مکران ڈویژن کے حصے بخرے!۔
جام حکومت کی طرف سے مکران ڈویژن توڑنے کی افواہیں ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ گوادر کو کاٹ کر لسبیلہ سے ملا دیا جائے گا اور پھر اِس ساحل کو بلوچستان ہی سے جدا کیا جائے گا۔ یہ تو بہت خطر ناک بات ہوگی۔ اور یہ سراسر غیر آئینی بات ہوگی ۔ایسا کرنا اتنا آسان بھی نہ ہوگا۔ اس کے لیے آئین میں تبدیلی کی ضرورت ہوئی۔صوبائی اسمبلی کی بھی بڑی اکثریت کی رضا مندی درکار ہوگی۔ مگر اس طرح کا تاثر تک عوام میں جانا ہی بہت بھیانک بات ہے ۔ چین کہے یا امریکہ ، خطوں کے حصے بخرے کرنے کا زمانہ لد چکا ہے ۔
گوادر کے ماہی گیر
گوادر کے ماہی گیروں کے لیے روزی کمانے کے سارے راستے بند کیے جارہے ہیں۔کبھی کسی ایکسپریس وے کی تعمیر کے بہانے ، کبھی کوئی اور عذر بناکر۔ صدیوں سے ماہی گیری ہی اِن محنت کشوں کاآبائی پیشہ اور بچوں کے زندہ رکھنے کا وسیلہ رہی ہے ۔ سی پیک وغیرہ کے کسی بھی بہانے سے انہیں سمندر سے جدا نہیں کیا جاسکتا ۔اور اگر ’’ترقی ‘‘ کے بغیر کار کے پیٹ کا درد دور نہیں ہوتا تو پھر یوں کیا جائے کہ تالاب تک نہ رکھنے والے علاقے سے لوگوں کو گوادر میں بسانے کے بجائے انہی سمندری اشرف انسانوں کو سمندری نوکریاں دی جائیں۔۔۔ اور بڑئی نوکر یاں ۔ اس لیے کہ سمندر کے بارے میں ہر طرح کی معلومات اِن کی جینز میں شامل ہیں۔