اقبال صلاح الدین ، ظفر اقبال، ابوالاعجاز حفیظ صدیقی کا شہر اوکاڑہ گنجی بار اور نیلی بار کے سنگم پر شیر شاہ سوری کی بنائی شاہراہ کے کنارے واقع ہے۔
اس جغرافیائی حیثیت میں ماہرین نے اسے نیلی گنجی بار کا علیحدہ نام بھی دیا ہے ۔ اور اسی محل و قوع کے سبب یہ ہمیشہ تخت دہلی سے جُڑا رہا ہے ۔ اوکاڑہ کے نواحی قصبے دیپالپور کو ایک زمانہ میں مغلوں نے صوبے کا درجہ بھی دیئے رکھا۔ یہاں کے سردار نور الدین لونا نے محمد شاہ تغلق کے نام سے برسوں تختِ دہلی پر جلوس کیا۔ بقول مولوی عبدالحق اور پروفیسر ڈاکٹر امجد شاکر کے دیپالپوریوں اور دہلی کے لشکر یوں کاآپس میں میل ملاپ ہی اردو زبان کی عمارت کے کونے کا پتھر بنا تھا ۔ یہ علاقہ صدیوں سے نہ صرف مردم خیز رہا ہے بلکہ ہر دور کے مروجہ علم وو ادب سے متعلق نامور لوگوں کا مسکن بھی رہا ہے ۔ شاہ عبدالمعالبی لاہوری جو حضرت داود بندگی کے بھانجے اور مرید تھے نے زندگی کا بیشتر حصہ شیر گڑھ میں گزارا ۔۔۔میاں محمد بخش سیف الملوک والے حضرت شاہ مقیم کے مرید رہے۔ ان کی زندگی کا بڑا حصہ بھی حجرہ شاہ مقیم ہی میں بسر ہوا۔۔۔ جبکہ قصہ مرزا صاحبان کا تمام پس منظر تو ہے ہی حجرہ شاہ مقیم کے گردونواح کا۔
اوکاڑہ کے آس پاس راوی کے کنارے کنارے احمدخان کھرل کے گھڑ سوار انگریزوں کے خلاف رائے احمد خان کھرل کے بارے کہے گئے ڈھولے اس دور کے سامراج دشمن پسند ادب کی بہترین مثال ہیں۔ ۔ بلوچ سردار میر چاکر خان رند کی میزبانی کا شرف بھی اسی علاقے کو حاصل ہے اور وہ اسی سرزمین میں آسودہ خاک ہیں۔۔۔
۔1947کے آشوب سے قبل یہاں کے چک 32/2Lمیں ایک بابو رجب علی بھی ہو گزرے ہیں جو پنجابی بولی کے لوک شاعر اور گائیک بھی تھے۔ انہوں نے عوامی شاعری کی درجنوں کتب اپنے پیچھے چھوڑیں جن پر اپنے پڑوس کے مشرقی پنجاب کے بھائی بندوں نے P.H.Dکے دو تھیسز کروائے ۔
فزکس میں نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام اوکاڑہ کے نواحی قصبے حویلی لکھا کے نواسے تھے ۔ ان کی پیدائش بھی اسی قصبہ کی ہے ۔۔۔ احسان دانش نہر لوئر باری دو آب کی تعمیر کے دوران محنت مزدوری کے ذریعے کسب معاش کی خاطر یہاں بودوباش کیے رہے۔
۔1947کے آشوب سے پیدا ہونے والی افرا تفری میں ادب کے کئی بڑے ناموں نے عارضی طور پر کسب معاش کی خاطر اوکاڑہ کا انتخاب کیا ،جن میں احمد ندیم قاسمی ، اشفاق احمد، اور اسرار زیدی کے نام قابلِ ذکر ہیں۔
۔1936میں یہاں اوکاڑہ شہر میں دیال سنگھ کالج لاہور کے ایک وسیع المشرب صوفی منش پروفیسر مزمل چند ہو گزرے ہیں جو سماج سدھار کے مختلف موضوعات پر درجن بھر کتابوں کے مصنف تھے جنہیں ستیا گیان پبلکیشنر اوکاڑہ نے شائع کیا۔ ۔ یہاں یہ تذکرہ بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ اسی دور میں اوکاڑہ سے مشہور زمانہ انجیل بربناس کا پہلا اردو ترجمہ تھی شائع ہوا تھا۔
اوکاڑہ ایک زرعی علاقہ ہے۔ اس کے نواح دیپالپور حویلی لکھا، اور حجرہ شاہ مقیم وغیرہ انفرادی خاندانی اور خانقاہی جاگیردارانہ نظام کے زیر اثر ہیں جبکہ اوکاڑہ شہر کے اطراف سے ملٹری فارم، رینالہ سٹیٹ ، کلیانہ سٹیٹ ، مچل فروٹ فارم کی صورت میں ریاستی جاگیرداری اسے گھیرے ہوئے ہیں۔
۔1936میں یہاں برلا برادرز نے ستلج کاٹن ملز کے نام سے ایک ٹیکسٹائل مل بنائی جو شہر کے ساتھ متصل 104ایکڑ اراضی پر پھیلی ہوئی تھی جس میں8000مزدور کام کرتے تھے ۔ اس مل کو روئی کی سپلائی کے لیے شہر میں نصف درجن جیننگ فیکٹریاں تھیں۔ اس طرح یہ چھوٹا سا شہر قریباً دس ہزار صنعتی مزدوروں کو سنبھالے ہوئے تھا۔
ستلج کاٹن مل کے محنت کشوں کی ٹریڈ یونین تحریک تھی جسے کمیونسٹ پارٹی کے کل وقتی کارکن کامریڈ عبدالسلام نے ٹیکسٹائل ورکرز یونین کے نام سے 1944میں رجسٹرڈ کروایا۔
احمد خان کھرل کی حریت پسندانہ جدوجہد ہی کی طرح اس کسان تحریک نے بھی خواتین اور کچھ مرد عوامی شاعر پیدا کیے جن کی لکھی ہوئی شاعری ان کے جلوسوں اور دھرنوں میں لہو کو گرماتی ہیں۔
ستلج کاٹن مل کی ٹیکسٹائل ورکرز یونین دراصل ایک سکول کا درجہ رکھتی تھی جہاں ایک طرف محنت کش سیاسی شعور سے لیس ہوتے اور دوسری طرف شہر کے نوجوان اور دانشور یہاں تک کہ درمیانہ درجے کے کسان اور تاجر بھی اس سے متاثر ہو کر محنت کشوں کی تحریک اور جدوجہد میں اپنا حصہ ڈالتے رہے ۔
انجمن ترقی پسند مصنفین کی نئے ملک میں پہلی کانفرنس جو نومبر1949میں لاہور میں منعقد ہوئی اسی کے زیر اثر انہی دونوں میں کامریڈ عبدالسلام، اسرار زیدی ، ریٹائرڈ جسٹس رانا خالد محمود اور ایڈوکیٹ رانا شمش کی کوششوں سے اس کا قیام اوکاڑہ میں بھی آیا۔ اسرار زیدی نے اپنی سوانح میں انجمن کے اوکاڑہ چیپٹر کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’اوکاڑہ ‘‘ چیپٹر مرکزی تنظیم سے بھی زیادہ فعال تھا شہر میں رجعت پسندی کا ڈٹ کر مقابلہ کرر ہا تھا اور موثر انداز میں ترقی پسند تحریک کے کام کو آگے بڑھا رہا تھا۔
تقسیمِ ملک کے بعد انجمن ترقی پسند مصنفین کے دو اقدامات ایسے ہیں جو ادبی تحریکوں کی ملکی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ ایک نومبر1949میں لاہور کانفرنس اور دوسرے اپریل1950میں انجمن ترقی پسند مصنفین اوکاڑہ اور وہاں کی طبقاتی تنظیموں کی طرف سے منعقدہ پہلی امن کانفرنس جس کی صدارت فیض احمد فیض نے کی اس کانفرنس میں ملک بھر سے ترقی پسندادیب اور شاعروں کے علاوہ مقامی مزدوروں اور کسانوں نے بھر پور شرکت کی۔ مقامی انتظامیہ اور جعتی حلقوں نے اس کانفرنس کی ہر طرح سے مخالفت کی ۔یہاں تک کہ بشمول کامریڈ عبدالسلام درجنوں کارکنوں کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ ظہیر کاشمیری اور اسرار زیدی پر حملہ کر کے انہیں زخمی کیا گیا۔ ۔ مگر بچ رہے ۔ریٹائرڈ جسٹس رانا خالد محمود ، رانا شمش ایڈوکیٹ اور اسرار زیدی وغیرہ نے انڈر گراؤنڈ رہتے ہوئے کانفرنس کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ دنیا بھرکے ریڈیو اور پریس میں اس کانفرنس کے تذکرے رہے اور دنیا بھر سے امن پسند ادیبوں اور شاعروں نے کانفرنس کے نام یکجہتی کے پیغامات بھیجے۔
اُنہی دنوں اوکاڑہ کے رجعتی دانشوروں اور خاص طور پر جماعتیوں نے ترقی پسندوں کا مقابلہ کرنے کے لیے حلقہ ارباب ذوق کی بنیاد ڈالی اور کامریڈ عبدالسلام اور اسرار زیدی کو رچ کرنے کے لیے اجلاسوں میں شمولیت کی دعوت دی مگر یہ حلقہ کامریڈ عبدالسلام کے تین افسانوں کی مار نکلا۔ جب کامریڈ نے اس حلقہ کے اجلاس میں اپنا تیسرا افسانہ ’’الحمداللہ‘‘ پڑھا تو وہ حلقہ ارباب ذوق کا آخری اجلاس ثابت ہوا کیونکہ اجلاس کے سامعین کامریڈ عبدالسلام اور اسرار زیدی سے متاثر ہونے لگے تھے۔
جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ 1950کی دہائی کے آغاز ہی سے بائیں بازو کی سیاست اور ترقی پسند ادب کے لیے ریاستی جبر کے تحت حالات نامساعد ہونا شروع ہوگئے تھے ۔ جس کی تان انجمن ترقی پسند مصنفین سمیت بائیں بازو کی تمام تنظیموں کو کالعدم قرار دیے جانے پر ٹوٹی ۔ یہ دور تمام قسم کے کام کی معطلی کا دور تھا جو تقریباً ساٹھ کی دہائی تک چلتا رہا تا آنکہ انجمن ترقی پسند مصنفین ملتان کنونشن میں بحال ہوئی اور یوں اس کا احیاء ہوا ۔ملتان کنونشن کے سال دو سال بعد ہی اوکاڑہ میں فضل احمد خسرو کی کاوشوں سے انجمن وجود میں آئی۔ تب ہم صرف چار پانچ لوگ تھے ۔ جنہوں نے ترقی پسند تحریک کے کام کا دوبارہ آغاز کیا مگر کچھ اس انداز سے کہ ہم نے شاعروں اور ادیبوں کو ترقی پسند افکار سبقاً سبقاًپڑھانے کی بجائے تمام انسان دوست اور انتہا پسندی سے دوری رکھنے والے ادیبوں اور شاعروں کو اپنے ماہانہ اجلاسوں میں بلانا شروع کیا۔ ہر اجلاس کو تین سیشنوں میں تقسیم کیا ۔ایک شاعری کے لیے ، ایک افسانے کے لیے ، جبکہ تیسرا دور سیاست ، ادب، تنقید اور اسی قبیلکے کسی بھی موضوع پر گفتگو کا دور ہوا کرتا۔ اس طرح آہستہ آہستہ شاعروں ادیبوں اور سامعین کے ہاں شعور کی سطح بلند ہوتی چلی گئی ان کی تخلیقات میں نہ صرف Formبلکہ Contentمیں پختگی آئی۔
اس دوران فیض کی صد سالہ تقریبات میں حصہ ڈالتے ہوئے انجمن کے اوکاڑہ چیپٹرنے فیض امن میلے کا انعقاد کیا۔
تسلسل کے ساتھ کئی سال کی ادبی سرگرمیوں کے بعد آج انجمن کا اوکاڑہ چیپٹر فخر سے یہ کہہ سکتا ہے کہ ان کی محنت رئیگاں نہیں گئی آج ہمارے اجلاسوں میں پروفیسرز ، کا لجز کے طلباء شاعروں اور ادیبوں کی تعداد 30سے 35تک ہوتی ہے ۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے