نظم

ایک ساحل پر آباد دو سمندروں نے
ایک جڑوا ں خواب دیکھا
جس میں پائے جانے والے باشندوں کا
ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا ممکن تھا
جس کے ہر فرد کے دائیں گال پر موجود تل
ان کی یکسانیت کی علامت تھا
جس سے یکساں خوشبو آتی تھی
اور جس کے باشندوں کے کاندھوں پر بیٹھنے والے فرشتے
ایک ہی طرح سے مسکراتے تھے
جس رات،آمد و رفت کرنے والی ایک کشتی زخمی ہوئی
اور شہر کے تمام درخت جل گئے
اس رات
ایک پھل باقی رہ گیا
جس کی ایک بیج نے
ایک درخت پیدا کیا
اور جس سے بنائی گئی ایک کشتی سے
دونوں شہر پھر سے آباد ہونے لگے
مگر ایک رات
ایک سمندر بیدار ہوگیا
اور دوسرا سمندر خواب میں ہی رہا
اور ایک شہر سے دوسرے شہر جانے والے
واپس آنے میں ناکام رہ گئے

نظم

میں نے ایک نظموں کا قبرستان دیکھا ہے
جس کی ہر نظم سے
ہر رات
ایک کردار نمودار ہوتا ہے
اکثر، ایک نظم سے دو
یا دو نظموں سے بہ یک وقت ایک کردار بھی نمودار ہوتے ہیں

اس قبرستان پر
اس کی ہر نظم نے مل کر ایک نظم لکھی ہے
جس کی تکمیل
نظموں کی جانب سے، عطیہ کردہ ایک ایک سطر سے ممکن ہوئی
مگر تیز ہوا کے جھونکے
ہر بار
اس کی سطروں کی ترتیب بگاڑ دیتے ہیں
اور
اس نظم کا مرکزی کردار
از سر نو
پیدا ہوکر مر جاتا ہے

نظموں کا قبرستان
اس کو
اپنے دامن کی پیشکش کر تاہے
جہاں وہ دفن ہوتا ہے

اس قبرستان کے ہر قطبے پر
ایک ہی کردار کی تصویر موجود ہے
جو ہوا کے جھونکوں کے ساتھ تبدیل ہوجاتا ہے

یوں
وہ نظموں کا قبرستان
خود اپنا قاتل، اور خود ہی مقتول بن گیا

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے