دل شیر کی آنکھیں اس کے دل میں بھری عشق کی آگ سے جل رہی تھیں۔ وہ دادن کے سامنے سر جھکائے کسی دوسرے جہان کا باسی دکھائی پڑتا تھا۔ سامنے کی دیوار پر لگی کپڑوں کے ہینگر میں لٹکا ہوا ٹراسسٹر محمد جمن کو بجائے جا رہا تھا۔۔ ‘‘یار ڈاڈی عشق آتش لائی اے’’ دل شیر کی جھکی ہوئی آنکھوں میں ہزاروں لاکھوں دھنک رنگ بکھر گئے اور نازو کا ہوش رْبا پیکر اس کے تصور کے آسمان پر چھاتا چلا گیا۔ اْس کی کمان دار بھنویں اْس کی آنکھوں کو اپنی چھاؤں میں لئے ناک کے بلکل اوپر آپس میں جڑ جاتی تھیں۔ اس کی آنکھیں گھنی سیاہ پلکوں کی جھالر سے سجی، حیرتوں سے بھری دو جھیلیں تھی جن میں ہر وقت جوان خوابوں کے شوخ کنول کھلے رہتے اور جن کو دیکھ کر دلشیر سانس لینا بھول جاتا تھا۔ پتلی ستواں ناک، گلاب کی پتیوں سے نرم ہونٹ، صراحی دار گردن، اور اس کی گندمی بے داغ رنگت۔، بھنورے ایسے کالے بالوں کی لمبی چوٹی اس کی کمر کے خم سے بھی کہیں نیچے تک لٹکتی رہتی جو چلتے سمے کسی ناگن کی طرح اٹھلاتی بل کھاتی رہتی۔ اور اس ناگن نے جانے کب دلشیر کو ڈس لیا تھا۔
‘‘ارے دادن کچھ کرو، کچھ کرو بیلی۔ مر رہا ہوں میں۔’’ دلشیر نے سر اٹھاتے ہوئے اپنے جگری دوست کو سْلگتی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
استاد محمد جمن گاتا جا رہا تھا تھا ‘‘عشق اویلا بَہن نہ ڈیندا’’۔۔
دلشیر کی آنکھوں میں عشق کا بھڑکتا الاؤ دیکھ کر دادن سوچ میں پڑ گیا۔ وہ اپنے اس جوشیلے، ضدی اور اپنی بات منوانے کے عادی دوست کو اچھی طرح جانتا تھا۔
’’شیرل کچھ حوصلا رکھ، ہمت کر یار۔۔ یہ سر میں دھول ڈالے کیوں بیٹھا ہے۔ چاچے فدا سے بات کریں گے ادا۔ ہاں کر دے گا کہاں جائے گا۔’’ دادن نے اٹھ کر ریڈیو کی آواز دھیمی کرتے ہوئے کہا۔
کیسے مانے گا دادن، اس بڈھے کو اور اس کی بڈھی کو جانتا نہیں کیا تْو؟ دلشیر نے کسی پریشان کن سوچ کے زیرِ اثر اپنے ہاتھ ملتے ہوئے کہا۔ اڑے ان کو اپنی بیٹی کے لئے دْہری چاہئے بری میں۔ کہاں سے لاؤں گا میں دْہری میرے بھائی، میرے پاس تو ان دو بیلوں کے علاوہ کچھہ بھی نہیں۔ سوچا تھا بیچ دوں لیکن پھر ہل میں کیا جوتوں گا۔ ابے کی بیماری پر بھوتار سے قرضہ لیا تھا وہ بھی جوں کا توں سر پر بوجھ کی طرح لٹک رہا ہے۔۔۔ دلشیر نے زور زور سے سر کو جھٹک کر کہا۔۔دادن کو لگا جیسے شیرل کسی بوجھ کو جھٹکنے کی کوشش کرہا ہو۔
وہ دونوں بچپن کے یار تھے۔ ماسی رحمت، دادن کی ماں نے تو دلشیر کو اپنا دودھ پلا کر بڑا کیا تھا۔ دلشیر کی ماں زچگی کے دوران کچھ پیچیدگی کا شکار ہوگئی تھی۔ اور زیادہ خون بہہ جانے کے سبب وہ دلشیر کی چھٹی سے پہلے ہی اپنے خدا کے پاس چلی گئی۔ تب سے اس بن ماں کے بچے کو رحمت نے اپنے نومولود دادن کے ساتھ پال کر بڑا کیا تھا۔
دادن گھڑامنجی کی طرف بڑھا، پانی کا گلاس بھرا اور دلشیر کے قریب چلا آیا۔۔
‘‘لے پانی پی، ٹھنڈا کر خود کو بھی اور دماغ کو بھی۔ کرتے ہیں کچھ۔ دل ہلکا نہ کر۔ اوپر والے پر چھوڑ سب۔ مولا مددگار ہوگا بھائی۔’’
دلشیر نے بے بسی کے ساتھ دادن کو دیکھا، اس کے ہاتھ پانی کا گلاس لیکر چارپائی کے پائے پر ٹکایا، پہلو میں رکھا اپنا رومال اٹھایا اور اٹھ کھڑا ہوا، اور سر کو جھکائے چَھنے سے باہر نکل گیا۔۔۔
آج صبح سے دن بہت گرم تھا ، جون کا سورج اپنے اوج پر پورا دن جھلساتا رہا تھا، لیکن شام ہوتے ہوتے ہواؤں نے کھْلنا شروع کردیا اور رات کافی حد تک پرسکون ہو چلی تھی۔ اپنے کچے گھر کے صحن میں چارپائی پر نیم دراز دلشیر کی زندگی آجکل ایک ہی محور کے گرد طواف میں مگن تھی۔ نازو نازو نازو۔
‘‘شیرل او شیرل،!’’ دادن کی پکار نے اسے سپنوں کی دنیا سے واپس بلا لیا۔ دادن دروازے کے اندر داخل ہوکر خلافِ معمول تھوڑا رک کر اسے دیکھتا رہا گویا انتظار میں ہو کہ دلشیر کچھ کہے۔ اس کے ہاتھ میں رومال میں لپٹا کچھ تھا۔
ارے دادن، ادا آ جاؤ رکے کیوں ہو وہاں؟ دلشیر نے اٹھ کر بیٹھتے ہوئے کہا۔ دادن اندر چلا آیا اور اس کے قریب بیٹھتے ہوئے مسکراتے ہوئے پوچھا ، ‘‘اتنے دن لگا دیے تم نے ملنے میں۔ کیا ناراض ہو؟’’ ‘‘نہیں ادا ناراضگی کیسی۔’’ دلشیر نے بھی جواباً مسکرا کر کہا۔
دادن نے ہاتھ میں پکڑی رومال کی پوٹلی دلشیر کے آگے رکھ دی، ‘‘لو شیرل سائیں کھول کے دیکھو’’۔۔۔ دلشیر کچھ نہ سمجھتے ہوئے پوٹلی کی گرہیں کھولنے لگا، کسی انجان سے احساس کے تحت اس کی انگلیاں مرتعش ہوئی جاتی تھیں۔ گرہیں کھل گئیں، اور دلشیر کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا، اس کے سامنے پانچ پانچ ہزار کے بیس بائیس نوٹ ایک دوسرے میں گتھم گتھا پڑے تھے۔۔اور تب اس کی آنکھیں آسمان میں اْگے چاند تاروں سے بھر گئیں۔
اور دو مہینے کے بعد اس رات دلشیر نے رنگوں، خوشبوؤں اور کانچ کی چوڑیوں کی مدھر کھنک سے گندھی ہوئی اس گٹھڑی کو جب چھوا تھا تو اسے لگا تھا جیسے اس نے ساتوں آسمان چھو لئے ہوں۔
تین مہینے گذر گئے۔۔ نازو اور دلشیر کی پوری کائنات اس چھوٹے سے صحن والے کچے گھر میں سمٹ آئی تھی۔ دلشیر نازو پر نچھاور تھا اور نازو اپنی قسمت پر نازاں۔
دوپہر ہونے لگی تھی لیکن ان دونوں کو تو جیسے کھانے پینے کا ہوش بھی نہ رہا تھا۔ آج صبح سے نازو اپنی آنکھوں میں ایک شرمیلی روشنی لئے کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن روائیتی حجاب آڑے آتا رہا،
شیرل او شیرل۔۔ باہر کے دروازے پر کنڈھی مار کر کھٹکھٹاتے ہوئے دادن کی آواز آئی اور وہ دونوں مسکرا کر چونک پڑے۔
دلشیر نے دروازا کھولا اور دادن کو گلے لگایا۔ ‘‘اندر آجاؤ دادن، آؤ ‘‘۔ دلشیر دادن کے لئے راستا بنانے کے لئے تھوڑا ہٹ کر کھڑا ہو گیا۔ شیرل تھوڑا باہر آؤ۔ ضروری بات ہے، بال بچوں کے سامنے نہیں کہنی۔ دادن نے آرام سے کہا۔ ‘‘اچھا چلتا ہوں’’، دلشیر نے نازو کو ابھی واپس آتا ہوں جیسا ایک اشارہ کیا اور گھر سے نکل گیا۔
‘‘شیرل! وڈیرے کو وقت پر پئسے نہیں دئے تو وہ میری زمین ہڑپ لے گا یار’’۔ دادن کے چہرے سے پریشانی اور بے یقینی جھلکی پڑ رہی تھی۔ دلشیر نے الجھتے ہوئے کہا ‘‘میں سمجھتا ہوں دادن پر میں اتنی جلدی کہاں سے لاؤں تمہارے پئسے’’؟؟ ‘‘ میرے بھائی اب تو خیر سے ہوگئی نا شادی۔ اب زیور ہی واپس کرکے کچھ بندوبست کردو۔۔’’ دادن نے لجاجت سے کہا۔۔ رمو کی چائے کی ہوٹل پر لوگوں نے اچانک ان دوستوں کو ایک دوسرے کے ساتھ تیز ہوتا دیکھا اور بیچ بچاؤ کروانے کے لئے ان کی طرف بڑھے۔۔
‘‘ارے میرے بچے تم کیسے اپنے گھر سے باہر آئے ہو؟؟ تم تو ابھی بہت چھوٹے ہو میری جان۔’’ نازو چڑیا کے ایک ننھے سے بچے کو ہتھیلی پر لئے چارپائی پر چڑھ کر اسے اس کے گھونسلے میں رکھنے کی کوشش بھی کرتی جا رہی تھی اور اس ننھے چوزے سے باتیں بھی۔ شوہر کے ابھی واپس آتا ہوں کے اشارے کو یاد کر کے وہ ہنس دی۔ ‘‘چلو تم اپنے گھر میں بیٹھو آرام سے تو میں کھانا بنا لوں۔ اور پتہ ہے میرے ننھے چوزے بس کچھ مہینوں میں ہمارے آنگن میں بھی ایک ننھا منا مہمان آنے والا ہے۔’’ محبتوں اور سپردگی سے سرشار نازو جیسے اپنے آپ سے باتیں کرتی جارہی تھی۔ اسے اچانک باہر بہت زور زور سے بولتے آواز سنائی دئے۔۔ جیسے کوئی پکارتا ہو خون خون۔۔ وہ سہم کر چارپائی پر کھڑے کھڑے وہ شور اور آوازیں سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی جب اس کے گھر کا دروازہ ایک دھکے کے ساتھ کھلا۔۔ اور دلشیر اندر گھس آیا۔ ‘‘یا خدا خیر’’ نازو کا دل اچھل کر رہ گیا۔ دلشیر کی قمیض پر خون کے نشان تھے، اس کی آنکھیں وحشت سے پھٹی پڑ رہی تھیں۔ اس نے ایک لمحے کے لئے ٹھٹھک کر نازو کو دیکھا، اور اس کے چہرے کے تناؤ پر سکون کی ایک لہر سی گذر گئی۔
وہ بنا کچھ کہے کمرے میں گھس گیا۔ نازو پتھر کی طرح وہیں منجمند سی ہو گئی تھی۔ دل شیر کی آنکھوں میں کیا تھا جس کا احساس موت کے خوف کی طرح اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سرائیت کر گیا تھا۔
ہاتھوں میں کلہاڑی تھامے دلشیر کمرے سے نکلا۔ وہ نازو کی طرف بڑھا، ‘‘اترو نیچے۔۔ ‘‘ دلشیر نے ہاتھ بڑھا کر جیسے مدد کرنی چاہی۔ وہ بیجان بت کی طرح کھڑی رہی اس کی ہرنی جیسی آنکھیں کسی انجانی ، ناگہانی آفت کو دیکھ رہی تھیں شاید۔ اس کے ہونٹ اور اس کی زبان لکڑی کی طرح سوکھ چکے تھے۔ باہر کی آوازیں اس کے گھر کے قریب ہوتی چلی جارہی تھیں۔ ‘‘نازی اترو نیچے، تمیں مرنا ہوگا’’ دلشیر نے ایک جھٹکے سے اسے نیچے گھسیٹ لیا۔ ‘‘لے۔۔کن میں بے قصو۔۔ر ہوں ’’رندھی ہوئی آواز نازو کے حلق کو چیرتی ہوئی نکلی۔۔ ‘‘تو۔۔۔ کیا کروں میں؟ اس تمہارے باپ کو جو مار آیا ہوں تو اب کیا کروں؟ کیا پھانسی لگ جاؤں’’ نازو کا دماغ سْن ہوچکا تھا۔ اب وہ جان گئی کہ کچھ کہنا سننا بیکار ہے۔۔اس نے دلشیر کے اوپر اٹھے ہاتھوں میں پکڑی کلہاڑی کو موت کی سفاکیت لئے اپنی طرف بڑھتے دیکھا۔۔ اس کی آنکھوں سے دو بڑے بڑے آنسو ٹوٹ کر اس سے الگ ہوگئے۔۔ اور اس کے ہونٹوں نے سسکتے ہوئے فریاد کی۔۔۔ آخری فریاد۔۔ ‘‘مے۔۔را ب۔۔چہ’’۔۔۔۔
دل شیر کی قمیض پر پڑے خون کے نشان اور بڑھ گئے۔
کورٹ میں جج نے دل شیر سے پوچھا ‘‘تم نے دو دو خون کیوں کئے؟؟’’
دل شیر نے پر اعتماد لہجے میں جواب دیا
‘‘کارے تھے جناب

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے