سردار یوسف علی خان مگسی کی ریاست میں چند ساعات

نہ شبم نہ شپ پرستم کہ حدیث خواب گویم
چو غلام آفتابم ہمہ آفتاب گویم
یہ امر اگر عالم ہند کو نہیں تو کم از کم دنیائے بلوچستان کو بخوبی معلوم ہے کہ میں نکتہ چیں ہوں، مدحت سرانہیں۔ میرا مسلک خوش آمد کے سرا سر منافی اور حق وصداقت کی حمایت ہے ، اعلائے کلمتہ الحق کی راہ میں ہمیشہ وہ قوتیں مانع چلی آرہی ہیں، دولت وطاقت اور طمع وتعلقات ، ابتک میرے احبار کو اول الذ کر کے متعلق اپنی روش معلوم ہوچکی ہے ۔ الحمداللہ یہ چیز تو اپنے لیے بجائے سنگ راہ کے پرکاہ کے برابر بھی نہیں۔ گزشتہ تین چار برس کے واقعات اس کے بین ثبوت ہیں۔
امر موخر کے متعلق بھی جاننے والے جانتے ہیں کہ حق وصداقت کی راہ میں اپنے قریبی رشتہ دار وں ور عزیز ترین احباب کے ساتھ کیا وطیرہ رہا ہے ۔
ان تمام حالات کے باوجود وہی صداقت کا اصول مجھے مجبور کرتا ہے کہ جس نفس میں خوبیاں ہوں اُسے بیان کرنے سے اس لیے گریز نہ کیجائے کہ لوگ خوش آمدی کہیں گے ۔
دنیا کے اس تاریک ترین گوشہ میں جسے بلوچستان کہتے ہیں خصوصاًاور دنیا میں عموماً حق وصداقت کی حمایت کیلئے جس قدر قوت ایمان کی ضرورت ہے وہ محتاج بیان نہیں۔ اس باب میں ’’یوسف علی خان‘‘ کی حالت پوشیدہ نہیں مگر اکثر نفوس ایسے ہوتے ہیں جو صرف ’’ حمد وثنا کی خواہش سے مجبور ہو کر یا اپنے کسی غرض کیلئے ابتدا میں کم وبیش مصائب کے برداشت کرنے اور تھوڑے دنوں تک طاقت کا مغضوب اور خلقت کا معتوب رہنا گواراہ کر لیتے ہیں مگر لیڈر کہلائے جانے اور مقصد کے برآنے پر ’’ آن قدح بشکست وآن ساقی نماند‘‘کا گیت گانے لگ جاتے ہیں۔ مگر عزیز مگسی ان میں سے نہیں۔
چند روز ہوئے کہ مجھے جَہل جانے کا اتفاق ہوا۔ باوجود اس کے کہ اگر میں اطلاع دیتا تو سردار صاحب مجھے کئی تکالیف سے بچا سکتے تھے مگر ارا دتاً بغیر اطلاع دیے روانہ ہوئے ، موٹر کی سواری اور پھر راہ کی خرابی اور ناوا قفیت کی وجہ سے بعد از ہزار دشواری تین دن کے بعد منزلِ مقصود پر پہنچے ۔
ریاست جہل میں داخل ہونے کے بعد اپنی طبع نقطہ چین سے مجبور ہو کر مرد وزن برنا ؤ پیر حتی کہ بچوں تک سے اُن کے نئے سردار کے متعلق پوچھتا جاتا ۔میری دلی مسرت کی انتہانہ رہی، جبکہ میں نے ان حرمان نصیبوں کو مسرور پایا، تمام ریاست میں سردار صاحب کے نئے اصلاحات از قسم بندش شراب ودیگر منشیات ،تردیج تعلیم اور اصلاح رسوم تمام مگسیوں کو علم تھا اور سب کے سب انہیں پسند کرتے تھے۔
اُس وقت تک ’’ممنوعات شرعی مثلاً شراب نوشی، قما ربازی اور دیگر مسکرات کا استعمال، کشیداورکاشت یا تجارت و ترغیب تمام ریاست کی مسلم آبادی کے لیے ممنوع قرار دیدیا گیا تھا۔ ہندو باشندگان کی درخواست پر انہیں شراب کی کشید اور استعمال کی اجازت دے رکھی تھی مگر کسی مجمع میں یا بطور تشہیر نہیں بلکہ انفرادی طور پر خفیہ۔
وہ اصلاح رسوم کے متعلق ریاست کے قومی نمائندگان کے مشورہ سے نئے نئے قوانین بنوارہے تھے جواسلام اور موجودہ قوانین انسانیت کے قریب ترین ہونے کے ساتھ قومی وملکی حالات کے بھی مناسب ہوں گے۔
تعلیم لازمی نہیں البتہ مفت ضرور کردی تھی یعنی جَہل کے مقامی باشندوں کے علاوہ تمام بیرونی طلبہ اور یتامی وغربا کیلئے کھانا، لباس اور دیگر ضروریات بھی سردار صاحب مہیا کریں گے۔سردار کی خواہش تھی کہ تعلیم کے ساتھ بچوں کو دستکاری بھی سکھلائی جائے ۔ اس لیے ان کی نگاہ جامعہ ملیہ کی سکیم پر پڑنی لازمی تھی اورا غلباً وہاں جامعہ کی شاخ قائم کی جائے گی ، جو ایک نہایت مبارک اقدام ہوگا ۔اُس وقت جھل کے سکول میں 60طلبا تھے۔
ا س کے علاوہ ریاست کے مالیات عدالت اور دیگر شعبہ جات کی نہایت اچھی تنظیم کی گئی تھی۔
تمام بلوچ قبائل میں سردار کی اس قدر تعظیم کی جاتی ہے کہ ملاقات کے وقت وہ ان کے قدموں پر گرتے ہیں، ان کے برابر کبھی نہیں بیٹھتے اور نہ ہی سردار ایسا پسند کرتے ہیں ۔ مگر میرے رفیق نے یہ بھی اُڑادیا تھا، کسی شخص کو اپنے پاؤں پر پڑنے نہ دیتے تھے بلکہ مخلصی کے ساتھ منع کر کے بہت سمجھاتے تھے کہ میں بھی انسان ہوں تمہارے جیسا ہی ۔اور مجبور کر کے ہر ملاقاتی کو اپنے برابر کر سی پر بٹھا تے تھے۔ نیز یہ کہ جس طرح تمام اقوام بلوچ میں رسم ہے کہ قتل ہونے یا دیگر کوئی جرم واقع ہونے پر سردار اور اس کے قبیلے کا معاوضہ دیگر اقوام سے کئی گنا زیادہ ہوا کرتا تھا مگر اس مردِ مجاہد نے اس تفریق کو بھی رواج میں سے اڑا دیا بلکہ جو معاوضہ خود سردار کیلئے ہوگا وہی ہر فرد قوم کیلئے بھی ہوگا ۔
ہماری دعا ہے کہ خداوند کریم اس خدمتِ عظیم اور عمل جلیل کے عوض میرے دوست کو جزائے خیر کے ساتھ توفیق مزید دے اور بلوچستان کے بد نصیب باشندوں کو بہت جلد وہ دن دکھائے کہ ملک میں شجاعت قوم کا جذبہ عام عام ہوجائے۔ اور ان جیسے سردار بہ کثرت ہوں۔
سردار صاحب کے پیش نظر اپنی قوم کو اُبھارنے اور انہیں دولت کے ساتھ زیورِ علم اور کیمیائے ہنر سے مزین کرنے اور ان کی زراعت کو ترقی دینے کے لیے بہت سی اچھی تجاویز تھیں۔خداوند کریم انہیں موقع عنایت کرے۔
مجھے امید ہے کہ میرے یہ رفیق ریاست کی بعض دیگر خرابیوں کی اصلاح انسداد پر فوری توجہ مبذول فرمائیں گے ۔جس میں سب سے زیادہ ضروری رسم بیگار کا قطعی انسداد اور جیل خانہ کی اصلاح ہیں‘‘۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے