یار و! بس اتناکرم کرنا
پسِ مرگ نہ مجھ پہ ستم کرنا
مجھے کوئی سندنہ عطا کرنا دیند اری کی
مت کہنا جو شِ خطا بت میں
دراصل یہ عورت مومن تھی
مت اُٹھنا ثابت کرنے کوملک وملت سے وفاداری
مت کوشش کرنااپنالیں حکام کم ازکم نعش مری
یا راں ، یاراں
کم ظر فوں کے دشنام تو ہیں اعزازمرے
منبر تک خواہ وہ آنہ سکیں
کچھ کم تو نہیں دلبر میرے
دمساز مرے
ہر سر حقیقت جاں میں نہاں
اورخاک وصبا ہمر از مرے
تو ہین نہ ان کی کر جانا
خو شنو دئی محتسبا ں کے لیے
میت سے نہ معافی منگوانا
تد فین مری گرہو نہ سکے
مت گھبر انا
جنگل میں لا ش کو چھوڑ آنا
یہ خیال ہے کتنا سکوں افزا
جنگل کے درند ے آلیں گے
بن جانچے مرے خیالوں کو
وہ ہا ڑ مرے اور ماس مرا
اور میر العلِ بد خشاں دِ ل
سب کچھ خوش ہوکر کھالیں گے
وہ سیر شکم
ہونٹوں پہ زبانیں پھیر یں گے
اور ان کی بے عصیا ں آنکھوں میں چمکے گی
تم شاید جس کو کہہ نہ سکو ‘وہ سچا ئی
یہ لاش ہے ایسی عورت کی
جو اپنی کہنی کہہ گزری
تا عمر نہ ہر گز پچھتائی