آئیے ،بلوچستان کے معاصر ادب کے اجمالی تذکرے کا آغاز اس دلچسپ نکتے سے کرتے ہیں کہ بلوچ دانش وروں کا ایک حلقہ بلوچوں کو بشمولِ اُردو سات قومی و مادری زبانوں کا حامل وطن قرار دیتا ہے۔ بیسویں صدی کے آغاز سے شروع ہونے والی ہماری اولین سماجی و سیاسی سرگرمیوں کا میڈیم اردو ہی رہی ہے۔ بلوچستان کے اولین سیاسی رہنما یوسف عزیز مگسی کے مکاتیب ہوں کہ تقاریر،شاعری ہو کہ پمفلٹ بازی یا پھر بندش کا شکار ہونے والے ایک درجن سے زائد اخبارات و جرائد، سبھی کی زبان اردو رہی ۔ بلوچستان کے پہلے سیاسی گروہ انجمن اتحادِ بلوچاں سے ، پہلی باضابطہ سیاسی جماعت قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی کے دساتیر اردو میں ہی تحریر ہوتے رہے۔ اُنیس سو بیس کی دَہائی میں تخلیق ہونے والا بلوچستان کا پہلا اردو افسانہ اسی یوسف عزیز مگسی کے زورِ قلم کا نتیجہ تھا۔بلوچستان میں چوں کہ ادب کی تخلیق کا سہرا آغاز سے ہی اُن احباب کے سر رہا جو بیک وقت سیاسی و سماجی سطح پہ بھی سرگرم تھے، اس لیے ان کے قلم سے تخلیق ہونے والا ادب اپنے عہد کی سیاسی و سماجی تاریخ کا سادہ سا بیانیہ ہے۔موجودہ بلوچستان کی ادبی تخلیقات اسی کا فکری تسلسل ہیں۔
بلوچی نے اپنے ’’تحریری ‘‘سفر کا آغاز انیسویں صدی میں کیا۔ اورفکری طور پر اردو کے قدما کی طرح حجاز و عرب سے متاثر ہونے کی بجائے عالمی طبقاتی تحریک سے جڑت پیدا کی، اور خود کو بنیاد پرستی کی گود میں ڈالنے کی بجائے ترقی پسندی و روشن فکری کا ہاتھ تھاما۔ یوں یہ روشن فکری، عوام دوستی، ترقی پسندی‘ بلوچی ادب کی جڑوں میں سرایت کر گئی۔ جو آج بھی ایک روایت کے تسلسل کی صورت موجود ہے۔
سن پچاس کی دہائی میں عالمی دنیا میں ترقی پسندی و رجعت پسندی کا مناقشہ جاری تھا۔ ایسے میں ہمارے اکابرین نے اپنے معروض کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے شعوری طور پر ترقی پسندی اور عوام دوستی کا پرچم تھام لیا۔یوں ہمارا ادبی مورچہ روشن سویرے کی نوید دینے والوں کا اکٹھ بن گیا۔سن 90ء کی دہائی تک یہ مورچہ نہایت مضبوطی اور نظریاتی کمٹ منٹ کے ساتھ ادبی جہاد و اجتہاد کا مرکز رہا۔ دنیا بھر کے محکوموں کے سوویت یونین نامی قبلے کے انہدام کے ساتھ ہی جہاں بین الاقوامی سطح پر عوام دوستوں اور انسان دوستوں کی پسپائی ہوئی، وہیں یہ مورچہ بھی قدرے کمزور ہوا۔ کچھ لکھنے والوں کے قلم کی روشنائی ’سرخ‘ سے ’سبز‘ ہوئی تو کئی قلموں کے سجدے آوارہ ہو گئے۔ یہ قلمی و علمی بے راہ روی اگلی ایک دہائی تک ہمارے ادبی محاذ کا مقدر بنی رہی۔
ڈاکٹر شاہ محمد مری نے ایک جگہ لکھا کہ،’ بلوچستان کی مٹی ہی ایسی ہے کہ اس میں نسیم حجازی نہیں اگتا‘۔ حجاز کی ملازم سرکار نے مگر اس سرزمین پہ نسیم حجازی پولٹری فارم کھول دیا، نیز کئی گملے لا کر ان میں نسیم حجازی کا بیج بو دیا۔زمین میں جڑیں نہ رکھنے والے گملے میں اُگے اِن حجازیوں کا چہرہ بلوچستان کے ادب میں آج بھی مخمل میں ٹاٹ کے پیوند کی طرح دور سے نظر آتا ہے۔
پھر اکیسویں صدی کے آغاز میں ہی پاکستان کے ایک اور فوجی طالع آزما کی سیاسی کج رویوں نے ہمیں ایک اور امتحان میں ڈال دیا۔تراتانی کے مقام پر ایک اَسی سالہ بوڑھے پر جو پہاڑ گرایا گیا، وہ سیاسیات و سماجیات سمیت ہماری ادبی تاریخ کو بھی ایک نیاموڑ دے گیا۔ اس طالع آزما ئی نے ہماری طویل قلمی طبقاتی جدوجہد کو نیشنل ازم کے سامنے سرنڈر کروا دیا۔ نصف صدی کا ہمارا سفر ایک دوراہے پر آ کھڑا ہوا۔ ہمارا معاصر ادب اسی واقعے کے بطن سے پھوٹا۔
نواب بگٹی کا قتل، بلوچستان کا نائن الیون تھا۔ اس واقعہ نے بلوچستان کے سیاسی و سماجی فیبرکس کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ ولن ’ہیرو ہو گئے، اور ہیرو‘ولن بنا دیے گئے۔ اس واقعہ اور اس سے جڑے متعلقات پہ بے تحاشا ادب تخلیق ہوا۔ کہانیاں، نظمیں، گیت، ڈرامہ۔۔۔گویا کوئی صنفِ ادب ایسی نہ تھی جو اس واقعہ سے متاثر نہ ہوئی ہو۔ صرف سن دوہزار دس کے بعد سے مکران سے شایع ہونے وا لے ادبی جرائد کی تعداد چند ایک سے بڑھ کر دو درجن تک پہنچ گئی۔ بالخصوص بلوچی کتابیں ہزاروں کی تعداد میں بکنے اور پڑھی جانے لگیں۔جامعہ بلوچستان میں بلوچستانی زبانوں کے شعبے جہاں اساتذہ، طلبا کے داخلوں کے لیے دیدہ و دل فرشِ راہ کیے رہتے تھے، محض شعبے میں جان ڈالنے کے لیے یار دوستوں کو داخلے دیے جاتے تھے ،وہاں طلبا کا جم غفیر جمع ہو گیا۔ یہاں تک کہ اس شعبے کو داخلے کے لیے ایک سخت امتحان کا انعقاد کرنا پڑا، اس کے باوجود تعداد اس قدر بڑھ گئی کہ داخلے لیے منتظر طلبا کی تعداد ،داخل طلبا کی فہرست سے طویل ہوتی چلی گئی۔
ان چند برسوں میں ایک درجن سے زائد نئے پبلشر زسامنے آئے۔ کہاں تو ایک ادیب کو کتاب چھاپنے کے لیے چندہ کرنا پڑتا تھا، اور کہاں اب مفت کتاب چھاپنے کے لیے پبلشرز کی فرمائشیں آنے لگیں۔ اس وقت بلوچی کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے شاعر کی ایک کتاب چندبرس قبل شایع ہوئی تو محض پندرہ دن میں اس کا پہلا ایڈیشن ختم ہو گیا۔ ایک ہزار کا دوسرا ایڈیشن بھی ایک ماہ میں تمام ہوا۔ بلوچستان اور بالخصوص بلوچی میں لکھنے والوں کوپہلی بار قارئین کا ایک وسیع حلقہ میسر آیا۔ انھیں وسیع پیمانے پر پڑھا، اور سراہا جانے لگا۔حرف کی طاقت اور حرمت پھر سے بحال ہونے لگی تو حرف دشمنوں نے بھی اپنے اوزار پھر سے تیز کرنا شروع کیے۔ بہانوں کی نوعیت تبدیل ہوتے رہنے کے باوجود حکمران طبقات کی طرف سے گزشتہ ستر برس سے وقفے وقفے سے جاری بلوچستان میں کتابوں کی دکانوں ،تعلیمی اداروں کے ہاسٹلزپہ چھاپوں اور بعض کتابوں کی بندش کا سلسلہ پھر سے بحال ہوا۔ یعنی سو برس قبل بلوچستان کے اولین سیاسی اکابر میر یوسف عزیز مگسی کی تحریروں پر پابندیوں سے شروع کردہ پابندیاں اب بھی جاری ہیں۔ یہ وہی یوسف عزیز مگسی ہیں جنھوں نے تنظیمی سطح پرباضابطہ سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا، اسی مقصد کے لیے شاعری کی، افسانے لکھے، مضامین تحریر کیے، اخبارات کا اجرا کیا، کانفرنسیں منعقد کیں، جلیں بھگتیں، جلاوطن ہوئے اور محض اٹھائیس برس کی عمر میں کوئٹہ کے قاتل زلزلے کی نذر ہوئے۔
ہمارے اولین لکھاری چونکہ سیاست کے میدانِ کارزار سے جڑے ہوئے عملی لوگ تھے، اس لیے انھوں نے جس ادب کی بنیاد رکھی وہ مکمل طور پر سیاسی رنگ میں رنگا ہوا تھا؛ عوام سے جڑا ہوا، عوام کی بات کرتا ہوا، ظلم کے خلاف اور ظالموں کے خلاف ایک للکار لیے ہوئے۔ بیچ کے پولٹری کے نسیمیوں اورگملے میں اگے حجازیوں سے قطع نظر، ہمارا جدید ادب اسی روایت کا تسلسل ہے۔خصوصاً بلوچستانی ادب کی گزشتہ دو دہائیاں فکشن کے نام معنون ہیں۔سیاسی ادب البتہ بہت لکھا گیا اورلکھا جا رہا ہے۔ خصوصاً اگست2006ء کے بعد جیسے اس میں برقی رَو دوڑ گئی۔ ڈاکٹر شاہ محمد مری کے نظریاتی لٹریچر کا نیا دور بھی انہی دو دَہائیوں میں شروع ہوا اور ان کے قلم سے تحقیقی، تاریخی موضوعات کے علاوہ نظریاتی تراجم سمیت پچاس سے زائد کتب گزشتہ اٹھارہ برس کے دوران ہی سامنے آئیں۔ بلوچ سیاست پر لکھنے والوں نے سیاسی ادب کا ڈھیر لگا دیا۔
تخلیقی ادب کا ایک اور شعبہ،ادبی تحقیق و تنقید میں سوائے چند مستثنیات کے ،کچھ بڑا کام سامنے نہیں آسکا۔ اس کی ایک وجہ ہمارے قبائلی سماجی رویے بھی ہیں،جنھوں نے تنقیدی رویوں کو پنپنے ہی نہیں دیا۔ چند صاحبان نے اپنے تبصرہ جاتی مضامین ضرور شایع کیے۔ہمارے ہم عصر ساتھی دانیال طریر نے ماضی قریب میں مسلسل تنقیدی تصانیف دے کر اس خلا کو پُر کرنے کی سعی کی ہے۔ ’بلوچستانی شعریات کی تلاش‘، ’تعینِ قدر اور معاصر تھیوری‘ اور’جدیدیت، مابعد جدیدیت اور غالب‘ اس کی گراں قدر تصانیف ہیں۔
شاعری کا تفصیلی تذکرہ میں اس لیے نہیں کر رہا کہ شاعری بلوچستان بھر میں بہت ہو رہی ہے۔ اگر اسے دعویٰ اور فتویٰ نہ سمجھا جائے تو میں عرض کروں کہ پاکستان میں اس وقت بطور مجموعی کوئٹہ جدید اردو شاعری کا سب سے بڑا مرکز ہو گا۔ثبوت کے لیے نوجوان لکھنے والوں کی شاعری ملاحظہ کیجیے۔
دوسری طرف بلوچستان میں ادب کے نظریاتی محاذ کوان دو دَہائیوں میں سنگت اکیڈمی آف سائنسز کی صورت ایک مضبوط مورچہ ملا۔ پچاس کی دہائی میں قائم کردہ لٹ خانہ سے لے کر پروگریسو رائٹرز ایسوسی ایشن کے تسلسل میں1998ء سے قائم سنگت اکیڈمی گزشتہ پندرہ برس سے تسلسل کے ساتھ علمی و ادبی نشستوں کا اہتمام کرتی چلی آ رہی ہے۔ جس میں ماہانہ ادبی نشست، خطے کے ترقی پسند نظریاتی رہنماؤں کی یاد میں سمینارزکا انعقاد شامل ہے۔ گزشتہ پانچ برسوں میں سنگت کے اشاعتی سلسلے کا نیا دور شروع ہوا۔ جس کے تحت ’سنگت تراجم سیریز ‘ کے نام سے عالمی ترقی پسند ادب کو بلوچی، براہوی ، پشتو اور اُردو میں ترجمہ کیا جا رہا ہے۔ اس سلسلے کی اب تک چالیس کتب شائع ہو چکی ہیں۔ ترقی پسند ادب اور بائیں بازو کے نظریات پر مبنی اتنی ہی دیگر کتابیں بھی شائع کی گئی ہیں۔ ادب کی نشر و اشاعت کے دیگر ادارے بلوچی ، براہوی اور پشتو اکیڈمی نیز براہوی ادبی سوسائٹی، بلوچستان اکیڈمی بھی اس اشاعتی سلسلے میں خاطرخواہ حصہ ڈال رہے ہیں۔
بنیادی بات یہ ہے بلوچستان کے لکھنے والے اپنے عصری معاملات میں نظریاتی فکر کے ساتھ جڑ کر لکھ رہے ہیں۔ 1950ء کی دہائی میں قائم کردہ ترقی پسند ادب کی نظریاتی اساس سنگت اکیڈمی کی صورت آج بھی بلوچستان میں اپنا تسلسل رکھتی ہے۔ جو بات بلوچستان کے ادب کو ‘ معاصر خطوں کے ادب میں ممتاز بناتی ہے، وہ اس کی یہی نظریاتی اساس ہے، جسے یہاں کے لکھنے والوں نے کھونے نہیں دیا۔ وہ خواہ مطالعے کا معاملہ ہو یا تحریر کا، بلوچستانی ادب کا بنیادی وصف اس کا نظریاتی حوالہ ہی ہے۔
یوں کلاسیک سے لے کر بلوچستان کے معاصر ادبی رجحانات کو ایک لفظ میں بیان کرنا ہو، تو وہ ہو گا: مزاحمت!
انگریز سرکار نے جب سرداروں کو ان کی اوقات میں رکھنے کے لیے لاٹ صاحب کی بگھی میں گھوڑے کی جگہ جُتنے کا حکم دیا تو عوام پہ غیض و غضب ڈھانے والے ہمارے سبھی سرداروں نے سر تسلیمِ خم کیا، ماسوائے ایک کے۔ اس کے باوجود ہمارے سبھی لکھنے والے انہی سرداروں کے گن گاتے رہے، انہی کے درباری رہے، ماسوائے ایک کے۔ یوں سردار خیر بخش مری(اول) سامراج کے خلاف سیاسی مزاحمت کی علامت بنا تو ملا مزار بنگلزئی سرداری سامراج کے خلاف ادبی مزاحمت کا نشان قرار پایا۔ بلوچستان میں آج بھی اسی روایت کا تسلسل قائم ہے۔
عوام دشمن، سامراجی قوتوں کے خلاف سیاسی و ادبی مزاحمت اقلیت میں ہے، مگر اپنا وجود رکھتی ہے۔ سو سال قبل عوامی ادبی مزاحمت کا جو مورچہ یوسف عزیز مگسی اور ان کے ساتھیوں نے قائم کیا تھا،1950ء میں لٹ خانہ اور بعدازاں پروگریسو رائٹرز ایسوسی ایشن کی موجودہ شکل سنگت اکیڈمی کی صورت زمین میں اپنی جڑوں کو مستحکم کر چکا اور اس پرچم کو نظریاتی کمٹ منٹ کے ساتھ تھامے ہوئے ہے، جو سوسال قبل اسے اپنے اکابرین سے ملا تھا۔
غرض اس سو سالہ روایت اور خصوصاً گزشتہ دو دہائیوں کے معاصر ادبی رجحانات کا سبق یہ ہے کہ جس لکھنے والے کے پیر اور جڑیں اپنی زمین میں ہوں گی، اس کے ہاتھ میں تھامے پرچم کا رنگ سرخ ہو گا، اور اس کے قلم کی روشنائی عوام کو سرخ سویرے کی نوید سنا رہی ہو گی۔

۔(پروگریسو رائٹرز ایسو سی ایشن کے مرکزی کنونشن منعقدہ18-20جنوری 2019بمقام سیفما لاہور میں پڑھا گیا)۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے