر قومی زبانوں پر توجہ نہ دے سکے اور اُن قومی زبانوں کے ادب سے بہرہ ورنہ ہوسکے ۔ حالانکہ زبانیں ایک دوسرے کو قریب لانے کا موثر ذریعہ ہوتی ہیں ۔ ہماری عمر کے لوگوں نے اپنے بچپن میں چوتھی جماعت تک سندھی پڑھی ہے ۔ وہ تو کچھ شُد بُد رکھتے ہیں۔ کچھ لوگ بہت آگے گئے جیسے فہمیدہ ، مظہر جمیل اور کچھ اور ادیب مگر اکثریت اِس قومی زبان کی لذت خصوصاً جو گیت ہیں اُن سے محروم رہی۔
بلاشبہ سندھ انسٹیٹوٹ نے اِس ترجمے کا اہتمام کر کے شیخ ایاز کو اردو بولنے والوں سے متعارف کروایا ہے ۔ اور میں نے بھی اسی کوشش سے فیض حاصل کیا ہے۔ مگر تشنگی باقی ہے ۔ میں سندھی سمجھتی ہوں ، وقتِ ضرورت بول لیتی ہوں اور تھوڑی بہت پڑھ سکتی ہوں مگر شاعری سمجھنے کی سکت نہیں ہے ۔ اگر میں اپنی گریجویشن کے بعد حیدرآباد میں ہی رہتی تو شاید فرفر سندھی بول لیتی اور شاعری سمجھنے کی صلاحیت بھی پیدا ہوجاتی ہے ۔ مگر کراچی نے اس کی مُہلت نہ دی۔
میں آخر میں منسٹری آف کلچر سے یہ اپیل کرنا چاہتی ہوں کہ فہمیدہ سندھ کی بیٹی اور سندھ کا اثاثہ ہیں ۔ وہ ان کتابوں کے لیے ایک ایسی لائبریری بنائیں جہاں ایک طرف فہمیدہ کی کتابیں ہوں تو دوسری طرف سندھ کے انقلابی شعرا کی ۔ وہاں نہ صرف ترجمے ہوں بلکہ سندھی زبان بھی سکھائی جائے تاکہ سندھ میں رہنے والے ایک دوسرے کے جذبات و احساسات کو سمجھیں اور قریب آئیں۔ فہمیدہ کے لیے پروگرام منعقد کیے جائیں اور انہیں نوجوان نسل سے متعارف کروایا جائے ۔ تاکہ وہ ان کے خیالات کو اپنا کراس منزل کی طرف رواں دواں ہو جس کا خواب فہمیدہ ریاض نے دیکھا تھا۔ یہ فہمیدہ کا آپ پر قرض ہے اور بہترین طریقہ ہے خراجِ عقیدت پیش کرنے کا ۔