جنوری کی یخ ٹھٹھرتی صبح اور سنڈے پارٹی۔۔۔سڑکیں بھی سردی کے ہاتھوں خاموشی سے اپنی اپنی منزل کی جانب چلی جارہی تھیں۔میں بھی ان میں سے ایک کا ہاتھ تھام کر چل دی۔پروفیشنل اکیڈمی کی سیڑھیاں چڑھتے گمان گزرا کہ شاید کوئی نہیں آ یا۔لیکن سرور صاحب،جاوید صاحب سر جوڑے سرگوشیوں میں مصروف تھے۔ڈاکٹر بزنجو صاحب ایک دو اور ساتھیوں کے ساتھ دھوپ سینک رہے تھے۔کچھ ہی دیر میں ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب ، وحید زہیر صاحب اور دوسرے سنگت آ کر بیٹھتے رہے۔
گفتگو کا آغاز ہوا تو سرور صاحب نے کہا کہ کوئی کمیٹی بننی چاہیے جو قراردادیں پاس کرنے سے پہلے ان کی نوک پلک درست کرے۔انھوں نے کچھ قراردادیں جو پچھلے پوہ زانت میں منظور ہوئی تھیں،پڑھ کر سنائیں۔جس پر سنگتوں نے بحث کی۔
سڑکوں،شاہراہوں کے نام ہماری تاریخی شخصیات یوسف عزیز مگسی،بابا بزنجو اور دوسری بزرگ شخصیات پر رکھی جائیں۔یہ کہ پھر تو تاریخ اور سن بھی ہوں کہ کب کے بعد یہ نام چینج نہ ہوں۔جس پر کہاگیا کہ تقسیم سے پہلے جو نام مروج ہیں ان کو اسی طرح رکھا جائے لیکن اس کے بعد کے اور ابھی نئی شاہراہوں کے نام ہمارے بزرگوں پر ہوں۔
جہیز پر پابندی کی قرارداد پر بات ہوئی تو کچھ دوستوں نے کہا کہ ہم ریاست سے کیوں مطالبہ کریں،ہر چیز کا ذمہ دار اسکو کیوں ٹھہرایا جائے، ہم خود بھی شعور دیں اور کسی کو بڑا بنا کر اس سے یہ کروائیں۔جس پر کہا گیا کہ ریاست ہماری ذمے ار ہے،ہم ٹیکس دیتے ہیں۔ہم کیوں خود کو کسی اور کے ہاتھ میں دیں۔کیوں کسی نواب، سردار کو بیچ میں لائیں۔یہ ایک بین الاقوامی rule ہے کہ عوام کو ملا کر قرارداد منظور کرائی جاتی ہے، یہی شعور دینا ہے اور پھر حکومت پر پریشر ڈال کر قانون بنوا کر اپنی بات منوائی جاتی ہے۔
بلوچستان اور سندھ میں پانی کی تقسیم کی بات ہوئی تو ایک نئے سنگت نے کہا کہ پانی کی تقسیم کی بات ہوئی تھی تب ہمارے دانشور کہاں تھے؟ اگر اس وقت بولتے تو آ ج ہم اس جھگڑے میں نہ ہوتے کہ پانی کی صحیح تقسیم نہیں ہوئی اور ہمارے علاقے سے جو پانی گزرتا ہے اس پر ہمارا کتنا،حق ہے اور انڈس ریور بھی کہیں نہ جاتا۔جس پر کہا گیا کہ ایک تو یہ کہ ہمارا سندھ کے ساتھ اصل جھگڑا یہ ہے کہ جو فیصلہ پانی کی تقسیم کا ہوا اور جو ہمارا حصہ بنا ہمیں وہ تو دیا جائے اور رہی بات کہ دانشور کیوں خاموش رہے تو ان کے سامنے اس وقت ایک بہت بڑا مسئلہ ون یونٹ توڑنے کا تھا جس کے لئے انھوں نے محنت کی اور جیلیں کاٹیں۔
ایک کتاب ‘پانی کی تقسیم’ جسے جنگ پبلشر نے چھاپا ہے ،کا ذکر ہوا جسے سنڈے پارٹی کی اگلی نشست میں لانے کو کہا گیا تاکہ تمام سنگت اسے پڑھ کرحقائق سے آ گاہ ہوں۔
ڈاکٹر معراج کھوسہ ، ڈاکٹر عمران، ڈاکٹر معراج کھوسہ ،حمیدہ اور شائستہ نے ممبر شپ فیس ادا کی اور ہمارے سنگت کے باقاعدہ ممبر بنے۔
چائے کے نشئیوں کو آ ج بڑی مشکل ہوئی کہ کوئی ہوٹل آ ج کھلا نہیں ملا لیکن بالآخر کچھ ساتھیوں کی کوشش سے چائے وہیں بنائی گئی۔
آ خر میں گروپ فوٹو بنا۔ تمام ساتھی ایک ایک کر کے رخصت ہو تے چلے گئے۔ جبکہ سنگت کی سینٹرل کمیٹی کے ممبرز اپنی میٹنگ کے لیے نشستیں سنبھالنے لگے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے