دل ٹوٹ گیا۔ زندگی ویران ہو گئی ۔۔۔ محبوب کے قدموں کی چاپ دور، بہت دور ہوتی چلی گئی ۔۔۔درختوں سے پتے جھڑنا شروع ہو گئے تھے ،پھول کی پتیوں نے پودے کو الوداع کہا۔۔۔ خزاں نے زرد چادر اوڑھ لی، ٹھنڈی یخ بستہ ہواؤں کی زد میں وادی ٹھٹھر رہی تھی۔ ایک سسکی سنائی دی۔کرب بڑھا ۔۔۔ اندر دھواں بڑھ گیا۔۔۔ کوئی روزن توچاہیے تھا۔۔۔! ورنہ سانس رک ہی جاتی۔ اس اندرونی کرب کے اظہار کے لیے ایک بس تخلیق ہی ایسا راستہ تھا۔سو‘ قلم اٹھایاگیا ۔ اور پھر قلم اور موئے قلم سے سکیچیز بننا شروع ہو گئے۔ الفاظ سے محبوب کی تصوراتی تصویر بننا شروع ہوگئی۔ گلہ، شکوہ شکایت، مایوسی، امید و بیم ، غم کو زباں ملی۔ اور یوں تخلیق سے تخلیق ہونے لگی۔ روشنی گلابوں پر، خموشی بے ہنر ٹھہری نے جنم لیا۔
میں ’سنگت ‘کے قافلے میں شامل ہوئی تو اس کی محفلوں کا حصہ بننے لگی۔ رفتہ رفتہ لوگوں کو جاننا شروع کیا۔ اور بہت سے حسین انسانوں میں ایک یہ چہرہ بھی تھا۔ سینے میں ایک طوفان لیے ، آنسوؤں کے موتیوں کو اندر ہی اندر جذب کیے ،بڑے ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے ، بہت سوبر، کم گو ایک شخصیت محفل میں ہوتی ۔ بہت دھیمے اور ٹھہرے ہوئے انداز میں شعر کہنے والی یہ شخصیت اب ایسی بھی خاموش نہیں تھی ۔ ان کی جاندار شخصیت کی خاموشی سب کو سنائی دیتی تھی۔ ڈاکٹر منیر نظم اور غزل دونوں کے شاعر ہیں۔ ان کی غزل میں اگر مضطرب کر دینے والی ہلکی آنچ موجود ہے تو ان کی نظموں میں اس اضطراب کے علاوہ دورِ جدید کے مسائل بھی موضوعات ہیں ۔ ان کی نظموں کے عنوانات عہدِ نو کے فرد کی مایوسی، اداسی، دکھ، بے چینی، آج کے حالات سے دوچار انسان جس ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ، تو ہیں ہی لیکن ساتھ ہی ان سب مسائل سے نکلنے کی جدوجہد ، امید بھی انہی کی نظموں کا عنوان بنے۔ ان کی خوبصورت نظم ’ زمانے کب یہ ممکن تھا‘ میرے اس دعوے کا ثبوت ہے۔
منیر بھائی اپنی نظم ’ ابتدائے عشق ‘ میں اپنی سوچ، اپنی فکر ، اپنے نظریے کااعلان کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ اپنی شاعری میں اپنے بزرگوں کو اور اپنے دوستوں کو بھی نہیں بھولے۔ غالب، میر گل خان نصیر،نیلسن منڈیلا، عطا شاد، حسام قاضی اور دانیال طریر پر آپ کو ان کی شاعری ملے گی۔ عطا شاد کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں ؛
صحرا ، گلاب، برف کی کلیاں ، شجر، حجر
کیا کیا حصارِ لب سے پرے بولتے رہے
وہ آج سو رہا ہے انھی موسموں کی نیند
جو اس کی شاعری میں سدا جاگتے رہے
شاعر ی ، ادب ایک ہی دن میں تخلیق نہیں ہو جایا کرتا بلکہ ہرزندہ تخلیق کی طرح یہ بھی اپنے جنم تک ماہ و سال کا سفر طے کرتے ہیں ۔ زندگی کے خزاں و بہار، سرد و گرم ‘پرت در پرت اس حساس خالق کی شخصیت کا حصہ بنتے چلے جاتے ہیں،جسے وہ تخیل کی طاقت، خیال کی پختگی، کھرا پن ، ایمان داری کے زورِ الفاظ کا روپ دھار لیتے ہیں اور پھر اس تخلیق سے پڑھنے والے اپنا دامن بچا نہیں پاتے۔
منیر بھائی، جن کے خیالات، جن کے احساس کو شاعری کی صورت میں زباں ملی۔عشق کی تقدیس میں حرف۔۔۔ لفظ، ہاتھ جوڑے ان کے سامنے سرنگوں کھڑے ہونے لگے۔ وہ الفاظ کے یہ نگینے چن چن کر اپنے خیال کے زیور میں جڑتے چلے گئے ۔ ایسے الفاظ جو اپنی پوری تاثیر پڑھنے والے کے ذہن پر چھوڑ جاتے ہیں۔محبت، درد، غم، خوشی، شکایت، مایوسی، امید کا یہ مرقع ہمیں ان کے شعری مجموعوں کی صورت میں ملے۔ ان کی شاعری پڑھیں گے تو آپ کو ان کے تخیل کی طاقت، ارد گرد کے مشاہدے کا صحیح اندازہ ہوگا۔ وہ آپ کو عشق و محبت میں لتھڑے ہوئے ضرور ملیں گے، غم کی شدت دکھائی دے گی لیکن مزے کی بات کہ غم و الم ، زندگی کے گرد و غبار میں وہ گم نہیں ہو گئے بلکہ ان کی شاعری میں آپ کوزندگی کا حوصلہ اور سلیقہ بھی دکھائی دے گا۔وہ بہت سنجیدگی اور وقار کے ساتھ خودکو اپنے گرم جذبات کے سمندر میں اچھال کر امید کے کنارے پر لے آتے ہیں۔اور یوں قاری ان کی امید کی انگلی تھامے حوصلے اور کامیابی کے بامِ عروج پر پہنچ جاتا ہے۔ مایوسی کی انتہا دراصل امید کی ابتدا کا استعارہ ہے اور یہی ان کی شاعری کا وصف ہے:
بخشی ہیں جو شکست نے مایوسیاں ہمیں
امید کا گہر بھی انھی سیپیوں میں ہے
ان کی شاعری پڑھتے ہوئے مجھے بہت مزا آتا ہے ۔ محبت پر ان کا یقین انھیں محبت کی صراطِ مستقیم سے ہٹنے نہیں دیتا۔ وہ بڑے یقین سے دعویٰ کرتے ہیں :
مرے بنا نہیں تکمیل جس کی ہوسکتی
جدا ہوا بھی اگر مجھ سے، کیا جدا ہوگا
الفاظ کاایسا خوبصورت چناؤ کہ چند لمحوں کے لیے لگتا نہیں کہ یہ اردو ، یہ الفاظ کسی بلوچ کے قلم سے ادا ہوئے۔ ان کی غزل کے دو اشعار کا مزہ لیجئے :
اب اس قدر سمجھ نہ ہمیں حرفِ پائمال
ہم سے کمالِ عجز کی تعلیم قصہ گو
بھر دے سکوتِ گل کی ادا حرف حرف میں
کر، یوں جمالِ شعر کی تقسیم قصہ گو
لیکن اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے اپنی مادری زبان کے استعمال میں بھی کسی طرح حیل و حجت سے کام نہیں لیااور بلا جھجھک اردو شاعری میں براہوی الفاظ کے نگینے جڑتے رہے۔ ان کی شعری فضا میں پڑھنے والوں کو شال کی ٹھنڈ بھی محسوس ہوگی تو بادام کے سفید پھولوں سے سجے درخت بھی۔ چنبیلی کی خوشبو بھی سانسوں کو معطر کرتی ہوئی ملے گی۔ بس یوں کہوں گی کہ منیر بھائی کی شاعری میں اپنی زمین، اپنی مٹی کی مہک آپ کو مہکا دے گی۔
ان کی نظمیں ’ عہدِ نو‘ اور ’ سوچ کے پرندے‘ بوئے مادران اس کی مثالیں ہیں۔
خوبصورت الفاظ کے ساتھ ساتھ ان کی شاعری میں ایک انتہا درجے کی روانی ہے ۔ ان کی نظمیں ایک سبک رفتار جھرنے کی صورت شال کے پہاڑوں کے دامن کے نشیب و فراز میں بہتی چلی جاتی ہیں ۔ ان کی ایسی ہی نظم ’ خود سے بچنے کے جتن ‘ کے ٹکڑے کی مترنم آواز آپ بھی سنیں ؛
’ خود سے بچنے کے جتن‘
سرِ بازار می رقصم
خیالِ یار میں گریہ
پسِ دیوار سرگوشی
کبھی گلیوں میں ہاؤ ہُو
سلگتی چیخ سی گاہے
کبھی فریاد سی مدھم!۔
شاعر حساس ہوتا ہے اور حساس انسان اپنے گرد و پیش سے بے خبر، بے اثر نہیں رہ پاتا ۔گردشِ لیل و نہار ، موسموں کے تھپیڑوں نے جلد ہی غمِ جاناں کے ساتھ ساتھ انھیں غمِ دوراں کی رسیوں میں جکڑ لیا۔ اپنے معروض کا کھلی آنکھوں مشاہدہ کر کے اپنے ردِ عمل کا اونچی آواز میں اظہار کیا۔محبوب کی بے اعتنائی ہو یا زمانے کے گرم وسرد یا پھر دھماکوں سے ہمارا لہولہان شال ہو سب پر ان کی جاندار آواز ہم تک پہنچی۔ بکے ہوئے ادیبوں پر تو انھوں نے ان الفاظ میں گویا کہ لعنت ہی بھیج دی :
اب تقدیس کی ہٹی کھولے بیٹھے ہیں
لفظوں سے بدکاری کرنے والے لوگ
ڈاکٹر منیر رئیسانی ، بلوچستان میں اردو شاعری کرنے والوں میں ایک خوبصورت اور معتبرنام ہے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے