زندگی کے کچھ سفر، کچھ ملا قاتیں، کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں جیسے کسی درخت کے تنے پرکھدے ہوئے نام۔ وقت کی موج کا انجانا ہاتھ موج میں آکے ہماری ہریالی کا شریک کردیتا ہے کسی نام یا کسی ملا قات کو اورپھروجودمیں سانس لیتا وہ لمحہ اپنے جڑسے اکھڑنے تک دھڑکتا رہتا ہے ۔ہم میں اورنئی سانسیں عطا کرتا رہتا ہے۔
یہ سفرجس نے مجھے گلنازسے ملوایا کچھ ایسا ہی تھا۔ گلنازہوبہواپنی نظموں جیسی ہوگی میں نے یہ کب سوچا تھا۔ گلناز کی نظمیں پڑھتے ہوئے سوچا کرتی تھی کتنے صحرا، کتنے باغات کتنے جھرنے کیسی کیسی شادابیاں اور ویرانیاں ہیں اس لڑکی کے وجود میں۔ نظموں کے وہ باغات جہاں تتلیاں بسیرا کرتی ہیں۔ جن میں لا ئی لیک کی کا سنی خوشبوکے کھیتوں کی مست مہک تھی، نارنجی رنگ اس کے لفظوں سے چھلک چھلک جاتا، لیکن پھراچانک ہی نظم کوئی نیا موڑ لیتی اور جیسے کسی صحرا کی ریت سب ملیا میٹ بھی کردیتی اور نظم میں لوہ کے جھکڑچلنے لگتے۔ یہ کھیت کھلیان سی،رنگ و خوشبوسی ، کسی شکستہ عمارت سی جو شا عری یا جو نظمیں تھیں انہوں نے اس سے ملنے کے شوق کو آ رزو بنا دیا تھا۔ ملاقات ہوئی اورادھرادھرپڑھنے کے بجائے دھیان سے پڑھا اس نظم کوجوگلنازکے نام سے جانی جاتی ہے۔
میں نے گلنازکے ساتھ تین دن گزارے اورتین دنوں میں وہ بھی جانا جواس نے بتا یا اوروہ بھی جواس نے نہیں بتا یا۔
اس نے نہیں بتا یا کہ وہ کن کٹھن راستوں سے گزرکے اس مقام پرپہنچی ہے جہاں پہنچ کے انسان اپنے اندرجڑیں پکڑلیتا ہے یہ جڑیں اس کو اس طرح تھام لیتی ہیں ایسا جھماٹ پیڑجیسا کردیتی ہیں کہ ارد گرد کی سردمہری،کانا پھوسی، الزام تراشیوں کے بے لحاظ موسم اس کا کچھ نہیں بگاڑپاتے۔ اب وہ ایک عجب بے خودی اوربے نیازی کے عا لم میں دنیا والوں کی تمام چالاک تراکیب اورمشاق پھندوں سے بے نیازانہ گزرجاتی ہے۔ میں نے جانا کہ گلنازمحبت عبادت کی طرح کرتی ہے۔ شام تھی اورہم تین دوست۔ میں، گلنازاورحسین عابد۔ گلنازنے اندھیراہوتے ہی بہت سی شمعیں گھرکے کونے کونے میں روشن کیں ایک میزپربہت سی شمعوں کے ساتھ اگرکی بتیاں جلائیں۔ تازہ گلاب میرااستقبال پہلے نشست گاہ میں اورپھرخواب گاہ میں کرچکے تھے۔ انکی مہک سے سرشارکمرہ گلناز کے اندرمہکتی سوچوں کی داستان دھیمے لہجے میں دیرتک سنا تا رہا تھا۔ مگراس دن محبتوں کے حضوراس کے الگ انداز سے نذرانے گزارنے کاسلیقہ مہکتی ہوئی اگرکی بتیوں کے نرم دھوئیں سے سحرہونے تک بنا تا رہا۔ میں نے دیکھا کہ ہنستی کھلکھلاتی اقرا ( گلناز کی بیٹی ) نے بڑی گھمبیر سمجھ داری سے گلنازکواپنے معصوم بچی جیسے قہقہوں میں ایک ماں کی طرح پناہ میں لیا ہوا ہے ورنہ جب وہ اپنی انگریزی کی نظمیں سنا تی ہے تواپنی حساسیت سے حیران کردیتی ہے۔ ان دونوں کے بہت بے تکلفی کے گہرے دوستوں جیسے رشتہ میں گلنازکی اس شخصیت اورتربیت کا جوماں ہے ایک انوکھا اوربہت خوبصورت روپ نظرآ تا ہے۔
شاعری کا فن اپنی نمود میں الفا ظ کا فن ہے۔ موضوع کوئی بھی ہو، فلسفیانہ ہویا رومانی ،ذاتی ہویا کا ئناتی حرف کی بنت ان کی مینا کاری انکی کشیدہ کاری ہی خیال کوحسن عطا کرتے ہیں۔ گلنازلفظ وخیال کے اس ابدی رشتہ سے واقف ہے۔ اس کی نظموں کی تمثال ادھرادھرسے بٹوری ہوئی نہیں بلکہ جولمحہ جہاں منجمد ہوجائے وہ اسے جوں کا توں رکھ دیتی ہے لیکن اس
مہا رت کے ساتھ کہ کسی خیال کسی منظر کسی سوچ کو صرف محسوس نہیں کراتی بلکہ زندہ کردیتی ہے دکھا دیتی ہے ۔اس کی تقریباً ہرنظم پڑھتے ہوئے مجھے ایسا ہی تجربہ ہوا جیسے کوئی فلم چل رہی ہے اور میں دیکھ رہی اوریوں دیکھ رہی ہوں جیسے 3D فلم ہوکوئی کہ ابھی ہاتھ بڑھا کہ چھولیں گے منظرکو۔ ذرادیکھئے
ایک بے نام سی دوپہرہے
ہواچل رہی ہے
گہرے بے چین بادل کے ٹکڑے
اڑے جا رہے ہیں
پریشان سڑکوں پہ بہتے ہوئے زرد پتے
فضا میں بکھرتا ہوا کچھ غبار مسلسل
بہت دور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پتوں پہ ہنستا ہوا تیز سورج
مگرپھرچمکتی ہوئی ایک کرن پر
چھپٹتے ہوئے گدلے بادل
کھلے آ سماں پرٹھہرتے نہیں ہیں
ہوا چلتی رہتی ہے
رکتی نہیں
درختوں پہ شا خیں
ادھر سے ادھر ڈولتی ہیں
بظاہریہاں کوئی ہلچل نہیں ہے
مگریہ غبارمسلسل اڑائے چلی جا رہی ہے
ہوا چلتی رہتی ہے رکتی نہیں
حیات رواں اپنے مرکز سے چمٹی ہوئی ہے
مگرایک بے نام سی دوپہرکے
سکوت رواں میں
عجب بے کلی ہے
اس نظم کے زندہ منا ظرمیں کھویا ہوا قاری اچانک مضطرب ہوجاتا ہے جب گلنازآ خری منظرمیں لیجا کے بے کل کردیتی ہے۔
سکوت رواں میں عجب بے کلی ہے۔
دکھ کی ایک بہت اونچی سی لہراٹھتی ہے اوربہا لیجا تی ہے اپنے ساتھ ہمیں۔
وہ کوئی اداس سی بات کررہی تھی اورمیرے ذہن کے پردے پرپھراس کی ایک نظم کی فلم چل رہی تھی۔
میزکی چکنی سطح پہ رکھی
دوآ وازیں پگھل رہی تھیں
دوخوابوں کی گیلی تلچھٹ
خالی گلاس میں جمی ہوئی تھی
اورپھراس نے رخصت چاہی
آخری پل کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آ خری مہلت
پگھلتی ہوئی آ وازیں۔خالی،گلاس میں جمی ہوئی خوابوں کی گیلی تلچھٹ ،الجھے دنوں کی ملا ئم سی گٹھڑی، پریشان سڑکیں ، جھپٹتے بادل ، خیالات کے میلے، بادل کاکٹا پھٹا وجود ، مخمورہوا کا لمس ، رات کی کروٹیں ، اسکی ہرنظم ایسے ہی تمثال اورخیالات کی ایسی ہی پیکرتراشی سے سجی ملے گی اوریہ اس کا اپنا مخصوص انداز ہے کہ وہ دکھ بھوگتی ہے مگرحسن سوچتی ہے۔
گلنازنے جب عملی زندگی میں قدم رکھا تو اس کے سامنے لق ودق صحراتھا زندگی کا اوردوچھوٹے چھوٹے جسم اس کے وجود سے لپٹے ہوئے تھے۔ لہذا خود کو جہاں تہاں چھوڑکے اس نے مضبوطی سے بچوں کی انگلی تھامی اورنکل کھڑی ہوئی اس صحرا کو پارکرنے کے فیصلے کے ساتھ جوطرح طرح تھپیڑے لگانے پرتلا رہتا ہے ایسے تن وتنہا مسافروں کو۔ اپنے مجموعے ’’خواب کی ہتھیلی پر ’’کے پیش لفظ میں اس بہت لمبی تفصیل کے حوالے سے ایک چھوٹا سا جملہ ہے اس کا اوربس۔
’’سفربہت کڑا تھا اوردرد،، اپنی بساط سے بھی باہر‘‘اس صحرا میں سفرکرنے والی ساری ذہین عورتیں جانتی ہیں کہ انہیں دکھ درد اورمصائب کی کڑوی گولیوں کو چبائے بغیر نگل لینا چاہئے۔ گل نے بھی ایسا ہی کیا اورشعوری یا لا شعوری طورپرخود کوخود سے الگ تھلگ کرلیا یوں جیسے وہ ایسی مشین ہے جس کی یاد داشت کوپروگرام کردیا گیا ہو اوروہ اس کے مطابق بس اپنے وقت پراپنا کام انجام دینے کے لئے بنا ئی گئی ہو۔ اسے اوراس جیسی ماؤں کوصرف یہ یاد رہ جاتا ہے کہ انکے ہاتھوں کو کن چھوٹی چھوٹی انگلیوں نے پکڑا ہوا ہے مضبوطی سے۔ سب کچھ جھیل جانا ان انگلیوں کے لمس کے ساتھ بہت آ سان لگتا ہے۔ سو وہ بھی جھیل گئی اس کی نظمیں گومضطرب تھیں اس میں ’’کب تلک قید رہیں گ یونہی آخرکب تک ؟’’ مگرگل کے پاس وقت نہیں تھا کسی ایک سے بھی مخاطب ہونے کا یا کسی ایک کی بھی پکارپرکان دھرے۔
’’ سارا وقت رشتوں کے ریشم بنتے نکل جاتا لیکن ہربارساری بنت کھل کرپھرایک ڈھیرکی صورت اختیارکرجاتی سویہ کوشش ہی ترک کردی ’’
اس ملاقات پر ہم نے اس موضوع کونہیں چھیڑا کہ یہ عرصہ کتنا لمبا تھا اورکیسے کا ٹا اس قید با مشقت کو۔ شاید اس لئے کہ ہم سب کے تجربات تقریباً مشترک ہیں سوکچھ کہنے سننے سے فائدہ؟۔ مگریہ کرم کیا کم ہے قدرت کا کہ اوپرسے جھلس جانے والے ہرفنکارکی جڑوں میں اس نے ایک خاص طرح کا نم رکھا ہے شاید جواس وجود کو بہت سنبھال کے تروتا زہ رکھتا ہے۔ گلنازکی جڑوں میں بھی یہ تابناک نمودم سادھے منتظرتھا منا سب وقت کا، کب تک رک کے دم لے یہ نم اوراپنی دھانی اوڑھنی ڈال دے اس کے وجود پر اورڈھانپ لے اپنے آ پ سے۔
’’ اوندھے سیدھے دن بے آہٹ گزرجاتے اورکھڑکیوں پرنئے پرانے موسم اپنی تصویریں دھرتے جاتے۔ تب نظم
آ نگن سے نکل کرمیرے کمرے میں آ نا شروع ہوگئی، دکھتی رگیں سہلا تی ، ادھرادھرکونوں میں سمٹے وجود سے گرد جھاڑتی ، سرگوشیاں کرتی۔۔ پھرکوئی بارہ برس پہلے جب کھڑکی پرچلچلا تے موسم کی تصویر دھری تھی اورمیرا وجود درد سے دھرا ہوا جاتا تھا تونظم نے مجھے اپنا دوست بنا لیا۔۔ یہ بہت محفوظ رشتہ تھا۔ایسا ریشم جس کی بنت کبھی واپس ڈھیرکی صورت اختیار نہیں کرتی ‘‘
گل نظم ہے ۔ایک خوبصورت نظم اوراسکی نظمیں گلوں کے وہ تختے جوزمیں کی ہربدصورتی کوڈھانک لیتے ہیں ’’ بادلوں، پیڑوں ،پھولوں ہواؤں موشبوؤں اورخوشبؤں کی با تیں ہمیں اچھی لگتی تھیں’’ گل نے شا عری کوایک ’’ محفوظ رشتہ’’ کہا ہے۔ خودغرض اورچالاک رشتوں کی سرکارمیں نذرانے گزارتے گزارتے قلاش اوربے اماں ہوجانے کے بعد اکثر تن وتنہا رہ جاتے ہیں ہم۔ ایسے میں شاعری سے گہرا تعلق بن جانا اورایسا تعلق بن جانا کہ ہردکھ سکھ کا ساتھی مل جائے گویا بہت محفوظ اوربہت گھنی چھاؤں کا احساس بخش دیتا ہے۔ سوچتی ہوں جیٹھ کے مہینے جیسے چٹختے اوربھونتے گرم موسموں کے صحراؤں میں سفرکے دوران اگراسے یہ ساتھ میسرنہ ہوتا تو کیا ہوتا ؟؟ کیا ہوتا ؟۔ میں بھی اکثرگھبرا گھبرا کے سوچتی تھی، گلناز سوچتی تھی، اورمیرے اورگلنازجیسی بہت سی لکھاری سوچتی ہیں اورپھراپنی اپنی سکت کے مطابق شا عری کرتی ہیں، افسانے لکھتی ہیں اوراس سنگت کے شکرانے ادا کرتی ہیں۔
گلناز اپنے آ پ کو ایک گھونٹ میں پی گئی ہے اوراب وہ مجسم نظم ہے یا شائد نظم گلنازہے،وہ نظم جس کا لہجہ نمائشی نہیں بلکہ رندانہ اوروالہانہ ہے اوریہ اس کی شخصیت کی شناس بھی ہے۔ ہرغم کوجرات رندانہ سے پی جانا اورمحبت سے والہانہ محبت کرنا اس کا اوراس کی نظموں کا شعارہے ۔وہ اپنے دکھوں سے اپنے لفظوں کے لئے روشنی کشید کرتی ہے اورپھرانہیں اپنی نظموں میں سجا دیتی ہے۔ غالب نے کہا تھا ’’آ گ سے پانی میں بجھتے وقت اٹھتا ہے دھواں ’’ یہ دھواں جب کسی گلناز جیسے ہنرمند کے لفظوں میں سما جائے تواپنی شناخت الگ بنا لیتا ہے۔ گلنازبہت سی آ وازوں کے بیچ ایک خود اعتماد اورمختلف آ واز ہے۔ اس کی مقبولیت میں مشاعروں کی شاعری کا خروش نہیں بلکہ اسکے باطن میں بے کراں سنا ٹوں ، مضطرب موجوں،بہارکی ست رنگی خوشبؤں اورخزاں کی پت جھڑوالی آ ہٹوں کی آ بادیاں ہیں۔ میں یہاں ایک ایسی نظم کوٹ کرنے جا رہی ہوں جواتفاق سے میرا گلناز سے پہلا تعارف تھا اورمیں اس نظم کو پڑھ کے نہ جانے کتنی دیر تک دل تھامے ادھرسے ادھربیچین پھرتی رہی ۔یوں لگتا جیسے کوئی چاقوکی نوک سے کھرچ رہا ہو کوکھ ۔ یہ نظم پڑھیں کلیجہ تھام کے پڑھیں
بس ایک بوند
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سو چپ رہو
سو مان لو
تمہاری نرم سانس
ان کی زندگی پہ بوجھ ہے
تو اپنی سانس گھونٹ لو
ابھی تمہارے ان بنے وجود میں
دھرا بھی کیا ہے ؟
ننھی ننھی دھڑکنیں
چلیں تو کیا
رکیں تو کیا
سوچپ رہو
سومان لو
ٹھہرنہیں سکے گی
تیزآ ندھیوں کے سامنے
یہ جگنؤں سی روشنی
اٹل چٹان فیصلوں کی زد میں
ایک پھوٹتی ہوئی کلی
بس ایک بوند زندگی
مجھے پتہ ہے ظلم ہے
مگر تمہیں خبرنہیں
تمہیں ابھی خبرسے کیا
کسی بھی ظلم، درد ، گھاؤ
موت اورزندگی کے ذائقے
تمہاری نرم دھڑکنوں نے
کچھ بھی تو سہا نہیں
چھاؤں ، دھوپ
پتیوں کے پانیوں کے سلسلے
تمہاری کوری سانس نے
کسی کوبھی چھوا نہیں
سوچپ رہو، سومان لو
یہی وہ چا ہتے ہیں گر
تمہیں مٹانے کے سوا
کوئی بھی راستہ نہیں
توان کی بات مان لو۔

پھولوں، تتلیوں، بادلوں اورخوشبؤں سے اپنی نظموں کے پیکرسجانے والی شاعرہ کی یہ نظم اسکی اس صلا حیت کا اعتراف کرنے پرمجبورکردیتی ہے کہ وہ اپنے موضوع کو وہی لہجہ دینے پرقادرہے جوتقاضہ ہوموضوع کا۔ لیکن کمال یہ ہیکہ وہی نرمی جواس کی شناخت ہے اس ہچکیوں سے روتے موضوع میں بھی برقرا رہے۔
جس قیامت کی بے بسی ہے اسی قیامت کا دلگیر لہجہ۔ یہ حسن بیان یہ تہہ داری یہ اپنی بات کہنے کا ہنربظاہرسادہ لیکن اپنے باطن میں بہت پرکارہے اوریہی وہ ہنرہے جواس کے تخلیقی مزاج کی شناخت ہے۔ کچھ نظمیں اس کی یہاں کوٹ کرنا ضروری محسوس ہورہا ہے۔

ذرا سی حرارت ملے تو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذرا سی حرارت ملے تو
چمکتا ہوا دھوپ کا ایک ٹکڑا بناؤں
ٹھٹھرتی فضاؤں کی
یخ بستہ آنکھوں میں کرنیں کھلاؤں
بہت منجمد آسمانوں کو چھوتی ہوئی
چوٹیوں پر کھنکتے ، سبک ، مست جھرنے دھروں
اور تخیل کے بیکار،ساکت پرندوں کو اڑنا سکھاؤں
ذرا سی محبت ملے تو
سیہ بخت، بیدرد، سفاک ، پتھر دلوں کی جگہ
پھول رکھ دوں
میں نفرت کی اونچی چٹانوں کو پگھلا کے
ننھے گھروندے بناؤں
اَنا کے علم توڑ دوں ، سرحدوں کو گراؤں
میں اجلی ہواؤں میں براق پر فاختائیں اڑاؤں
ذرا سی سہولت ملے تو
فسردہ نگاہوں میں جگنو بھروں
گرد رستوں پہ کلکاریوں، ننھے قدموں کی حیرانیوں کو بچھاؤں
میں سہمی گھٹاؤں پہ گیتوں کے چہرے سجاؤں
ذرا سی اجازت ملے تو
یہ تیرا جہاں
پھر مٹا کربناؤں۔۔۔
یا پھریہ نظم :

ایک سوال۔۔۔۔ رقیب سے
کبھی تم سسکتی صداؤں کو سن کر
بہت زرد ، مدھم سی امید پر
درد کی گہری دلدل میں اترے؟
تپکتے ہوئے گرد رستوں
کٹھن، سرد لمحوں سے گزرے؟
دہکتی ہوئی رات کی کروٹوں میں
کسی خواب کی دھیمی دھن پر
سلگنے کی حسرت رہی ہو
کبھی ایک چبھتی ہوئی یاد دل کو
حزیں کر گئی ہو
کسی سرپھرے جذب نے
اندھی راتوں میں پاگل کیا ہو؟
فقط ایک پل کے لیے
جیسے روتے ہوئے دل کو
دھڑکا لگا ہو
کبھی کالی راتوں کو
مدھم سروں سے اجالا؟
کبھی ٹوٹے بالوں، بچے سگرٹوں کو
چنا اور سنبھالا
کبھی ان نگاہوں کو تتلی لکھا ہو؟
کبھی ان لبوں پر فسانہ کہا ہو؟
کڑی جان لیوا جدائی کا
بس ایک موسم سہا ہو
کبھی تم نے تھاما
بہت سہمے ہاتھوں کو
جیون کی مشکل گھڑی میں
کسی ان کہی کو سنا ہو
گزرتے ہوئے وقت کی راکھ سے
کوئی موتی چنا ہو
بڑی چاہ سے عمر بھر ایک رشتہ بنا ہو
مگر پھر بھی اتری ہیں
کیسی حسیں، دلربا ساعتیں
تم پہ ساتوں جہاں مہرباں ہیں
ادھر زخمی قدموں میں اب بھی وہی
درد کی بیڑیاں ہیں
وہی خشک صحرا،
وہی پیاسے، بھٹکے، بلکتے ہوئے
دل کی زخمی صدا ہے
میں حیران ہوں گر یہی ماجرا ہے
تو پھر مجھ سے میرا خدا ہی خفا ہے۔۔

بہت سی ایسی ہی نظمیں جی کرتا ہے کوٹ کرتی چلی جاؤں لیکن گلنازکی ہی ایک نظم ’’شا عروقت ’’ کی چند سطوراس کے لئے میری دعا بھی ہے۔
جگمگا تے ہوئے خواب سب
تیری بے تاب پلکوں پہ سایہ کریں
حرف کی جھلملا تی ہوئی تتلیاں
تیری انمول پوروں کو چھوکرچلیں
پھوٹتی ہی رہیں نخل احساس سے کونپلیں۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے