مندرجہ ذیل قراردادوں کی منظوری لی گئی ۔
۔1۔ آج کی یہ مجلس مطالبہ کرتی ہے کہ یوسف عزیز مگسی، امین کھوسہ، عبدالعزیز کرد، محمد حسین عنقا، بابو شورش، گل خان نصیر، عبدالصمداچکزئی و دیگر قومی اکابرین کو نصاب میں شامل کیا جائے۔ نیز ہمارا مطالبہ ہے کہ مختلف علاقوں کی معروف شاہراہوں، چوک اور علمی اداروں کو ان شخصیات کے نام سے منسوب کیا جائے۔
۔2۔ عورتوں کو برابری کے سماجی حقوق دیے جائیں، جہیز کا خاتمہ کیا جائے۔
۔3۔ یہ اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ ہاریوں، بزگروں اور کھیت مزدروں کو اس زمین کا حقِ ملکیت دیا جائے ، جسے وہ کاشت کرتے ہیں۔کھاد اور ادویات کی سستی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ کسانوں کو جاگیردار اور انتظامیہ کے جبر سے نجات دلائی جائے۔
۔4۔چھوٹے کاشت کاروں کو بلاسود قرضے دیے جائیں۔حکومت کسانوں کی پیداوارمناسب نرخ پر خود خریدے۔
۔5۔صوبائی حکومت سندھ سے نہری پانی کے جائزہ حصے کی وصولی یقینی بنائے، ٹیل کے کاشت کاروں کو ان کا جائزحصہ دیا جائے۔سیم و تھور کا خاتمہ کیا جائے۔
۔6۔ زراعت پر مبنی صنعتیں قائم کی جائیں۔ نصیرآبا د میں زرعی یونیورسٹی بنائی جائے۔ نیز جاگیرداری نظام ختم کر کے زمین کی کم سے کم ملکیتی حد قائم کی جائے۔
۔7۔ یہ اجلاس ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری اورغربت کو تشویش کی نظر سے دیکھتا ہے اور اس کے خاتمے کا مطالبہ کرتا ہے۔
۔8۔ یہ اجلاس ماورائے عدالت جبری گم شدگیوں کے معاملے کو آئین او ر قانون کے مطابق حل کرنے پر زور دیتا ہے۔
۔9۔ہم اٹھارویں ترمیم کے خلاف سازشوں کو تشویش کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ صوبائی حکومت کو اس بابت فوراً قانون سازی کرنی چاہیے۔
۔10۔ہم ملک کو ون یونٹ کی طرز پر چلانے کی سازشوں کی سختی سے مذمت کرتے ہیں۔
۔11۔ہم ایسوسی پروفیسر ڈاکٹر ابراہیم خلیل کے اغوا اور ان کی عدم بازیابی کی مذمت کرتے ہیں۔ حکومتی اداروں کو ان کی بازیابی کے سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
۔12۔ہم بلوچ سیاست اور طبقاتی جدوجہد کے متحرک خانوادے سے یوسف مستی خان کے بڑے بھائی افضل مستی خان، معروف لکھاری نذیر لغاری کے بھائی اور بلوچستان کی معروف کارڈیک سرجن ، اسسٹنٹ پروفیسر مہناز مری کی وفات پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہیں۔ مہناز مری، معروف بلوچ دانش ور جناب صورت مری کی صاحبزادی اور خصوصاً بلوچستان میں خواتین کی صحت کے حوالے سے ایک اثاثہ تھیں، ان کی ناگہانی بے وقت موت بلوچستان کا بڑا نقصان ہے۔