نومبر کایہ شمارہ ہماری مسلسل اشاعت کے اکیسویں سال کا آخری شمارہ ہے ۔
ہم نے اکیسویں برس کے سارے شمارے خصوصی ایڈیشنوں کے بطور شائع کیے۔ اور ان میں سے ہر شمارے کی انچارج ایک خاتون تھی۔۔ یعنی رسالے کا سارا عملہ اُسی انچارج کی منتخب کردہ تحریروں کی ترتیب ہی کے فریم میں کام کرتا رہا۔ ہمارا اگلے سال کے لیے بھی یہی کچھ کرنے کا ارادہ ہے ۔ مقصد یہ ہے کہ لکھنے ،پڑھنے اور چھاپنے میں خواتین بھر پور حصہ ڈالیں۔
چونکہ، یہ خصوصی اشاعتیں تھیں ا س لیے ہم نے رسالے کی تعداد محدود رکھی۔ اور کوشش کی کہ رسالہ باقاعدہ خریداروں تک بہر صورت پہنچے۔ کچھ اضافی پرچے چھپے تو وہ اپنے ریگولر لکھنے والوں اور بزرگ عالموں کو بھیجے گئے۔ اگلے سال بھی ہماری یہی پالیسی رہے گی۔
اس دوران ایڈیٹوریل بورڈ کی دوماہی میٹنگیں متواتر ہوتی رہیں۔ اِس سال ایڈیٹوریل بورڈ کی پانچ میٹنگیں ہوئیں۔ جن میں رسالے کی پالیسی ، تعداد ، ضخامت ، گیٹ اپ ، قیمت اور مارکٹنگ پر سیر حاصل بحث اور فیصلے ہوئے۔
یہ شمارہ ’’نظم ایڈیشن ‘‘ ہے۔اور اس کا انچارج بلال اسودہے ۔
نظم ہمارے وطن میں نسبتاً نئی صنف کے بطور باہر سے آئی مگر اس نے بہت کم مدت میں فنی و فکری لحاظ سے جتنی کروٹیں بدلی ہیں وہ ادب کی کسی دوسری صنف میں دیکھنے کو نہیں ملتی۔ اس رائے کی روشنی میں نظم کو ادب کی سب سے زرخیز صنف گردانا جا سکتا ہے۔
ہماری شاعری پر کپٹل ازم کے گنجلک عالمی بساط سے معاملات کرنے کی بہت بڑی ذمہ داری آن پڑی ہے ۔ موجودہ عصر کے مسائل جس قدر پیچیدہ ہیں ان کی نمائندگی کے لیے ایک ایسی ہی صنف درکار ہے جو اس پیچیدگی سے مکمل طور پر نمٹ سکے ۔ ہماری روایتی ’’دستانغ ‘‘والی شاعری کو ایک تسلسل دیتی ہوئی پھر تیلی لچکیلی ، جھپٹتی ،لپکتی اولاد کی ضرورت ہے ۔ ایسی صنف جو ضرورت کے مطابق طوالت اختیار کرسکے اور جب ضرورت ہو اختصار میں خود کو گوندھ سکے ۔ چنانچہ بے شمار وجوہات کی بنا پر نظم عصرِ موجود کی نمائندہ صنف بن چکی ہے ۔ نظم نے جس طرح اپنی ساخت کو اس دور کی ضرورت کے حساب سے ڈھالا ہے اس کی مثال کسی بھی دوسری صنف سے دینا ممکن نہیں۔
اس تناظر میں نمائندہ صنف کے لکھاریوں کو اکٹھا کرنا اور ان کی تازہ تخلیقات کو ایک ساتھ پیش کرنا یقیناً خاص اہمیت کا حامل ہے۔ ’’سنگت نظم ایڈیشن ‘‘کی ترتیب کے پیچھے یہی سوچ کارفرما تھی۔
’’سنگت نظم نمبر‘‘ آج تک کے تمام نظم ایڈیشنز سے مختلف یوں ہے کہ اس میں پہلی مرتبہ پاکستان او راُس سے باہر کے بڑے اور گرامی نامی شعرا کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے نظم نگاروں کی تخلیقات ایک بڑی تعداد میں شامل کی گئی ہیں جو کہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا ۔وجہ یہ ہے کہ آج بلوچستان کی نظم کو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ فکر اور فن دونوں لحاظ سے ہماراشاعر اپنے خطے اوردورِ حاضر کے تمام معاملات ومسائل سے اپنی پوری تخلیقیت اور ذمہ داری کے ساتھ مخاطب ہے ۔یہ نظم کتنی تازہ اور کتنی اہم ہے اس کی تشہیر لازمی تھی۔ اس نظم ایڈیشن کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ جب کسی اہم ترین خطے میں ادب کی نمائندہ صنف لکھی جاتی ہے تو اس سے کیسی نامختتم بازگشت وجود میں آتی ہے۔ یہ نظم ایڈیشن اسی باز گشت کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کرنے کی ایک کوشش ہے.
اگلے سال ہمارا خیال ہے کہ ادب کی دوسری اصناف پہ بھی ایڈیشن نکالے جائیں ۔