دنیا میں شروع دن سے ایک جنگ جاری ہے جسے حق اور سچ کی جنگ کہتے ہیں. یہ جنگ دو طبقوں کے درمیان لڑی جارہی ہے وہ دو طبقے حاکم اور محکوم، ظالم اور مظلوم کے نام سے پہچانے جاتے ہیں. تاریخ کے اوراق پر ایسے بہت سے جنگوں کے واقعات رقم کی گئی ہے جن میں فاتح محکوم اور مظلوم طبقہ رہا ہے. حاکم اور ظالم طبقہ اپنے طاقت اور ظلم سے مظلوم قوم کو موت سے شکست دینے کی ناکام کوشش کی ہے لیکن موت خود ایک کامیاب زندگی کی علامت بن گئی. آج بڑی دنیا ان ہستیوں کے نام پر فکر کرتی ہے جو وقتی زندگی میں حق اور سچ کی علم بلند رکھتے ہوئے اپنے زندگیاں قربان کردیئے.
بلوچستان وہ سرزمین ہے جہاں حاکم اور محکوم، ظالم اور مظلوم کے درمیان جنگ کئی صدیوں سے چلا آرہا ہے. انگریز سامراج جب اس سرزمین پر قبضہ جمایا تو اس سرزمین کے رکھوالے جہاں مسلح جدوجہد شروع کی وہاں سیاسی میدان میں سیاسی لیڈرز، دانشور، ادیب اور ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے سرزمین کے باشندے انگریز کے خلاف عملی جدوجہد کی ابتداکی. ان سیاسی میدان میں عملی جدوجہد کرنے والے لیڈران میں ایک زندہ نام خان عبدالصمد خان اچکزئی بلوچستان کی تاریخ میں موجود ہے.
عبدالصمد خان اچکزئی بلوچستان کو انگریز سامراج کے چنگل سے نکالنے کیلئے اپنی زندگی کو جن تکالیف، مصیبت اور صعوبتوں میں گزار دی وہ آج تاریخ کا ایک درخشندہ باب ہے جن پر اس سرزمین کے فرزند ہمیشہ فخر محسوس کریں گے اور اس ہستی کا ہمیشہ احسان مند رہیں گے.
خان عبدالصمد خان اچکزئی کی سیاست میں آنے کی تاریخ کو ڈاکٹر شاہ محمد مری اپنے کتاب”میر عبدالعزیز کرد” میں لکھتا ہے "خان سرگرم سیاست میں 1920کی دہائی کے اواخر میں کود پڑا. 1920 میں جب لاہور میں کانگریس، خلافت، نوجوان بھارت سبھا اور کیرتی کسان کے سالانہ اجلاس ہورہے تھے تو خان صاحب اپنے دو ساتھیوں قاضی محمد قاہر خان اور عبیداللہ کے ہمراہ لاہور گیا اور ان تنظیموں کے اجلاس دیکھے. مقررین میں ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور کاکا صنوبر حسین مومند کی تقریریں اسے بیحد پسند آئیں. یہیں اس نے اندازہ کر لیا کہ ایک سیاسی جماعت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوسکتا جس میں بے لوث خدمت کرنے والے موجود ہو. لیکن مشکل یہ تھی کہ ان کے علاقے میں نہ تو اجلاس کرنے کا رسم تھاا اور نہ تقریریں کرنے اور جماعت سازی کی کوئی ریت تھی، اور نہ ہی عوام کو منظم کرنے کا اس کا اپنا کوئی تجربہ تھا. اسے یہ کام بالکل الف ب سے شروع کرنا تھا.
گھر واپس آکر سارا حال محمد ایوب اچکزئی اور اپنے بھائی عبدالسلام سے بیان کیا. یہ تینوں ساتھی تھے. انہوں نے مل کر سیاست کرنے کا فیصلہ کیا. مگر فوراً ہی سرکار نے تینوں کو گرفتار کر لیا. خان کی پہلی بار کی یہ گرفتاری 1929میں ہوئی. اس پورے علاقے کیلئے سیاسی جیل ایک نئی بات تھی. لوگ حیران تھے کہ خان، اس کے بڑے بھائی حاجی عبدالسلام خان، محمد ایوب خان اور عیسی خان نے کیا جرم کیا تھا؟ چوری، ڈاکہ، رہزنی، قتل، دنگ لڑائی. ۔۔۔…؟ وہ اس بات پہ حیران ہوئے کہ سیاست ب?ی جرائم میں سے ایک تھی!!
ان سب قیدیوں کو کوئٹہ لایا گیا. اس وقت بلوچستان کے آسمانوں کی وسعتوں کا ایک اور درخشندہ ستارہ مستونگ جیل میں بند تھا. اور وہ بھی سیاست کرنے ہی کے جرم میں پکڑا گیا تھا. وہ جلیل القدر انسان تھا میر یوسف عزیز مگسی. مگسی صاحب کو جب خان عبدالصمد خان اچکزئی کی سیاست کے جرم میں گرفتاری کا پتہ چلا تو اس نے فوراً ہی ایک پرجوش نظم لکھ ڈالی. دوسری طرف خان صاحب نے بھی جب ایک اور سیاسی قیدی کی خبر سنی تو’ اس کے الفاظ میں ” ہمیں بڑی خوشی ہوئی کہ چلو خیر سے ایک اور ساتھی بھی مل گیا. یہ محترم (یوسف عزیز مگسی) میری آئندہ زندگی میں میرا سیاسی رفیق اور بلوچستان کی قومی زندگی کا ایک عظیم اور بڑا لیڈر بنا”.
بلوچستان میں سیاست کو پروان چڑھانے کے لیے خان عبدالصمد خان اچکزئی، میر یوسف عزیز مگسی، میر عبدالعزیز کرد اور دیگر زعما کے دن رات کی محنت اور کوششوں سے عوام جوک در جوک سیاست میں شامل ہوگئے. اسی جدوجہد کی کامیابی پر دسمبر 1932 کے اواخر میں جیکب آباد میں تمام ہندوستان کے بلوچوں کی ایک کانفرنس کا انعقاد ہوا. اس کانفرنس کی صدارت عبدالصمد خان نے کی. پھر اگلے سال دسمبر 1933میں بلوچ کانفرنس کا دوسرا سالانہ اجلاس حیدر آباد میں منعقد ہوا. خان صاحب اس میں بھی اسی جوش خروش سے شریک ہوا. کانفرنس کی کامیابی سے انگریز حواس باختہ ہوکر اپنے رائج کردہ جرگہ سسٹم کے ذریعے خان عبدالصمد خان اچکزئی اور میر عبدالعزیز کرد کو قید و بند کی سزا دلوائی. میر عبدالعزیز کرد کو پانچ سال اور عبدالصمد اچکزئی کو تین سال کی سزا دی. قید کے ایام میں ان کا ایک ہمسفر ہم مشن ساتھی میر یوسف عزیز مگسی 1935کی ہلاکت خیز زلزلے میں ان سے ہمیشہ کیلئے بچھڑ گیا. میر یوسف عزیز مگسی کی ناگہانی موت ان کو بہت افسردہ کردیا.
جون 1936میں گل خان نصیر نے ان دو ہستیوں کے رہائی پر یہ لکھا:
پھر شادمان طبقہ اہل وطن ہے آج
پھر ضیغم بلوچ وہ عبدالعزیز کرد
مثل گلاب صدر نشین چمن ہے آج
عبدالصمد مجاہد ملت اچکزئی
پھر گلستان میں زینت سرودِ سمن ہے آج
آزادی وطن کے لیے سر بہ کف کھڑا
ہر نوجوان اہل وطن خندہ زن ہے آج
مصروف شعر و شاعری کب تک رہوں نصیر
گلشن میں جا کے دیکھے کیا بانکپن ہے آج
خان صاحب یوں قابض سامراج انگریز سے قلم اور الفاظ کے مدد سے لڑتے رہے. ہر موقع پر مظلوم اور محکوم اقوام کے حق میں آواز بلند کیا. بلوچستان میں انگریز طرز کے سرداری اور طبقاتی نظام کا اول دن سے مخالف تھا. عورتوں کے حقوق اور تعلیم کیلئے سیاست کے میدان میں جدوجہد کی.قلم کی طاقت سے حاکم کے جابرانہ عزائم کو خاک میں ملادیا. مظلوم اقوام کے حقوق کیلئے تمام مصائب اور جیل و زندان کے صعوبتوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا.
اس عظیم ہستی کی 65 سالہ زندگی کا 28 سال جیلوں میں گزر گیا. 17 سال انگریز کے دور میں قید رہا پھر 16 سال پاکستان کے جیلوں میں پابند سلاسل رہا. آخر کار سامراجی قوتوں نے 2 دسمبر 1973کو اپنے بزدلانہ حملہ سے اس ہستی کو ہم سے جسمانی طور پر جدا کرلیا لیکن ان کا فکر، سوچ، ہمت اور حوصلہ آج بھی مظلوم اور محکوم اقوام کے رہنمائی کرہے ہیں.۔