پہلا پتھر، پہلا سنگِ میل کتنا اہم ہوتا ہے،اس کا اندازہ شاید آپ تبھی کر سکیں جب کسی عمارت کے سنگِ بنیاد میں شامل رہے ہوں۔ ایک ایسا ہی سنگِ بنیاد 9اگست 2018ء کو اس وقت رکھا گیا جب کامریڈ نواز کھوسو نے کوئٹہ میں اپنی رہائش گاہ پہ شہید نذیرعباسی کی برسی پر انہیں یاد کرنے کا اہتمام کیا۔ وہاں جو چند احباب جمع ہوئے، انہوں نے نذیر کو یاد کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے سیاسی تجربات شیئرکیے اور باہم اس نتیجے پر پہنچے کہ بلوچستان میں ایک زبردست سیاسی خلا پیدا ہو چکا ہے۔ ایک انقلابی عوامی سیاسی جماعت کی عدم موجودگی کا ایک بڑا سبب شاید اس بنیاد کو بھلا دینا بھی ہے جو 1920اور1930ء کی دہائی میں اس خطے کے اکابرین نے خشتِ اول کی صورت ہمیں مہیا کی تھی۔ تو کیوں نہ، اسی کی بازیافت سے نیا سفر آغاز کیا جائے۔
یوںآل انڈیا بلوچ اینڈ بلوچستان کانفرنس کی نئی صورت ’آل بلوچستان کانفرنس‘ (اے بی سی) کی شکل میں ظہور پذیر ہوئی۔ اس محفل کے ہمارے سینئر ترین بزرگ صوفی عبدالخالق بلوچ اس سرپرست قرار پائے،کامریڈ نواز کھوسوآرگنائیزر، اور باقی تمام شرکائے محفل اس کے بنیادی رکن ہوئے۔طے یہ پایا کہ آل انڈیا بلوچ اینڈ بلوچستان کانفرنس کے تمام اکابرین کو یاد کیا جائے گا، ان کے حوالے سے خصوصی تقاریب ہوں گی، ان کے افکار کو پھیلایا جائے گا اور عوامی سیاسی بیداری مہم چلائی جائے گی۔ ہر تین ماہ بعد ہم مل بیٹھیں گے۔ تین ماہ بعد دسمبر میں مذکورہ کانفرنس کے بڑے رہنما محمد امین کھوسہ کی برسی اور سالگرہ (پانچ دسمبر برسی، گیارہ دسمبر سالگرہ) کے دن آ رہے ہیں، تو اسی دوران ان کے حوالے سے ایک تقریب کا اہتمام جھٹ پٹ میں کیا جائے گا۔
دسمبر آ پہنچا۔2دسمبر کو ہونے والے سنگت پوہ و زانت میں کامریڈ نواز کھوسہ نے اعلان کر دیا کہ امین کھوسہ پر تقریب آئندہ کسی اتوار کو ہونی ہے، سنگت اکیڈمی کے دوست وفد کی صورت شرکت کریں ،ہم اپنی تیاریوں کا آغاز کرتے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کا فائدہ یہ ہوا ہے کہ رابطوں کی سہولت توہو گئی ہے،مگر ہماری نسل ایسی سہولت پسند بھی ہو گئی ہے کہ اس ٹیکنالوجیکل رابطوں میں بھی سست روی کا شکار رہتی ہے۔ ہم نے دوستوں کے درمیان رابطہ کاری کے لیے اے بی سی کا ایک واٹس اپ گروپ تشکیل دیا تاکہ دوستوں کا رابطہ رہے اور پروگرام کی تشکیل میں سہولت ہو۔ جھٹ پٹ کے دوستوں نے ہفتہ 8دسمبر کی تجویز دی۔ کوئٹہ کے دوستوں نے جسے اپنی سہولت کے پیش نظر آئندہ ہفتے یعنی15دسمبر کی فرمائش کی، جسے جھٹ پٹ انتظامیہ نے بلا چوں و چراں قبول کر لیا۔
جھٹ پٹ ، موجودہ ڈیرہ اللہ یار ضلع جعفرآباد کا صدرمقام بھی ہے اور سندھ بلوچستان کے سنگم پر واقع بلوچستان کا آخری ضلع بھی۔ گردو نواح کی کثیر دیہی آبادی کی مائیگریشن اورملک بھر کو ملانے والی مرکزی شاہراہ پرواقع ہونے کے باعث اس نے تیزی سے شہری صورت اختیار تو کی مگر اس کے شہری اب بھی خالص دیہی مزاج کے حامل ہیں؛ سادگی اور خلوص کا پیکر۔
پوسٹر بنے، بینر بنے، کارڈ بنے، یہاں تقسیم ہوئے، وہاں تقسیم ہوئے۔ راقم الحروف اور سنگت اکیڈمی کے ڈپٹی سیکریٹری پروفیسر جاوید اختر پر مشتمل کوئٹہ کا وفد تھا۔ہم نے صبح سویرے آٹھ بجے یہاں سے رخصتی کا قصد باندھا، دوستوں کے لیے ’سوکھڑی‘ کے بطور سنگت اکیڈمی کی دو درجن کتابوں کا تھیلا اٹھایا۔ نو بجے سے کوئی دس منٹ پہلے ہم کوئٹہ کو الوداع کر گئے۔
ضلع کونسل جھٹ پٹ کے ہال میں داخل ہوتے ہی مغربی جانب سامنے سجا سجایا اسٹیج اور اس پہ ایک بڑا سا پینا فلیکس، ’’مفکر عوام، رہبر عوام، امین کھوسہ یادگاری تقریب: مضامین، مشاعرہ، موسیقی‘‘ دیکھ کر جی خوش ہوا۔ دوستوں نے سٹیج کی ذمہ داری مجھے سونپی۔ پونے تین بجے ہمیں بسم اللہ کرنے کا حکم ہوا۔
زباں پہ خدا کا نام اور ہاتھ میں یوسف عزیزکا کلام لے کر ہم نے سٹیج سنبھالا۔ خدا کے کلام سے آغاز کرنے کو حافظ قادر بخش کو دعوت دی۔ یہ بابرکت کام ہو چکا، تو مختصراً اے بی سی کا تعارف بتایا اور شرکا کا شکریہ ادا کر کے اپنے خاص مہمانوں کو سٹیج کی دعوت دی۔صدارت صوفی عبدالخالق بلوچ ، مہمانِ خاص سنگت اکیڈمی کے رہنما پروفیسر جاوید اختر اور اعزازی مہمان کے لیے مقامی سیاسی رہنما عبدالرسول بلوچ کا نام تھا۔ مگر عبدالرسول بلوچ نے اپنی نشست دیوان کے ایک اور سفید ریش بزرگ سائیں اختر علی شاہ صاحب کے حوالے کی۔ اس پہ ہم سب نے انہیں سراہا اور بتایا کہ یہی ہمارے بزرگوں کا وطیرہ رہا ہے، یہی ان کا سبق ہے، خوشی ہے کہ ہمارے سیاسی کارکن اب تک رواداری کا یہ سبق بھولے نہیں۔
ہم نے کاروائی کا باقاعدہ آغاز امین کھوسو کے یارِ غار یوسف عزیز مگسی کے کلام سے کیا۔ پہلے مقرر کامریڈ رفیق کھوسو تھے۔ان کے ذمے اے بی سی کا تعارف اور سپاس نامہ تھا۔ سو، انہوں نے مختصراً اس نوخیز پلیٹ فارم کے تشکیل پانے کا پس منظر بتایا، اس کے اغراض ومقاصد بیان کیے، تمام مہمانوں اور شرکا کا شکریہ ادا کیا۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ تقریب کے لیے ضلع کونسل ہال کی فراہمی کے سلسلے میں وہ جب ڈپٹی کمشنر کے پاس گئے تو امین کھوسو کا تعارف سن کر وہ متامل ہوئے اور کہا کہ میرے فرائض منصبی کا تقاضا تو یہی ہے کہ ایسی شخصیت کے لیے سرکاری ہال کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔کامریڈ نے ان سے کہا، آپ درست کہتے ہیں کہ اس ملک میں جرنیلوں ، انگریزوں کے باجگزاروں ، اور مقتدرہ کے کاسہ لیسوں کی تقریبات ہی منائی جا سکتی ہیں، لیکن ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ امین کھوسو کو یاد کرنا، آپ کے لیے اور آپ کے آقاؤں کے لیے کسی مشکل کا باعث نہیں بنے گا۔
ہمارے اگلے مقرر بھاگ سے آئے ہوئے رفیق مغیری تھے۔’’اے ناموسِ ازل کے امین‘‘۔
نواز کھوسو نے اپنا مقالہ بلوچی میں پیش کیا، جس میں انہوں نے امین کھوسو کے حالاتِ زندگی اور افکار کا نچوڑ پیش کر دیا۔
بھاگ سے آئے ہوئے متحرک سیاسی ورکر ٹکری میراں بخش المعروف میران بلوچ نے اپنی مختصر گفتگو میں محمد امین کھوسو کو خراجِ عقیدت پیش کیا ۔
استاد گل مستوئی ایک نسل کے سیاسی استاد رہے ہیں۔ اپنا پورا گھرانہ انہوں نے سرخ سیاست کی نذرکر دیا۔ وہ جیکب آباد سے اس تقریب کے لیے آئے تھے۔انہوں نے سرائیکی میں فی البدیہہ ایک زبردست پرجوش تقریر کی۔ سوویت انقلاب سے شروع کر کے، امین کھوسہ کی ہاری تحریک کو سات آٹھ منٹ میں خلاصے کے ساتھ بیان کر دیا۔
استاد مومن نے ہمیں اس خطے کی ایک اور شخصیت کی یاد دلائی اور بتایا کہ سائیں عزیز اللہ امین کھوسو کے ساتھیوں میں رہا ہے، اب اسے یاد کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ ہم نے ان سے اتفاق کیا اور اس کی حامی بھری۔
لعل محمد شاہین نے مختصراً امین کھوسو کی تعریف کی، انہیں اپنا رہنما کہا، اوریہ کہہ کر اجازت لی کہ آج جتنا ان کے بارے میں سنا، اس سے ان سے اور بھی اپنائیت محسوس ہورہی ہے۔
جیکب آباد سے آئے ہوئے ایک اور استاد ، انتظار حسین چھلگری تھے۔ انہوں نے سندھی میں تقریر کی اور خصوصاً جی ایم سید اور امین کھوسو کی تعلق داری پہ بات کی کہ تین ہزار صفحات پر مشتمل پانچ سو سے زائد امین کھوسو کے خطوط جی ایم سید کے نام ہیں، جو ان کی جلاوطنی کے دوران لکھے گئے، جن کی اہم بات یہ ہے کہ وہ سخت سے سخت بات بھی کہہ دیتے اور سید انہیں اتنی ہی تکریم دیتے۔
بی این پی کے مقامی رہنما احسان کھوسہ نے بھی مختصراً امین کھوسو کی فکر کو اپنے لیے رہنما قرار دیا اور کہا کہ آج ان کے متعلق اس قدر تفصیل سے سن کر بہت کچھ نیا سیکھنے کو ملا۔
خادم حسین لاشاری نے امین کھوسو اور ان کے دوستوں کی سیاست اور نظریات کو یاد کیا اور پھر کہا کہ آج صورت حال یہ ہے کہ راتوں رات پارٹیاں بنتی ہیں، راتوں رات الیکشن جیتتی ہیں اور راتوں رات حکومت بنا لیتی ہیں۔ ایسی جعلی سیاست کا قلعہ قمع کرنے کے لیے بھی امین کھوسو اور ان کے دوستوں کی سیاست کو جاننا اور اسے اپنانا لازم ہے۔
سندھی کے ادیب و دانش ور سکندر بختیار کھوسو نے تان یہاں سے اٹھائی کہ ہمارے خطے میں تین کھوسہ بلوچوں نے گہرے نقوش چھوڑے ہیں ۔ ایک سندھ کا پہلا ایدھی، جہان خان کھوسہ۔ دوسرے عوامی شخصیت، نبی بخش خان کھوسہ، اور ان سب سے اوپر محمد امین کھوسہ۔ ۔۔۔
سندھ سے تشریف لائے سینئر شاعر شبیر احمدموج امین کھوسہ کی فیملی سے قربت رکھتے ہیں۔ وہ ایک زبردست مقالہ لکھ کر لائے تھے۔ جو طوالت کے باعث انہیں مختصر کرنا پڑا۔ مگر اپنے موضوع سے انہوں نے بھرپور انصاف کیا۔
جیکب آباد کے پروفیسر الطاف پیچوہو نے بھی تقریر کی۔
نیشنل پارٹی کے رہنما عبدالرسول بلوچ نے خالص مکرانی لہجے میں بلوچی میں تقریر کی۔ اور امین کھوسو کا تذکرہ کر کے فوراً حالات حاضرہ پر آ گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ آج ملک میں عملاً مارشل لا ہے، لکھنے والے بھی آقاؤں کے اشاروں پر لکھ رہے ہیں، ایسے میں سیاست اور ادب میں امین کھوسو کی سنت کی پیروی لازم ہو گئی ہے۔
ڈاکٹر شاہ محمد مری کا پیغام پڑھ کر سنانے کو نوجوان عبدالحکیم بلوچ تشریف لائے۔ ڈاکٹر مری کا کہنا تھا کہ جھٹ پٹ نے کئی واقعات دیکھے ہوں گے، لیکن آج کی تقریب کا واقعہ تاریخی اور اہم ترین ہو گا۔ امین کھوسو کو یاد کر کے آج جھٹ پٹ نے اس قافلے کی رہنمائی کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لی ہے، ہم اس رہنمائی کو تسلیم کرتے ہیں اور اس کے پیچھے چلنے کو اپنی سعادت سمجھیں گے۔
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا پیغام ، حمیدہ بلوچ کو پڑھنے کی دعوت دی گئی۔ انہوں نے اپنے پیغام میں اس کانفرنس کے انعقاد پر ساتھیوں کو مبارک باد پیش کی اور ان کی کاوشوں کا سراہا۔ انہوں نے امین کھوسو اورتمام اکابرین کے پیغام پر عمل پیرا ہونے کے عزم کا اعادہ کیا۔
سینئر سیاسی ورکر اختر علی شاہ نے سامعین کی تھکاوٹ کا اندازہ لگاتے ہوئے ان کی ہمت کو مزید امتحان میں نہ ڈالا اور اپنا لکھا ہوا مضمون اختصار کے ساتھ پیش کیا، جس میں امین کھوسو کی زندگی اور افکار پر روشنی ڈالی گئی تھی۔
پروفیسر جاوید اختر کو دعوت دی گئی تو انہوں نے بھی یہ کہہ کر اپنا مضمون مختصر کر دیا کہ مجھ سے پہلے مقررین وہ تمام باتیں کر چکے جو میں نے لکھی تھیں، البتہ ان کے مضمون کا اختتامیہ نہایت دلچسپ، منفرد اور شاندار رہا، جسے سامعین نے پسند کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ امین کھوسو قومی طبقاتی سوال کو ساتھ لے کر چلے اور عملی سیاست کی ۔
صوفی عبدالخالق نے اپنے زمانے کی سیاست یادکی اور اعتراف کیا کہ ہمیں اگر سیاست کے دو چار حرف آتے ہیں تو یہ انہی اکابرین کی دین ہے، خوشی یہ ہے کہ آج انہیں یاد کیا جا رہا ہے جو اس خطے کی تاریخ میں پہلی بار ہو رہا ہے۔ یہ اس بات کا اعلان ہے کہ جو دوسروں کے لیے جیتے ہیں، وہ لاوارث نہیں رہتے، وہ امر ہو جاتے ہیں۔
شعری حصے کے لیے چند نوجوان تشریف لائے تھے، سو ہم نے سامعین سے انہیں سننے کی درخواست کی۔ جلال الدین جانی اور سنگار علی نے اردو میں، قادر بخش خاکی نے سندھی اور رفیق مغیری نے بلوچی کلام پیش کیا۔ رفیق مغیری نے ترنم کے ساتھ اپنی نظم سنائی ۔
کوئٹہ سے لائی سنگت اکیڈمی کی کتابیں مہمانوں میں تقسیم کیں، اور شام ڈھلے میزبانوں کے ساتھ وہیں ایک قریبی رہائش گاہ پہنچے۔
کوئٹہ جیسے ادبی، ثقافتی و سیاسی شہری مرکز میں کسی نظریاتی تقریب کا انعقاد کس قدر جان جوکھم کا کام ہے، اس کا اندازہ سنگت کی تقاریب منعقد کرنے والے احباب کو اچھی طرح ہے۔ سو، کسی قسم کی ادبی، ثقافتی و سیاسی سرگرمیوں اور شعور سے محروم جھٹ پٹ نامی قصبے میں کامریڈ امین کھوسہ کا یاد کیا جانا ایک غیرمعمولی واقعہ تھا، اور اس پہ کانفرنس کا انعقاد کرنا، دس لوگوں سے مضامین لکھوانا، اتنی ہی تقریریں کروانا، ستر اَسی سنجیدہ سامعین جمع کرناایک کٹھن مرحلہ تھاِ جسے ہماری نظریاتی کارکن ساتھیوں نے دس، پندرہ دن کی مسلسل کاوشوں سے ممکن بنایا۔تقریب کے منتظمین میں سے کامریڈ نواز کھوسو کوئٹہ میں رہتے ہیں اور کولپور میں ایک کمپنی میں ملازمت کرتے ہیں۔ یہاں سے وہ ایک ہفتہ رخصت لے کر جھٹ پٹ میں دن رات اس کام کے لیے جتے رہے۔ کامریڈ رفیق کھوسو کا گاؤں جھٹ پٹ سے پندرہ بیس کلو میٹر دور ہے، وہ اپنے سارے کام دھندے چھوڑ کر اس تقریب کے اہتمام میں لگے رہے۔ ان کے کزن سلام کھوسو ، اپنی ان کے انتظام و انصرام میں ہاتھ بٹاتے رہے۔ نواز کھوسو کے نوجوان بھائی اور کزن بھی انتظامیہ کے کل وقتی کارکن تھے۔ ہمارے ان سیاسی ورکر دوستوں نے ہاتھ سے لکھے ہوئے نصف درجن بینر الگ سے بنوائے اور شہر بھر میں آویزاں کیے۔ شہر کے مرکزی چوکوں پہ ہاتھ سے لکھے ہوئے چارٹ اور پوسٹر بھی چسپاں کیے۔ ہم سب جو گرم کمبلوں اور ہیٹر کے سامنے بیٹھے سوشل میڈیا کی اسکرولنگ سے لطف اندوز ہوتے ہیں، اندازہ ہی نہیں لگا سکتے اس محنت، ذلت اور تحقیر کا جو ایسے مشن کی تکمیل میں درپیش آتی ہے۔
رات گئے وہیں ہم نے اے بی سی کا غیر رسمی اجلاس بھی کر لیا۔ جس میں اس تقریب کی اہم خامی طلبا کی عدم شرکت قرار پائی، جسے آئندہ ملحوظ رکھنے کا عزم کیا گیا۔ آئندہ لائحہ عمل میں طے پایا کہ22دسمبر کو نصیرآباد میں شہدائے پٹ فیڈر کی یاد میں ہونے والی کسان کانفرنس میں بھرپور شرکت کی جائے گی، اور ’سنگت‘میں اشاعت کے لیے اس کی تفصیلی رپورٹنگ کی جائے گی۔ اس کے بعد دسمبر کے آخر میں علاقے کی معروف ترقی پسند سیاسی شخصیت ٹریڈ یونین لیڈر ماما خیر بخش بلوچ کی برسی منائی جائے گی۔(اُن کی صاحبزدای بھی تقریب میں شریک ہوئیں۔
جھٹ پٹ سے روانہ ہوئے تو ہمارا پہلا خیال یہ تھا کہ دوستوں کی محنت اور محبت دیکھ کر یہ یقین اور پختہ ہوا کہ نظریے سے بڑا کوئی تعلق نہیں، اور تعلق داری ناپنے کو عمل سے بڑی کوئی کسوٹی نہیں۔