سن
04/11/1965
برادرم میاں محمد امین!۔
السلام علیکم!
کبھی تو سال گزر جاتے ہیں نہ کوئی خبر نہ کوئی خبر نہ کوئی حوال آتا ہے۔ ابھی تو ہفتہ میں سات خطوط پہنچ چکے ہیں۔ شاہ صاحب نے فرمایا ہے کہ: ۔
کڈھن طاقیوں ڈین ۔ کڈھن کُھلن در دوستن جا
کڈھن اچاں۔ اچنڑنہ لھاں ۔کڈھن کو ٹھیونین
اھترئی آھیلن صاحب منھجا سپریں۔ (شاہ)۔
ترجمہ:۔ کبھی دروازے بند کریں ۔ کبھی کھلیں دروازے دوستوں کے
کبھی آؤں تو آنے نہ دیں۔ کبھی دعوت دے کر لے جائیں
ایسے ہی میں صاحب میرے پیارے دلداد۔ (مترجم م۔ن ۔ ک)۔
سب خطوط پڑھے۔ مجزو بانہ مام( راز) سے بھرے ہوئے ہیں۔ گونگوں کی زبان رشتے داری سمجھ سکتے ہیں۔ احوال معلوم ہوا۔ آجکل ایسی بولی مشکل سے سننے میں آتی ہے ۔ دنیا اکثر عقل والی ہونی جارہی ہے مگر شاعر کہتا ہے ۔
خِرد کی گتھیاں سلجھا جگا میں
میرے مولا مجھے صاحب جنوں کر!۔
باوجود محبت کے دعویٰ کے آپ مجھے اپنے راستے پہ نہ چلا سکنے کے لیے شا کی ہیں۔ قصور معلوم نہیں کس کا ہے؟ شاید کسی میں کوئی خامی ہو۔ بخاری صاحب سے میرے لادنیت کا شکایت سُنا ہے ۔ اس نے بات کو صحیح جانا ہے ۔ فرق صرف سمجھ کا ہے ۔ شاعر کہتا ہے ۔
’’دلبر دیکھیو جن ۔ تن دین سبھ دور کیا
مولانا حسین احمد مدنی نے جب حب الوطنی کی بات کی تو شاعر مشرق علامہ اقبال کو غصہ آگیا۔ اور کبہ بیٹھا کہ مولانا’’مقامِ محمدی ‘‘ سے بے خبر تھا۔ نا سمجھ لوگوں نے تالیاں بجائیں۔ صاحب دل کو علامہ کی کم ظرف گفتگو پہ ارمان ہوا۔ بولے شاید علامہ کو یہ پتہ ہی نہیں ہے کہا اسمانوں کی طرح’’مقام محمدی‘‘ بھی طبقاً علیٰ طبق۔ کیا ہوا تھا۔ مولانا جس مقام سے گفتگو کر رہا تھاعلامہ ان سے کافی نیچے تھا۔ آپ نے تو کافی نصیحتیں کیں مگر مجھ پر کوئی اثر کہاں:۔
تعذیر جرم عشق ہے بیکار محتسب !۔
بڑھتا ہے اور ذوقِ گناہ یاں سزا کے بعد
والے معاملے کو کون پہنچے۔
چو بیخود گشت حافظ کی شمارد
بہ یک جو مملکت کاؤس کی را
امید ہے خوش خُرم ہونگے۔ آؤ گے تو خوش آمدید۔ اگر کثرتِ کاروبار کی وجہ سے فرصت نہیں ملتا ہے تو دور سے دعا کرتے رہا کرو۔
اگر چہ دورم اِز بسا طم قرب ہمت دور نیست
امید ہے کہ خط وکتابت کرتے رہو گے
زیادہ خیرو سلام
غلام مرتضٰے
سن
13/11/1965
برادرم محمد امین!۔
السلام علیکم! ۔
سرکار نامدار نے مہربانی فرما کر جو کُنج (۔۔) عافیت عطا فرمائی ہے ۔ اس میں خوامخواہ کیوں دخل انداز ہوتے ہو۔
ملک آزادگی وکنج قناعت گنجی است،
کہ بہ شمشیر میسر نہ شود سلطان را
آپ کی مجھ سے واقفیت سیاسی دنیا میں ہوئی نہ مذہبی دنیا میں ۔ ان میں باوجود شخصی تعلقات کے طریقہ کار علیحدہ رہے۔ اس وقت میں سیاست سے باہر کنج عافیت میں رہتا ہوں۔ ایسے میں پرانی باتیں بتا کر سوئے ہوئے (خوابیدہ) درد نہ جگا۔
ڈائی چڑھی ڈالر تے کے جو کانگ کہیو
سوریتی آ سُود پئی ۔ پھو پٹھ کریو
کھامی ارٹ کھنیو۔ ویچاری ورو نھن سان(شاہ)۔
نعپ (NAP) سے ساڑھے سات سال ہوئے ہیں میرا تعلق منقطع ہے ۔ بھاشانی سے اسی وقت سے کوئی تعلق نہیں رہا ہے ۔ خوامخواہ کیوں اس کا پیرو کار بناتے ہو؟ اس وقت نظر بندی سے ایسا مانوس ہو چکا ہوں جو اس کا مجھے احساس بھی نہیں ہوتا ہے۔
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہوجانا۔
نظر بندی کا جب مجھے فکر نہیں ہے ۔ تو تجھے کیوں ہونا چاہیے۔ مذہب بابت لکھنا شروع کیا ہے۔ اس معاملے میں پہلے کبھی اپنا تعلق ہی نہیں رہا ہے ۔ میرا مذہب شخصی معاملہ ہے۔ یہ عام کے اظہار سے اوپر ہے۔ اس میدان میں اپنا نہ پہلے پہچان رہا ہے۔ نہ اب ! میں مذہب عشق کا پیروکار ہوں۔ آپ مذہب شریعت کے۔
’’ اُٹھاں میھاں داکیھامیلا، اوچرن جھنگ او بیلا‘‘
ترجمہ: اونٹ اور بھینسوں کا میلے میں کیا کام وہ تو جنگل میں گھاتے رہتے ہیں۔ عشق کا مسئلہ آنکھ مچولی والا ہے ۔ شریعت کا کُھلا ہوا۔ ایک باطن ہے دوسرا ظاہر ہے۔ پہلا رکھنے سے کھتوری کی طرح خوشبو کرتا ہے۔ بقول شاہ لطیف:
نھائیں کھاں نینھن ۔ سکھ منھنجا سپریں
سڑے سادو ڈینھن ، باہر باف نہ نکرے
حافظ شیرازی بھی اسی راہ کا راہی تھا۔ کہتا ہے کہ:
مصلحت نیست کہ از پردہ برون اَفترراز
ورنہ درمجلس دِنداں خبر نیست کہ نیست!۔
آپ وہاں بیٹھ کر مجھے تلقین کرتے ہیں۔ اس سخاوت اور محبت کے لیے شکر گزار ہوں۔ مگر شاید آپ کو یہ معلوم نہیں ہے کہ یہ بندہ شاہ حیدر رحمتہ اللہ علیہ کا چودھواں سجادہ نشین ہے۔ جس کے متعلق تاریخ معصومی لکھتا ہے کہ: ایک دفعہ مجلس میں مدیدوں سے فرمایا کہ حق کے منزل پہ پہنچنے کے لیے مجھے اتنے دستے معلوم ہیں جو اپ میں سے ہرکسی کو اسی منزل پہ پنچانے کے لیے جداجدا رستوں سے بھیج سکتا ہوں۔
شاہ لطیف نے بھی فرمایا ہے کہ:۔
واٹیوں ویھ تھیوں ۔ کوہ جاڑاں کھڑی ویا
آپ کو اگر اپنے مُرشد اور مُعلم کا بتایا ہوا راہ پسند ہے تو بسم اللہ ، مگر سلوک کی راہ میں یہ بات کفر اسماں ہے۔ جو صرف اپنے راہ کو صحیح اور سیدھا سمجھے۔ قرآن شریف فرماتا ہے۔ لکم۔ دینکم ولیی دین‘‘
شاہ صاحب فرماتا ہے۔
دین شِرک ای جو بے شرک بھائینن پانڑ کھے
جان جان پسیس پانڑ کھے۔ تاں تاں ناھ سجود
وِیائیں وجود ، تنھاں پوئے تکبیر چو!
ہمارے استاد نے نابودی کا سبق دی اہے ۔ کہتا ہے
خودی ئے خدا کین ماپندامن مہ
بن ترارین جا ئے کا نھیں ھِک میان ھِ!۔
جنہیں بھانیو پانڑ کیائیں ترائی تن کھے
نابودئی نیئی ، عبد کھے اعلیٰ کیو
مورت مہِ مخنی تھیا ، صورت پنڑسیئی
کجے اُت کیھی، گالھ پریاں جے گجھ جی(شاہ)۔
ہمیں وحدت الوجود کا سبق سکھلایا ہواہے جس کے موجب موں کھے اکھڑین وڈا تھورا لائیا
تہ پنڑ پریں پسن ۔ کھنڑاں جے کرسامھوں!۔
آپ کو آپ کا اسلام مُبارک ہو۔ جس میں خدا بھی آپ سے پوچھ کر کام کرے گا تو بتاؤ آپ کا کیا کہنا ہے ؟ ہمیں تو یہ سبق سکھایا گیا ہے ۔ کہ۔
واگ دھنی جے وس آء کا پانڑو ھیڑیں(شاہ)۔
تجھے مہربانی کر کے مذہب کے معاملے میں گفتگو نہ کرو۔ اگر کرو تو شاہ سائیں کی یہ نصیحت سن کر پھر گفتگو کرو۔
جان وڈھیو تاں ویھ ، نہ تہ وٹھیوں واٹ ون ءُ توں
ھی و تنیں جوڈیھ، کاتیی جنیں ھتھ مہِ!۔
ہمیں سائیں نے یہ سبق دیا ہے۔
ڈسنٹر جے ڈِسین تہ ھمہ کھے حق چئین
شارک شک نہ نین۔ اندھا اِنھئی گا لحمہ مہِ
پیغمبر حق کا اگر آپ نام لیتے ہو تو مہربانی کر کے سنو اس سے نہ صرف آپ اور اقبال کا تعلق ہے پرمیرا اور حسین احمد کا بدلہ بھی جُڑا ہوا ہے ۔
جیکو ڈھو ھومُوں ۔ آریانی اوھاں چھاڈھو ھو(شاہ)۔
یہ نینھ کا ناطہ نہایت نازک ہے ۔ یہ نہ خطوط کے ذریعے نہ بحث کے ذریعے حل ہوسکتا ہے ۔ خواجہ حافظ کافی پہلے کہہ کر گیا ہے کہ:۔
حدیث مطرب ومی گو وراز دھر کمتر جو
کہ کس نہ کشود نہ کشاید بہ حکمت ایں معمارا!۔
عالم آو سانڈ، بھریو تھو بھیر کرے
پانڈ نہ آھے جانڈ، مانڈی منڈ پکھڑ یو
امید ہے ، خوش خرم ہونگے۔ خط لکھتے رہو مگر مہربانی کر کے مذہبی باتیں مت چھیڑو۔
زیادہ خیرو سلام
غلام مرتضٰے