بالخصوص تیس برس سے انسان کو تیار کیا جارہا ہے کہ کپٹلزم واحد نظام کے بطور انسان کا مقدر ہے ۔اور اس کے متبادل کو ئی نظریہ نہیں، سب ناکام۔ بس سرمایہ ،منافع اور امیری غریبی کی دنیا کو دوام ہے ۔حالیہ ترین صورت حال یہ ہے کہ ٹرمپ کی قیادت میں دنیا بھر میں انتہائی رائٹ اور فاشسٹ فکر لوگوں کی قیادتیں بظاہر بے فکر اور بے خطر، قائم ہیں۔
جب بھی کپٹلزم اپنے بحران کے عروج پہ ہوتو وہ لڑائی کے لیے اپنے سب سے رجعتی حلقے کی کھلی دہشت گرد ڈکٹیٹر شپ قائم کرتا ہے ۔خوف کی فضا، غیر یقینی کی فضا۔ دنیا بھر میں ہم اب اسی مرحلے سے گزر رہے ہیں۔
ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ دنیا کی ساری ’’بورژوا‘‘ جمہوریتوں کے اندراب منصفانہ انتخابات کا چوغہ اتار دیا گیا ہے ۔ اُس نظام کے رکھوالے طبقات نے روباہی چالاکی سے ووٹوں کے نظام ہی میں ہیر پھیر کر کے اقتدار لے رکھا ہے ۔آپ کو امریکہ سے لے کر ایشیا تک ہر جگہ الیکشن میں دھاندلی کی چیخیں سنائی دے رہی ہیں۔
دھاندلی سے آیاٹرمپ اور دنیا کے اکثر بورژوا جمہوری ملکوں کے حکمران ،بڑی بزنس کے رجعتی ترین حلقوں کی نمائندگی کرتے ہیں ۔اِن اقتداروں میں شریک کون ہیں؟ ۔چند ہزار ووٹ لینے کے قابل رائٹسٹ سیاسی پارٹیاں ، مذہب کو سیاست میں استعمال کرنے والے حلقے، فنانس کپٹل، اور رائٹسٹ میڈیا۔یہ بات بھی اب راز نہیں کہ بین الاقوامی طو رپر سارے رائٹسٹ لوگوں کا زبردست سمجھوتہ موجود ہے جس سے امریکی سامراجی بالادستی کو مزید تقویت ملتی رہے۔اُسی کا ایجنڈہ وہ آگے بڑھاتے ہیں خواہ اس سے جمہوریت ،مزدور حقوق ، شہری حقوق، ماحولیات اور حتی کہ انسانی decencyکو کتنا ہی نقصان پہنچے۔
کپٹلزم کے اس نئے ماحول میں رائیٹسٹ پروپیگنڈہ اتنا نا ترس ہوگیاہے کہ و ہ آپ ہی کے نظریات آپ ہی کے خلاف استعمال کرتا ہے ۔ اورنظریات کی اُن کی یہ جنگ اس قدر کامیاب ہے کہ مزدور فخریہ اپنے ہی خلاف ووٹ دیتا ہے ۔ اس مزدور کوجگانا اور اپنے خلاف اقدام نہ کرنے پہ قائل کرنا ایک بہت مشکل چیلنج بن چکاہے ۔
بے لگام نسل پرستی، فرقہ بازی، رائٹسٹ قوم پرستی کو فروغ دینے والی سیاسی قوتوں کا اقتدار میں آنا دنیا بھر میں تباہ کن خطرات کی نشاندہی کرتا ہے۔ پریس پر بدترین پابندیاں لگتی جارہی ہیں، پبلک سیکٹر کے پر،کاٹے جارہے ہیں اور ووٹ سے قائم اداروں کی تذلیل و سبکی کی جاری ہے ۔ صنفی امتیاز کو تقویت دی جارہی ہے ، نسلی بالادستی کی باتیں عام ہیں۔ مذہبی اور نسلی اقلیتوں کو تباہ حال کردیا گیا ہے ۔ماحولیاتی بگاڑ سے آنکھیں پھیری جارہی ہیں۔ بڑی صنعت وتجارت کو بے لگام کیا جارہا ہے اور امیروں کو ٹیکس سے بچنے کی ہر سہولت دی جارہی ہے ۔
حکومت لیبر اور سول رائٹس تحریکوں کی سخت ترین لڑائیوں سے حاصل کردہ حاصلات کو برباد کرتی چلی جاتی ہے ۔ یعنی کولیکٹو بارگیننگ کا خاتمہ کرنا ، حکومتی پروگراموں کو پرائیوٹائزکرنا اور بڑی تجارت بالخصوص ماحولیات سے متعلق موجود ریگولیٹ کرنے والے سارے قوانین کو ہٹا دینا۔
کپٹلزم یعنی امریکی سامراج کا سٹرکچرل اور فنانشل بحران گہرا ہوتا جارہا ہے ۔ بے روزگاری بڑھتی جاتی ہے ۔
ایسے پُر سوگ ماحول میں چند بناوٹی ، نمائشی اور مصنوعی ’’مثبت ‘‘ خبریں بھی چلائی جاتی ہیں ۔ ہم ایسی معمولی نوعیت کی تبدیلیاں دیکھتے ہیں تو بھی خوشی سے ناچنے لگ جاتے ہیں۔معاملہ یہ ہے کہ اصلی خوشی کی خبریں ہم تک آتی نہیں اس لیے کہ اطلاعات کی ’’ صنعت ‘‘ مکمل طور پر حکمران طبقات کے ہاتھ میں ہے ۔ ہمیں انہی پر انحصار کرنا پڑتا ہے ۔
اُن میں سے ایک مصنوعی خوشی انڈیا کے حالیہ صوبائی الیکشنز ہیں۔گاندھی اور نہرو کی کانگریس کی ’’ شرافت‘‘ تو ہم سب جانتے ہیں مگر مودی اور اس کے اتحادی توقدامت پرستی کے بھوت اور چڑیل نکلے۔ اس لیے ہندوستان میں ذرا سا فرق یہ پڑا ہے کہ حالیہ کچھ صوبوں کے صوبائی الیکشنوں میں بنیاد پرست ہندو ازم کو کچھ کچھ مسترد ضرور کیا گیا ۔یار کتنے خوش ہوئے ؟۔۔۔ اداریے ،مضامین ،تقاریر۔
مگر کیا کوئی اصلی اچھی بات موجود ہے ؟ ،کوئی حقیقی اچھی خبر موجودہے ؟۔
اگر حقیقی مثبت بات دیکھنی ہے تو پھر بورژوا میڈیا میں تلاش نہ کریں۔ اور اوپری ڈھانچہ یعنی پارٹیوں میں بھی نہ دیکھیں۔ بنیادی متضاد قوتوں کو دیکھیں ۔ یہ دیکھیں طبقاتی تضاد کے میدان میں کیا ہورہا ہے ۔
ہم جان پائیں گے کہ دنیا میں یہ سال بھی طبقاتی اور انسانی حقوق کی جدوجہد سے خالی نہیں گیا۔ کار پوریٹ حرص کے خلاف ، سماجی انصاف کے لیے ،اور بہتر معیارِ زندگی کے لیے ہر براعظم میں کچھ نہ کچھ ہوتا ہی رہا۔
فرانس میں بنیادی تضادات میں سے ایک نے سر اٹھانا شروع کردیا۔ وہاں ایک پاگل اور بنیاد پرست کپٹلسٹ صدر نے امیروں پر ٹیکس لگانے سے علی الا علان انکارکر دیا اور غریب ٹیکسی اور ٹرک چلانے والوں کے ڈیزل کی قیمت بڑھائی ۔ اس سے اس ملک کی تو زمین ہل کر رہ گئی ۔ پیلی جیکٹوں والوں نے اپنے پیٹ پر اتنی بڑی لات کھانے سے انکار کر دیا اور سڑکوں بازاروں میں نکل آئے ۔ورکنگ کلاس کی یہ تحریک ٹیکسوں میں کمی چاہ رہی تھی، علاج کی بہتر سہولتوں کا مطالبہ کر رہی تھی۔ اور پھر مطالبات کی فہرست بڑھتی گئی اور احتجاجیوں کی تعداد بھی۔ اس سے قبل وہاں ریلوے کے مزدور جلسہ جلوس کر چکے تھے۔ یونیورسٹی کے طلبا نے ایک تحریک چلائی تھی۔ اُن ساری ناکام تحریکوں کے لوگ بھی اب اپنے مطالبات کے ساتھ پیلی جیکٹوں والوں کے ساتھ شامل ہوچکے ۔ فرانسیسی حکومت نے ہماری حکومتوں کی طرح آنسو گیس اور لاٹھی چارج کا وحشیانہ استعمال کیا۔ ہزاروں مظاہرین کو جیلوں میں ٹھونس دیا۔تقریباً دوہزار افراد زخمی ہوئے ۔ا ور باقاعدہ درجن بھر ہلاکتیں ہوئیں۔ ۔۔۔ یورپ میں جلسہ جلوس کے اندر ہلاکتیں بہت بڑا واقعہ ہوتی ہیں۔
کپٹلسٹ تہذیب کے اِس اہم ترین ستون یعنی فرانس کی پیلی جیکٹ تحریک نے پہلی بار پوری دنیا کو بتا دیا کہ یورپ جیسے اورامیر براعظم کے اندر مہینے کے آخری دس دنوں میں دو وقت کی روٹی ملنی بھی مشکل ہوچکی ہے۔ ہمارے ٹی وی نیوز چینلز کے چسکہ فروش ،اورعوام دشمن اینکر اور ماہرین ذرا ہر سیچر ڈ ے کو پیرس کی سڑکوں پہ آتش و آہن کے مقابل صف آر ا عوام کو دکھائیں تو یقین ہے کہ یہاں بھی عوام حشر برپا کردیں گے۔بورژوازی کے انہی میڈیا ایجنٹوں کی بدولت ہم مغرب کی جگ مگ کرتی دنیا کے اندر موجود وسیع اکثریت کو دیکھ نہیں پار ہے۔
اُدھر بلجیم اور ہالینڈ کے بے روزگار اور غریب طبقات بھی منظم ہورہے ہیں۔ اِ ن مغربی ممالک کی متشدد عوامی تحریکوں کی تہہ میں کہیں یہ مطالبات بھی نظر آرہے ہیں کہ وہاں دولت کی تقسیم کو مساوی بنانے والا نظام متعارف ہو۔ امیر کو امیر تر ، اور غریب کو غریب تر بنانے والی پالیسیوں کا خاتمہ ہو۔
اس سے پہلے یونان کے مزدور سرکاری پالیسیوں کے خلاف ہڑتا لیں اور احتجاج کرتے رہے۔ اسی طرح جرمن ریلوے مزدور تنخوا ہوں میں اضافے اور حالات کار بہتر کرنے کے مطالبات پر قومی سطح کی ہڑتال کر چکے۔ برطانیہ میں دس ماہ تک کی ہڑتال کے بعد بہت ہی پچھڑے مزدوروں کو جیت نصیب ہوئی۔
اس سال اکتوبر میں آسٹریلیا کی گلیاں بھی زرد جیکٹوں والوں سے بھر گئی تھیں۔ یہ تعمیراتی صنعت سے وابستہ مزدور تھے جنہوں نے اپنے اوزار پھینک دیے اور مزدوروں کو تنظیم اور ہڑتال کے حقوق دینے کے جلوسوں میں شامل ہوئے۔ آسٹریلیا کا پڑوسی نیوزی لینڈ بھی اس سال صنعتی مزدوروں کے ہلچل میں رہا۔ جہاں پبلک سرونٹس ، نرسیں، فاسٹ فوڈ مزدور، بس ڈرائیورز اور سینما مزدور اپنے حقوق کے لیے ہڑتال اور جلوس کرتے رہے۔
کینیا میں نرسوں نے اور نائیجریا میں مزدوروں نے کم از کم اجرتوں کے لیے ہڑتالیں کیں۔ جنوبی افریکا میں سونے کے کانوں کے مزدور حرکت میں آئے۔
وہاں جنوبی کوریا میں چھ ماہ سے مزدوروں کی جنبش جاری ہے تاکہ انہیں بہتر اجرتیں ، بہتر حالاتِ کار، اور یونین سازی کا حق ملے ۔
چین میں بھی فیکٹری مزدور کام کے دوران حفاظتی اقدامات میں کمی کے خلاف، اور جبری اوور ٹائم کے خاتمے کا مطالبہ کرتے چلے آرہے ہیں۔
جاپان جیسے نام نہاد غیر ہڑتالی ملک میں بھی بس ڈرائیوروں کے ہڑتال دیکھنے اور سننے کو ملے۔
فلپائن میں ایلوریکانامی کمپنی کے مزدور اپنے مطالبات کے ساتھ ہڑتالوں کا نوٹس دے چکے ہیں۔
مشرقی ہندوستان میں چائے اگانے والے کاشتکار جلسہ جلوس کر چکے ہیں۔ Uberنامی کمپنی کے ڈرائیور ہڑتال اور جلسہ جلوس کر چکے ہیں۔لاکھوں کسان دہلی کی سڑکوں پہ مارچ کرتے نظر آتے رہے۔ وہاں کی زراعت شدید بحران کی زد میں ہے ۔ اس سال کسانوں کی تین بڑی احتجاجی ریلیاں ہوچکی ہیں۔
ابوظہبی میں تعمیراتی کاموں کے مزدوروں نے اپنی سابقہ اجرتوں کی ادائیگی تک کام سے ہڑتال کیے رکھا۔
اسی طرح پڑوسی ایران میں بھی حکومت کے جبر کے خلاف مزدوروں میں ہلچل جاری ہے ۔ سٹیل کے مزدور دوماہ سے ہڑتال پہ ہیں کہ انہیں ٹریڈ یونین بنانے کا بنیادی حق حاصل ہوتا کہ اُن کی اجرتوں پہ مالکان کی نقب زنی کو روک لگ سکے۔وہ اجرتوں میں اضافے اور وقت پر ادائیگی کے مطالبات کر رہے ہیں۔ ورک پلیس پہ حفاظتی مشینری کی تنصیب کا ان کا مطالبہ بھی ہے ۔ وہ سوشل انشورنس کی گارنٹی چاہتے ہیں۔
ایران نیشنل سٹیل انڈسٹریل گروپ کے مزدوروں کی یہ تحریک تیل پیدا کرنے والے علاقے اہواز ؔ میں جاری ہے ۔ اب تو تہران بھی اس میں شامل ہوچکا ۔ایرانی ٹرک ڈرائیورز، کا شتکار اور ریلوے مزدوروں نے بھی ہڑتالیں کیں۔ مقبول نعرے ہیں: تہران سے اہواز تک مزدور جیل میں ہیں، سٹیل ورکرز کو رہا کرو، جیل میں بند ٹیچرز کو رہا کرو، حکومت جرائم کرتی ہے پارلیمنٹ اس کی مدد کرتی ہے ، دشمن تو یہیں ہے مگر وہ جھوٹ بولتے ہیں کہ امریکہ میں ہے ۔ ابھی تک پچاس ٹریڈ یونین لیڈر گرفتار اور ٹارچر ہورہے ہیں۔
پاکستان میں پورٹ کے مزدور ناجائز برطرفیوں اور کم اجرتوں کے خلاف لڑچکے ہیں ۔ پوسٹل مزدور اپنے حقوق کے واسطے ہڑتال کر چکے ہیں۔ٹیچرز اور کلرکوں کی ہڑتالیں تو روز کا معمول ہیں۔
بلوچستان کے گوادر میں ماہی گیر صدیوں سے جاری اپنے روزگار یعنی ماہی گیری چھن جانے پر ایک عرصے سے احتجاج پر ہیں۔ اسی طرح صحافی اپنے پیشہ ورانہ مطالبات لے کر احتجاج کر رہے ہیں۔ ٹیچروں میں بھی بے آرامی اور احتجاج جاری ہے ۔
ہماری نظر میں ورکنگ کلاس کی یہی ہڑتالیں ہی مثبت باتیں ہیں دنیا میں ۔ یہ کوانٹی ٹے ٹو باتیں ہیں۔ کپٹلزم کا مستقل سردردیہی باتیں ہیں۔ انہیں معمولی سمجھنا خود سیاست کو نظر اندازکرنا ہے ۔ کپٹلزم کے لیے دوہی تو بڑے تباہ کن عوامل ہوتے ہیں: ایک مزدور طبقے کی ہڑتالیں بے چینیاں ۔ اور دوسرا اُن کے اپنے اندر کی گردن توڑ مقابلہ بازی۔ اور یہ دونوں محاذ خاموش نہیں ہیں۔یوں انسانیت نجات اِنساں کی طرف بڑھ رہی ہے ۔ اور بقول ساحرؔ ’’اس کے سرپہ ارتقا کے ہاتھ کا سایہ ہے ، اور اس کی پشت پر تاریخی محرکات کی بے پناہ قوت ہے ، اسے کون روکے گا، اسے کون روک سکتا ہے ‘‘۔