چند روز قبل فہمیدہ ریاض اور کل الطاف فاطمہ ہم سے رخصت ہوئیں اورادب کی دنیا کو سوگوار کر گئیں۔ ان خیالات کا اظہار انجمن ترقی اردو پاکستان کے زیرِ اہتمام معروف شاعرہ اور دانشور فہمیدہ ریاض کی یاد میں تقریبِ خراجِ عقیدت کے موقعے پر پروفیسر سحر انصاری نے کیا۔ انھوں نے کہا کہ ادبی قافلہ معلوم نہیں کس سمت جا رہا ہے۔اس کی جگہ لینے والے نظر نہیں آرہے ہیں۔ اس وقت فہمیدہ ریاض نے جو نظم پڑھی تھی ویسی شاعری کرنا کسی لڑکی کے لیے بڑے حوصلے کی بات تھی۔ پھر مختلف رسائل میں ان کی نظمیں پڑھتے رہے اب ان کا تمام کام’’ ارمغانِ فہمیدہ ریاض ‘‘کی شکل میں شائع ہونا چاہیے ۔یہ بہترین نذرانۂ عقیدت ہو سکتا ہے۔
لندن سے آئے ہوئے بین الاقوامی شہرت یافتہ افسانہ نگار عامر حسین نے کہا کہ مجھے فہمیدہ ریاض کی نظمیں بہت پسند ہیں۔ ان کوانگریزی ، فارسی اور اردو پر مکمل عبور حاصل تھا۔ ان سے مسلسل ملاقاتیں بھی رہی ہیں وہ اپنی گفتگو میں بھی ادبی سماجیات سے منسلک ہوتی تھیں۔
لندن سے ہی آئی ہوئی ممتاز ادیبہ رخسانہ احمد نے کہا کہ فہمیدہ بڑی محبت اور محنت کرنے والی خاتون تھیں جس کا م کا بیڑا اُٹھاتی تھیں اسے پورا کرتی تھیں مجھ سے دوستی تھی میں نے اُن کے تراجم کیے ۔ الفاظ کے استعمال پرہماری بحث بھی ہوتی اُن کا نسائی شعور بہت پختہ تھا۔ ان کی شاعری میں بڑا جذبہ اور ولولہ تھا۔ان کے ادارے وعدہ کتاب گھرسے شائع کتاب ’’خاموشی کی آواز‘‘نسائی شعور پر بہت اچھا کام ہے اس میں شائع فہمیدہ ریاض کے مضمون سے پتہ چلتا ہے کہ اُن کی فیمینزم مغربی فیمینزم سے جدا تھی۔
محترمہ زاہدہ حنا نے کہا کہ فہمیدہ کی شاعری کو بوالہوسی کے دائرے میں لانے کی کوشش کی گئی مگر وہ ایسے ہر دائرے کو توڑتی چلی گئیں۔ غداری کے طعنے بھی سہے۔ فہمیدہ کی رخصت نے ہمیں مفلس کردیا ہے۔ فہمیدہ کو پرواز کے لیے آسمان کی وسعتیں چاہیے تھیں۔
انجمن کی معتمد اعزازی ڈاکٹر فاطمہ حسن نے کہا کہ ہم وہ نسل ہیں جو فہمیدہ کے سائے میں بڑے ہوئے ہیں۔ انھوں نے جو چراغ روشن کیا وہ ادب کی دنیا میں ہمیشہ جگمگاتا رہے گا۔ فہمیدہ سے چار دہائیوں کا قریبی تعلق رہا ہے، ہم ایک دوسرے کی طاقت بنے رہے۔ میری پہلی کتاب آئی تو انھوں نے لکھا کہ میں ان نظموں کو اسی فخر سے دیکھتی ہوں جیسے ماں اپنی بیٹی کو۔وہ نہ ہوتیں تو بعد کی شاعرات اسی حوصلے اور آزادی کے ساتھ نہ لکھ پاتیں جس سے وہ آج لکھ رہی ہیں۔ فہمیدہ جیسی ہستیاں اور ان کا کام اردو ادب کا فخر ہے۔فہمیدہ ریاض اور الطاف فاطمہ کا انتقال ایسے سانحے ہیں جس نے اردو دنیا کو سوگوار کردیا۔
آصف فرخی نے کہا فہمیدہ کے بارے میں کہنا بھی مشکل ہے اور خاموش رہنا بھی مشکل ہے۔ وہ ایک بہترین شاعرہ ہونے کے ساتھ عمدہ افسانہ نگار بھی تھیں۔
محترمہ امینہ سید نے کہا کہ ان کے ساتھ پندرہ برس اکٹھے کام کیا۔خصوصاً بچوں کے ادب پر انھوں نے ان تھک کام کیا ہے اور اس جانب ان کی توجہ غیر معمولی تھی۔
فہمیدہ ریاض کی بہن نجمہ منظور نے کہا کہ فہمیدہ نے اپنی پوری زندگی جدوجہد اور ہمت سے گزاری میں آخری وقت تک ان کے ساتھ رہی اور وہ بڑے سکون سے مسکراتے ہوئے چلی گئیں۔
ممتاز ڈرامہ نگار نورالہدیٰ شاہ نے کہا کہ ہمیں فہمیدہ کی ضرورت ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ ادب میں خاص طور پر خواتین کے لیے ان کاکام با کمال ہے۔ زمین سے جڑے ہر طرح کے دکھ کااظہاران کی نظموں میں ملتا ہے۔ آج جب ہم اپنے اندر خوف سے سمٹتے جا رہے ہیں فہمیدہ جیسی عورت کا ہوناضروری ہے اور ایسے وقت میں ان کا جدا ہونا المناک ہے۔
راحت سعید نے کہا کہ انھوں نے خواتین کے لیے کام کیا۔ میر پور آزاد کشمیر سے آئے ہوئے خواجہ خو رشید احمدنے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا اپنی منفرد آوازکی وجہ سے فہمیدہ ریاض ادبی دنیا میں مختلف شخصیت تھیں۔
محترمہ عطیہ داؤد نے ان کے ساتھ گزاری خوشگوار یادیں بیان کیں اور بتایا کہ فہمیدہ ریاض نے میری شاعری کا ترجمہ کیا تھا۔
محترمہ ریحانہ احسان نے فہمیدہ ریاض پر لکھی اپنی تازہ نظم ’’آنسو‘‘سنائی۔
مجاہد بریلوی نے کہا ان کی شاعری کی گھن گرج کی دھوم تھی۔
ان کی صاحبزادی نے کہا کہ میری ماں عظیم تھیں ان کی پوری زندگی سادہ اور پیاری تھی آخری وقت میں کہتی تھیں میرے بعد سب کا خیال رکھنا اور میری سوچ کو قائم رکھنا کہ امن کی سوچ آہستہ آہستہ اس معاشرے میں جذب ہوجائے۔
ڈاکٹر رخسانہ صبا نے اس موقعے پر ڈاکٹر شاہ مری کی کتاب سے اقتباس پیش کرتے ہوئے کہا کہ فہمیدہ ریاض کا تخلیقی وژن بہت کمال کا تھا۔
باری میاں نے فہمیدہ ریاض کی شاعری اور نثر کو سراہتے ہوئے کہا کہ وہ سچی اور سمجھوتا نہ کرنے والی شخصیت تھیں۔ تقریب کے آغاز میں سید عابد رضوی نے فہمیدہ ریاض اور الطاف فاطمہ کے لیے فاتحہ خوانی کی۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے