جنگاں شاذِھے بیثیں
سیوی برنہ کث رنداں
شتؤ ست گرا گوئستہ
سیوی گپتہ تی دنگاں
(بلوچی کلاسیکل شاعری)
اگر جنگیں اچھی ہوتیں
تو رند قبائل سبی کو خالی اور ویران نہ کرتے
(وہ )وہاں ست گرا تک دھکیلے گئے
(اور )سبی پہ دوسرے سپر پاورز قابض ہوگئے
ست گھر (ست گرا) ساہیوال کے علاقے میں ہے ۔ اورل پوئٹری میں یہی بتایا گیاہے کہ وہیں چاکر کا مقبرہ ہے ۔اور دور ساہیوال کے ست گھرا میں وہ قلعہ و اقعی اسی کے نام سے منسوب موجود ہے ۔
وہیں ساہیوال میں ورکنگ کلاس سیاست کا ایک عاشق رہتا ہے : زکریا خان (پیدائش 15جنوری 1957)۔ درمیانی عمر کے اس بے شادی شدہ شخص کا کمال یہ ہے کہ ہر جینوئن پولٹیکل ورکر کی طرح وہ بلوچستان سے عشق کرتا ہے ۔ اور میرا یہ فارمولہ مان جائیے کہ باہر کے کسی سیاسی آدمی کے بلوچستان سے عشق کرنے کی واحد وجہ میر غوث بخش بزنجو ہوگا ۔
چنانچہ بزنجو کا یہ پرستار اُسی بزنجو کے توسط سے بلوچستان کے دیگر ہیروؤں کی تکریم کرتا ہے ۔
شوگر کے مریضوں کی جوڑی ڈاکٹر محمد صدیق طاہر اور امت الحیب کا یہ شوگر زدہ بیٹا زکریا باتیں بہت کرتا ہے ۔ بقول حنا جمشید ’’بے تحاشاباتیں ‘‘ ۔ اُس کی بسیار گوئی کا میرا تجربہ تو اب تک ٹیلیفونک گفتگو کا رہا تھا۔ وہ فون پہ بہت زیادہ سے بھی زیادہ بولتا رہتا ہے۔ بعد میں جب اُس سے ملاقات ہوئی تو اندازہ ہوا کہ وہ اُس سے بھی تین گنا زیادہ بولتا ہے ۔مجمعے میں دو اشخاص بول رہے ہوتے ہیں تو وہ اچانک اوپر سے چھلانگ لگا کر کانوں کے درمیان آن موجود ہوگا اور اُن دونوں کے بیچ زیرِ بحث موضوع کو گولی مارتا ہوا اپنی بات کرے گا ۔ ایسا ،جیسے اگر اُس نے یہ بیش بہا اور تاریخی بات اب نہ کی تو وہ ہمیشہ کے لیے اُسے بھول بیٹھے گااور جس سے سماج کا بڑا نقصان ہوگا۔اور اگر آپ اُس کے ساتھ سفر کر رہے ہیں تو جس سمت وہ بیٹھا ہوتا ہے تو عملاً اُس طرف کا کان اس طرح محسوس کرتا ہے جیسے کوئی اس کے پردے کو ہتھیلی سے مسلسل دھکا دے رہا ہو۔زکریاخان گویا ساہیوال کا اسلم ریڈیو ہے۔
مگر وہ ہے سراسر سیاسی ورکر ۔ بات کا پکا، مدد گار ، محبتیں بانٹنے اورپھیلانے والا ۔ کام کرنے والا جنونی سیاسی ورکر۔
اور اگر آپ کو سیاست سے ذرا سا بھی واسطہ ہوتوآپ دیکھیں گے کہ ہر جگہ ایک نہ ایک زکریا خان ضرور ہوگا ۔ زکریاؤں کے بغیر شعوری سیاست آگے نہیں بڑھ سکتی۔ کہیں پہ بھی ’’زکریا گریزی ‘‘ناممکن ہے ۔ ’’زکریا منحصری ‘‘ہر انقلابی سیاسی پارٹی کے مقدر میں کندہ ہوتی ہے ۔ ۔۔۔ اور سچی بات تویہ ہے کہ اگر آپ جینوئن سیاسی ورکر ہیں تو خود آپ کے اپنے اندرایک ’’زکریا خان‘‘ کسی نہ کسی صورت ضرور موجود ہوتا ہے۔
سٹوڈنٹ لائف میں ہمارا یہ دوست این ایس ایف میں رہا تھا۔ اور این ایس ایف کا مطلب تو ہم جانتے ہیں : ہلّا گلا، جلسہ جلوس ، مارشل لا مخالفت، ایکشن سے بھر پور۔۔۔
زکریا خان پہلے بنک میں نوکری کرتا تھا ۔ اب وہ کسی تعمیراتی کمپنی میں ملازمت سے روٹی روزی کماتا ہے ۔ ناشتہ کے علاوہ ہماری طرح ہی دو وقت کا کھانا کھاتا ہے ۔ مگر وہ کھانے سے قبل ہم لوگوں سے اضافی صورت میں انسولین کا انجکشن لگاتا ہے۔
آپ تصور کر سکتے ہیں کہ این ایس ایف سے وابستہ ایسے سرگرم آدمی نے لیفٹ اور ڈیموکریٹک لگنے والی کتنی سیاسی پارٹیاں پسند کی ہوں گی۔ ایک چمک دار پارٹی بھا جاتی ہے مگر جلدی اُس کی اصلیت معلوم ہونے پہ اُس کو تین طلاق دیتا ہوا دوسری پارٹی سے آنکھ مٹکا کرتا ہے ۔ اسے اپنی پسند کی آخری پارٹی جو ملی تھی اُس کا نام کمیونسٹ مزدور کسان پارٹی تھا۔ مگر پھر اُس کی آنتڑیاں بھی اس نے دیکھ لیں۔ اور اُدھر سے بھی خود کو پرے ہانک لیا۔ اب وہ رانا اظہر کے ساتھ ایک گروپ میں ہے جس کا نام ’’جنرل لیفٹ گروپ ‘‘ ہے ۔
یہ ورکر اُس علاقے میں ایک عرصہ سے ہمارے ماہنامہ سنگت کا سمجھو نمائندہ ہے۔ منگوائے گا، پڑھے گا، پڑھوائے گا، اور بحثیں ارینج کرے گا۔ یہ کمال کا شخص سنگت اکیڈمی کی کتابیں بھی ساری پڑھ چکا ہے ۔اور بہت سے لوگوں سے پڑھوا چکا ہے۔
ایک اور خاص بات یہ ہے کہ ذکریا نایاب تحریروں اورکتابوں کا گویا سٹور ہاؤس ہے۔ کہیں سے بھی تلاش کرکے ضرورت کی کتابیں مہیا کرنے والا مشکل کشا!۔ کوئی کتاب اگر کہیں سے بھی نہ ملے تو اُسے کہہ دو۔ وہ شور مچاتا ، کان کھاتا ، بورکرتا، بالآخر مہیا کردے گا۔ کہاں سے ؟۔ یہ منگوانے والے کا سر درد نہیں ہے ۔
اور کیا بہادر آدمی ہے وہ !۔یاد ہے ناں، جب عورتوں اور بچوں پر مشتمل بلوچوں کااس خطے کا سب سے طویل ، سب سے ناہمواراور سب سے تاریخی پیدل لانگ مارچ کوئٹہ سے کراچی اور کراچی سے اسلام آباد تک گیا ۔ یہ مجنون سیاسی ورکر اپنے ہمسفر شفیق بٹ کے ہمراہ یکجہتی کے بطور ہڑپہ جی ٹی روڈ پر سے ساہیوال تک پیدل اُن کے ساتھ مارچ کرتا رہا۔ اس نے رات کوانہیں رہائش مہیا کر کے سرکار کو ناراض کیا، اگلے دن فرزانہ مجید اور ما ما قدیر کے لیے ساہیوال میں پریس کانفرنس ارینج کیا۔ اور پھر ساہیوال سے اوکاڑہ اُن کے ساتھ یک جہتی میں سفر کیا۔ (ایسے پاک اور ہیرے لوگ ایک متشدد اور ناروا معاشرے اور آبادی کا سافٹ چہرہ ہوتے ہیں۔ زندہ باد ہوں ایسے لوگ۔
یہ کمٹڈسیاسی ورکر مکمل طور پر باشعور ہے ۔ اپنے حصے کا کام کیے جاتا ہے ، تنہا بھی اور گروپ کی صورت بھی۔ وہ اوکاڑہ کے رانا اظہر کا دست وبازو ہے، پاک پتن کے مسعودخالد صاحب کا کا مریڈ ہے اوراس علاقے کے ایک اور میٹھے انسان پروفیسر اورنگ زیب کاباعمل ساتھی ہے ۔
اب کے زکریا خان کو ساہیوال آرٹس کونسل کی طرف سے ادبی ثقافتی کانفرنس کے انعقاد کی بھنک پڑی تو اُس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ ، جھٹ سے اُن کی طرف سے خود مجھے دعوت دی ، اور خود ہی میری طرف سے شرکت کی ہاں کردی ۔ کانفرنس سے ایک ماہ قبل سے وہ تقریباًروزانہ اس سلسلے کے فون کال کرتا رہا۔ ہر شام ، بلانا ناغہ ۔
اسے سبز باغ دکھانے بھی خوب آتے ہیں ۔ چاکر کا مزار ست گرا( ست گڑھ ) ساہیوال میں ہے ۔ کچھ دن وہاں حاضری کو میرے لیے ویٹکن کی زیارت قرار دینے کے بعد جب اُسے اندازہ ہوا کہ میں بہت زیادہ پیر پرست یا دادا پرست نہیں ہوں۔ بلکہ ایسا قوم پرست بلوچ ہوں جسے بلوچوں کے خالص لوئر کلاسز سے پیارکی بیماری ہے تو اُس نے اِس چینل کو ذرا سا کم کردیا اور وہاں کی دو اور نسبتاً مضبوط کششوں کو مبالغہ کی حد تک ایکسپلائٹ کرنا شروع کردیا۔ ایک تو مہر گڑھ کا تسلسل یعنی ہڑپہ کا آثارِ قدیمہ ہے جس کا دیکھنا گویا میرے لیے فرض ہے ،اور دوسرا وہاں کی ایک بزرگ سیاسی ثقافتی شخصیت رانا محمد اظہر سے ملاقات کرنا۔
میرے اپنے لیے ایک تیسری وجہ بھی تھی۔ میں نے کانفرنس میں شرکت کا فیصلہ یہ سوچ کر بھی کیا کہ دیکھا جائے پنجاب کے زرعی علاقے کی طبقاتی ساخت اب کیا ہے ؟ وہاں زراعت میں پیداواری قوتوں ، آلاتِ پیداوار اور پیداواری رشتوں کی کیا صورت ہے ؟۔ مترقی قوتوں کی موضوعی صورت حال کیا ہے؟۔وہاں کے عوام کے مسائل کیا ہیں؟ اور وہاں کے دانشور کیا سوچتے ہیں۔
پتہ تھا کہ خرچہ خود کرنا پڑے گا۔ اس لیے کہ زکریا نے ماہر سیلز مین کی طرح بتلا دیا تھا کہ اگر آپ ٹرین سے آرہے ہیں تو ہم فلاں جگہ استقبال کریں گے اور اگر کار موٹر میں تو فلاں شہر رسیو کریں گے ۔
روانہ ہوا تو مقالہ اپنی کوٹ کی اندرونی جیب میں رکھا کہ راستے میں موقع ملا تو بلوچوں کے بقول اس کے نرمادہ (مذکر مونث) ٹھیک کرلوں گا۔ جہاز میں تو اتنا وقت نہ ملا البتہ لاہور ایئر پورٹ پر اترا تو ایئرپورٹ پر لینے والے دوست کا فون آیا کہ ’’ابھی نکلا ہوں اور بس راستے میں ہوں، ابھی ابھی پہنچتاہوں‘‘۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ بڑے شہروں کی واہیات ٹریفک میں ’’ابھی ابھی ‘‘ کا مطلب کم از کم گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ ہوتا ہے ۔ بڑے اور ناواقف شہر کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں لاہور کے طویل ایئرپورٹ کے ایک کونے میں لگی کرسیوں پر جا بیٹھا اوراپنے مقالہ کی سرخی پاؤڈر ذرا سی برابر کردی۔ اور مقالہ کوٹ کی اندرونی جیب میں رکھ دیا۔ چونکہ زکریاا اور ریاض ہمدانی کے بقول یہ ’’کلیدی ‘‘مقالہ تھا اس لیے ذرا سا بڑا ہوگیا تھا اور کوٹ کی اندرونی پھولی ہوئی جیب میں دور سے نظر آتا تھا۔ مجھے لینے کے لیے آنے والے ’’رضا صاحب‘‘ نے دیکھ لیا تو پوچھ ہی لیا کہ لگتا ہے آپ مقالے کا حلیہ ٹھیک کرتے رہے ہیں۔ (کوٹ اورمقالے کا بقیہ قصہ آگے)۔
شاہد رضا نامی یہ نوجوان شاعر و ادیب ہے اور کالجوں کے ایک چین کا مالک ہے۔ مگر خود یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹکنالوجی (UMT) میں انگلش پڑھاتا ہے ۔اُسی نے مجھے لاہور ایئرپورٹ سے لینا تھا۔ چونکہ میں اسے پہلے نہیں جانتا تھا اس لیے اس کا موبائل نمبر ’’ رضا لاہور ایئرپورٹ‘‘ کے نام سے سیوکیا۔ ملا تو اچھا لگا۔ہنس مکھ، ملن سار، اور پرخلوص ۔بعد میں میرے تخاطب میں وہ ہمیشہ ’’ ایئر پورٹ ‘‘ ہی رہا۔اور اب بھی اس کا فون نمبر اسی نام سے میرے موبائل پر محفوظ ہے۔
’’ایئرپورٹ‘‘ شاعری کرتا ہے ، مقالہ نگاری تو زیادہ نہیں کرتا البتہ سٹیج سیکریٹری گیری کے حصول کے لیے ساری آیت الکرسی پڑھ ڈالتا ہے ۔ اسی لیے تقریباً ہر ادبی محفل میں موجود ہوتا ہے ۔ اور فرنٹ سیٹ پہ بیٹھتا ہے اور شرطیہ طور پروہ دو خواتین کے درمیان بیٹھتا ہے ۔ اس معاملے میں وہ جسامت ونزاکت،کوئیل وزاغ آہنگی ، اور حسن و قباحت کے بیچ امتیازات سے بہت بلند ہوجاتا ہے ، ہر طرح کے کبر ،اورتکبر سے ماورانہیں۔
وہ ایک عجب گاڑی میں آیا ۔ اس کا ر نما گاڑی کا نام ’’ہونڈا ویزل ‘‘تھا۔جس کے گیٹ کھولنے والی جگہ عام کاروں والی نہ تھی ۔جب ہم عام کار کا دروازہ کھولتے ہیں تو سامنے دروازے کے درمیان میں ہینڈل لگا ہوتا ہے ۔ مگر اس کی کار کی یہ جگہ چھت کے قریب بنا ئی ہوئی تھی۔
ایک بہت زیادہ مشرع قسم کا اس کا دوست گاڑی چلا رہا تھا ۔اس کا نام ارشاد تھا۔ جب دیکھا کہ اس کے کان میں ہیڈفون لگا تھا جس میں مسلسل مولویوں کی تقریر ہورہی تھی تومیں واقعتادہشت میں آگیا ۔
ہم نے بینا گوئندی نامی ایک شاعر اور مقالہ نگار خاتون کو بھی لینا تھا جس کا گھر ڈی ایچ اے کے علاقے میں تھا۔ معلوم ہوا وہ بقول اس کے اپنے اپنی’’’شان‘‘ میں ضیا فت کھانے گئی ہوئی ہے اور دس پندرہ منٹ میں پہنچے گی۔ تو ہمارے مشر ع ڈرائیور (مالکِ کار) نے قریب کی مسجد تاڑلی اور عصر کی نماز پڑھنے گھس گیا۔
فارغ ہو کرہم پھربیناؔ گوئندی کے گھر کے سامنے گئے تو وہ ’’خاص طور پر‘‘ امریکہ سے آئی ہوئی خوش شکل خاتون (ایک بھاری بھرکم سوٹ کیس کے ساتھ )نمودار ہوئی۔ سوٹ کیس ڈکی میں اور وہ خود فرنٹ سیٹ پہ۔ چند منٹ میں ہی معلوم ہوا کہ یہ باصلاحیت اور پڑھی لکھی خاتون ہمیں زکریا خان نمبر دوکی صورت میں مل گئی۔ اتنی زیادہ باتیں!۔اور وہ تومختلف زبانوں کا آملیٹ بناتی جاتی ہے ، جن میں ‘‘You Know؟ ‘‘’’Yea‘‘ ’’ I Know ‘‘ جیسی امریکی انگلش کے پیازہوں گے ،نری پنجابی کے کٹے تھوڑے سے ٹماٹر ہوں گے اور عام ، عوامی اردو کے انڈے ۔
سرگودھا والی اس خاتون کا اصلی نام روبینہ نازلی (پیدائش 3جولائی1976) ہے ۔ وہ باٹنی میں ایم ایس سی ہے ۔ ’’چشمِ بینا‘‘ نام سے اخباری کالم لکھنے والی بینا نظر کی عینک لگاتی ہے پندرہ برس تک ’’اردو سائنس بورڈ‘‘ میں مقید رہی ۔ بنیاد پرست اور رجعتی حکمرانی میں سائنس بورڈ نے عربی لباس اور عربی سبزیوں پر ہی کتابیں تیار کرائی ہوں گی ناں!
شاعری کرتی ہے ۔ شاعری کے تین مجموعوں کی بلاشرکت غیرے مالکن ہے ۔ سفر ناموں کی چار کتابوں کی ملکیت رکھتی ہے ۔ بینا گوئندی فیس بک، ٹوئیٹر ، واٹس اپ وغیرہ کی طرح ہر جلسے مشاعرے اور فنکشن میں موجود ملے گی۔ دوستانہ انداز، میٹھے جسچرز والی، دو بچوں کی ماں جو اُس کے شوہر کے ساتھ امریکہ رہتے ہیں۔ شوہر ، جس نے امریکہ میں سامنے سے آنے والے ہرن کو بچانے کے بہانے اپنی کار کا ایکسیڈنٹ کردیا ۔مگر بیوی مری نہیں بس دونوں ٹانگیں تڑوا بیٹھی ۔ جس ملک میں روالپنڈی سازش کیس، اگر تلہ سازش کیس، لندن پلان، پشاور سازش کیس اور حیدرآباد سازش کیس بنتے ہوں تو اُس ملک کے گاڈ فادرامریکہ میں ’’ہرن سازش کیس‘‘ نہیں ہوسکتا ؟ ۔ہم راستے میں اُسے حادثہ سرزد ہونے کو خاوند کی طرف سے ’’بیوی مار سازش‘‘ کہہ کے خوب ستاتے رہے ۔ مگر اُس وقت چپ ہوئے جب وہ امریکہ میں اپنا خاوند اور بچے یاد آنے پر اشکبار ہوئی ۔ فائدہ ہوا کہ وہ جلد ہی ان سے ملنے امریکہ جانے کا پکا عہد باندھ چکی ۔
اُس کے آنے کی خوشی اس لیے ہوئی کہ کار موٹر کے اندر ’’ملّا گردی‘‘ کی فضا کچھ کم ہوگئی ۔عورت کی موجودگی ملّا کی فوتیدگی!! ۔مگر باہر لاہور ، بالخصوص اس کے عسکری علاقے کنٹونمنٹ کی دہشت کی فضا تو بہر حال موجود تھی۔ اپنی عددی اور مالی وسعت کی مطابقت میں غیر پیداواری قوتوں نے ہر جگہ وسیع وعریض رہائشی علاقے قائم کیے ہیں۔ سڑکوں کے نام ہی سے اسٹیبلشمنٹ کی ذہنی ساخت کا اندازہ ہوجاتا ہے ۔ عجم سے گلو خلاصی کے نشان ہر جگہ موجود تھے چنانچہ یہاں سارے روڈ ’’ شریف روڈ ‘‘تھے، سارے عربی ناموں والی سڑکیں عمارتیں ہیں۔ ایسا مصنوعی اور دکھاوا کرتا معاشرہ کہ بلڈنگز اور روڈز کے بورڈ دیکھیں تو لگے کہ جیسے اِس شہر و سرزمین پہ کوئی پنجابی کبھی رہائش پذیر رہا ہی نہ تھا۔
ایک گھنٹہ بعد کہیں جاکر ویسٹرن یورپ کی سہولتوں سے مزے لیتے ہم عرب زدہ لاہور سے باہر نکلے۔
اب کے ایک اور نوجوان بھی ہمارا ہمسفر بن چکا تھا، اِشفاق جو کہ کار مالک ارشاد کا ذاتی دوست اور کاروبار میں ’’پیربھائی‘‘ تھا۔ یہ دونوں رئیل سٹیٹ کا کاروبار کرتے ہیں۔ اور وہ بھی ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی میں ۔ راستے میں لاہور کے مضافات میں اصل لاہور سے بھی بڑی ایک دوسرا DHAاور اس کی جگ مگ دیکھی تو انداز ہوا کہ نواز شریف نے کس بلاکے سامنے گردن اکڑانے کی گستاخی کی۔ اُسے سسٹم بچانے کے لیے تن من دھن لگا دینے کی حامل قوت کا سامنا تھا۔
دورانِ سفر گفتگو میں اندازہ ہوا کہ ارشاد صاحب اتنا ملّا بھی نہیں ہے ۔وہ پنجاب کے تعلیم یافتہ مڈل کلاس کا بہترین نمونہ تھا۔ دنیاوی مزے بھی لینے اور مولوی گیری بھی ہاتھ سے نہ جانے دینی ۔ ہاں ہاں، بالکل ۔وہ اب تو لطیفوں پر باقاعدہ مسکرا بھی رہا تھا۔ گاڑی جب عام آدمیوں سے بھری ہو تو ایک انسان اپنی انسانیت دیر تک نہیں چھپا سکتا ۔ چنانچہ ہم وہ تمام باتیں کرتے رہے جو ایک معزز خاتون کی موجودگی میں ہوسکتی تھیں۔
پھر مجھے اندازہ ہوا کہ وہ تو پاکستان کی سیاست میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اِن دونوں دوستوں نے اپنے بزنس کے بارے میں ، اُس کے بجٹ کے بارے میں ، اُس کی وجہ سے نرخوں اور کرنسی مارکیٹ کے بارے میں اور نتیجتاً ان سب امور سے ابھرنے والی سیاست کے بارے میں باتیں کیں تو اندازہ ہوا کہ پاکستان میں فیوڈل لباس میں ملبوس کپٹل ازم کی جڑیں کتنی گہری ہیں۔ اور ابھی کتنے ڈیمو کریٹوں کے گردن ناپے جانے باقی ہیں۔ڈیموکریٹ خواہ بھٹوئی نعرہ بازہوں یا ’’ اپڑاں ‘‘ نواز شریف ہو۔ فیوڈل بنیاد پرست منٹیلٹی کے لیے سب ایک ہوتے ہیں۔ DHA پاکستانی سیاست کا بیرو میٹر بھی ہے ،تھر مامیٹر بھی اور سپیڈو میٹر بھی۔
ہم لاہور کے مضافات میں تھے کہ اسی اثنا میں ایک اور نماز کا وقت آیا اور ہم ملک ریاض کی مشہورِ زمانہ مسجد میں تھے جس کا نام شاید ’’بحریہ ٹاؤن گرینڈ جامع مسجد ‘‘ ہے ۔ 70ہزار لوگوں کی گنجائش والی یہ مسجد کمال کے آر کی ٹیکچر سے بنی ہے ۔ اندر فوارے ہیں پارک ہے ، قمقمے ہیں، 21گنبد ہیں۔ 4مینار ہیں، بیرونی حصہ پر چالیس لاکھ ہاتھ سے بنی ملتانی ٹائلیں لگی ہیں،اندر قالینیں ترکی سے در آمد کردہ ہیں۔کمال بات یہ ہے کہ ٹورسٹوں کی تعداد نمازیوں کے برابر تھی۔ بالخصوص نئی شادی شدہ خواتین ’’کیمرہ کُرو‘‘کے ساتھ جا بجا دولہا کے ساتھ فوٹو گرافی کرتی نظر آئیں۔
چار ارب روپے سے بنی اس مسجد کا افتتاح آصف زرداری نے کیا تھا۔ مسجد، آصف زرداری اور ملک ریاض!!
اندھیرا ہوگیا تھا اور ہمارے دوست راستے سے زیادہ واقف نہ تھے۔ مگر اب سائنس کی برکت سے راستوں سے واقفیت نا واقفیت کوئی مسئلہ نہ رہا۔ نہ راستہ گم ہونے کا ڈر ، اور نہ ہی رک رک کر لوگوں سے منزل پوچھنے کی ضرورت ساہیوال فلاں گلی، فلاں گھروالی منزل بتا کر ۔ ہوا یوں کہ ایک دوست نے اپنے موبائل فون کو راستے کی رہنمائی کرنے کا حکم دیا ۔ اورپھر کیا تھا : موبائل ہمیں بتاتا جاتا تھا کہ ہم کہاں ہیں، ہمیں کتنے سو میٹر بعد کس طرف مڑنا ہے ۔ ایسا راہنما جیسے بلوچی کلاسیک میں شہ مرید بھٹکے ہو ؤں کو راہ دکھاتا ہے ۔
ہم انسانی موضوعات پہ گفتگو کرتے رہے ۔ میٹھے ہمسفروں کی موجودگی میں سفر کا پتہ ہی نہیں چلتا ۔ ہم ساہیوال کی جانب آخری پل پر پہنچے تو آرٹس کونسل کے سربراہ ریاض نے فون پر ’’ایئرپورٹ کو وہیں رکنے حکم دیا:’’عظیم لوگوں کے استقبال کے لیے خود آؤں گا‘‘۔تب ایک کار آئی۔ اشارے کرتے ہوئے شوں سے آگے گزری ۔ ہم پیچھے پیچھے چل پڑے۔ شہر کی گدھا گاڑیوں، ریڑھیوں اور ٹریفک سے اٹھکیلیاں کرتے ہم بالآخر ایک بڑے بنگلے کے چوکیداروں کے پہلے سے کھولے گیٹ میں داخل ہوئے۔