دسمبر2018ء

سنگت اکیڈمی آف سائنسز کی ماہانہ فکری و ادبی نشست پوہ و زانت کا اجلاس اتوار 30دسمبر کی صبح پروفیشنل اکیڈمی میں منعقد ہوا۔ یہ نشست خصوصاً برصغیر کے نامور ترقی پسند رہنما امین کھوسو اور کاکا جی صنوبر کی یاد میں منعقد کی گئی تھی۔ اجلاس میں اسی حوالے سے مضامین پیش ہوئے اور گفت گو کی گئی۔ اجلاس کی صدارت سنگت اکیڈمی کے سینئر رکن ڈاکٹر منیر رئیسانی نے کی۔ نظامت کے فرائض سیکریٹری پوہ و زانت ڈاکٹر عطااللہ بزنجو نے سرانجام دیے۔ ڈاکٹر عطااللہ نے نشست کا آغاز امین کھوسو کے تعارف سے کیا۔ انہوں نے ان کی پیدائش ، تعلیم ، علمی سماجی سیاسی سرگرمیوں کا مختصر تذکرہ کیا۔ اس کے بعد عابدمیر کو دعوت دی گئی کہ وہ جھٹ پٹ میں آل بلوچستان کانفرنس کے زیراہتمام امین کھوسو پر منعقد ہونے والی کانفرنس کی رپورٹ پیش کریں۔
عابد میر نے اپنی رپورٹ میں آل بلوچستان کانفرنس(اے بی سی) کی تشکیل کا مختصر پس منظر بتایا۔ سنگت اکیڈمی کے رکن محمد نواز کھوسو اس ادارے کے مرکزی آرگنائیزر ہیں۔ ان کی درخواست پر سنگت اکیڈمی کی جانب سے ڈپٹی سیکریٹری پروفیسر جاوید اختر اور راقم الحروف اس تقریب میں شریک ہوئے۔ یہ اس علاقے میں اپنی نوعیت کا اولین و منفرد سیمینار تھا۔ جس میں سماجی سیاسی ورکرز سمیت، اساتذہ، صحافی و مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ بیس کے قریب مقررین تھے۔ جنہوں نے کامریڈ امین کھوسو کی شخصیت اور زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ اس تقریب کی صدارت معروف ترقی پسند رہنما صوفی عبدالخالق بلوچ نے کی۔ مقررین نے امین کھوسو کو اس خطے کا اولین ترقی پسند جمہوری سیاسی رہنما قرار دیا، جو یوسف عزیز مگسی کے قافلے کے سب سے مستعد سپاہی تھے۔ انہوں نے کہا کہ آج ایک بار پھر امین کھوسو کی روایت کی پیروی کرنا لازم ہو چکا ہے۔ کانفرنس کے آخر میں آل انڈیا بلوچ اینڈ بلوچستان کانفرنس کے اکابرین کی جدوجہد نیز ہاریوں کے حوالے سے قراردادیں بھی منظور کی گئیں۔
اس کے بعد محمد نواز کھوسو نے امین کھوسو کی زندگی پر اپنا مضمون بلوچی میں پیش کیا۔ انہوں نے امین کھوسو کی پیدائش سے لے کر ان کی تعلیمی ، سماجی و سیاسی زندگی کا جامع جائزہ پیش کیا۔ انہوں نے بتایا کہ امین کھوسو اس خطے میں کمیونسٹ پارٹی کی بنیادرکھنے والے اولین رہنما تھے۔ عمر بھر نظریاتی سیاست سے وابستہ رہے اور اسی کی ترویج کرتے رہے۔
کانفرنس میں منظور کی گئی کچھ قراردادیں حمیدہ تاجک نے منظور کرائیں۔
اگلے مقرر پروفیسر جاوید ختر تھے جنہوں نے کامریڈ امین کھوسو پہ لکھا گیا اپنا مضمون پڑھا۔ انہوں نے امین کھوسو کی عملی زندگی کو موضوعِ بحث بنایا اور کہا کہ امین کھوسو ایک عملی انسان تھے جنہوں نے اپنے نظریے کو عمل سے جوڑا اور عملی سیاست سے اسے ثابت بھی کیا۔ وہ اپنے وقت میں خطے کے چوٹی کے سیاست دان سمجھے جاتے تھے۔ ان کا یہ کردار ان کی وفات یعنی ستر کی دہائی تک نمایاں رہا۔
ان کے بعد ڈاکٹر شاہ محمد مری نے کاکا جی صنوبر حسین پر اپنا مضمون پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم ایک ایسے آدمی کو یادکرنے جمع ہوئے ہیں جس سے ہمارا خونی یا وطنی رشتہ نہیں، مگر ان سے بھی بالاتر اور اٹوٹ رشتہ ہے اور وہ رشتہ نظریے کا ہے۔ کاکا جی صنوبر حسین خود بھی عمر بھر نظریاتی سیاست سے وابستہ رہے اور اسی کی ترویج کرتے رہے۔ ہم خوش نصیب لوگ ہیں کہ ایسے حق پرست اور حق گو انسانوں کے قافلے کا حصہ ہیں۔
سنگت پوہ و زانت کی بقیہ قراردادیں وحید زہیرنے پیش کیں۔ جنہیں متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔تقریب میں پیش کی گئی اور منظور کی گئی۔
اس دوران ڈاکٹر عطااللہ بزنجو، یوسف عزیز مگسی اورعطا شاد کے کلام سے سامعین کے دلوں کو گرماتے رہے۔ تقریب کا اختتام انہوں نے ساحر لدھیانوی کی معروف نظم ’وہ صبح ہمی سے آئے گی‘ سے کیا۔
چائے کے وقفے تک سامعین کے اصرار پر شاہ محمود شکیب نے اپنا فارسی اورڈاکٹر بیرم غوری نے تازہ اردو کلام سنایا۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے