اس کا اپنا خاندانی اور شخصی پس نظر بھی ایسا ہی تھا۔ اس لیے لوگوں سے فوری دوستی بنانااس کے لیے کوئی مشکل کام نہ تھا۔ وہ شخص آسمان میں نہیں رہتا تھا ،کبھی بڑی بات کرتا ہی نہ تھا۔ وہ عرشی شخص نہ تھا،فرشی آدمی تھا‘ خاک نشیں۔ مٹی سے تعلق،مٹی والوں سے رشتے۔۔۔۔۔۔ نہ اس کے رکھ رکھاؤ میں کوئی دوغلا پن تھا ، نہ گفتگو میں کوئی بڑا پن تھا، اور نہ وضع قطع میں کوئی اجنبیت تھی۔
خدائیداد فی الفور گفتگو میں کوئی مشترک بات تلاش کرلیتا اور یوں تکلف کی ساری دیواریں خود بخود گرتی چلی جاتی تھیں اور آدھ گھنٹے کے اندر اندر دوستی اور اپنائیت پیدا ہوجاتی ۔ ایک اور کمال اس میں یہ تھا کہ وہ اپنے ان دوستوں کو پہلے ہی دن اپنا ایک ہی چہرہ دکھاتاتھا جو آخر تک ایک ہی رہتا ۔اس لیے کہ اُس کے پاس دو چہرے تھے ہی نہیں ۔ اسی طرح وہ اپنے نو آمدہ شناسا سے بھی یہی توقع کرتا تھا۔ البتہ منافقوں کے لیے اس کے گھر کے درودیوار اس طرح کے فلٹر تھے کہ انہیں اندر بہت عرصہ تک جمے رہنے نہیں دیا جاتا تھا۔ ایک ہی نشست میں اپنے کسی چالیس برس پرانے دوست کا مذکر مونث سے ماورا محبوب فقرہ دل میں چست کردیتا:’’جاؤ تمہارا شرافت بھی معلوم ہوگیا‘‘۔اَن دیکھے پسو تھے خدائیداد کے گھر میں منافقین کیلئے۔
ارے ہاں پسوؤں سے یاد آیا۔ خدائیداد کیڑے مکوڑوں،مکھیوں،مچھروں کا دشمن تھا۔ ازلی ابدی،جدی پشتی،دینی،ملی ،قبائلی ،قومی ،ایمانی،ظاہری باطنی دشمن ۔ وہ اُن سے نمٹنے کا ایک پریکٹیکل اپروچ رکھتا تھا ۔ ایک کیڑے کو پشتو میں خٹک کہا جاتا ہے۔ لہٰذا خدائیداد حملہ کے ساتھ قتل شدہ کیڑے کے پیچھے لفظ خٹک استعمال کرتا اورلفظ کے شروع میں خٹک قبیلہ کی زندہ شخصیتوں کے نام کا لاحقہ لگادیتاتھا۔ خٹکوں میں ضیا دور کا سرکاری خٹک تو خدائیداد کو کبھی نہ بھولتاتھا۔ پھر جب زندہ خٹکوں کے نام ختم ہوجاتے تو پھر اُس دنیا میں موجود خٹکوں کا فرمائشی پروگرام چلاتاتھا۔
البتہ یہ عملی انسان مکڑی کوکبھی کچھ نہیں کہتا تھا۔ دلیل یہ تھی کہ مکڑی تو جالا بُنتی ہے۔ جس میں مکھیاں اور مچھر پھنس جاتے ہیں۔اور وہیں مردار( فوت )ہوجاتے ہیں اور پھر جال بچھائی ہوئی مکڑی کی خوراک بن جاتے ہیں۔ لہٰذا وہ اس نیچرل ڈی ڈی ٹی کو نہ صرف یہ کہ نقصان نہیں پہنچاتا تھا بلکہ حتی الامکان اس کی حفاظت بھی کرتا تھا۔
خدائیداد چھپکلی کو بھی کچھ نہیں کہتا تھا۔ وہ بھی اس کے دشمن کی دشمن جو تھی۔
مگر باقی کیڑے مکوڑوں کو تو وہ ٹکنے نہیں دیتا تھا۔ اُس کے پاس ہی ،انہیں شہادت کی منزلوں تک سرفراز کرنے والا’’ مکھی مار‘‘ پڑا رہتا تھا۔ وہ اپنا شکار دیکھ لینے کی تیز حس رکھتا تھا۔اچھا بھلا فلسفہ بول رہا ہوتا ، یا خوبصورت شاعری سن رہا ہوتا ، کوئی بہت اچھی فلم دیکھ رہا ہوتا یاکیسٹ پر اپنی پسند کی موسیقی میں غرق نظر آتا ۔ پھر اچانک اُس کے جسم کے عناصر واجزا پریشان ہوجاتے ۔ وہ مزے لے لے کر ہتھیار اُٹھاتا، آنکھیں گُھس بیٹھیے کیٹرے پر مرکوز ہوجاتیں۔ وہ تاڑ تاڑ کر بہت نرمی‘احتیاط اور پیا رسے شڑاپ کرکے اس کی روح قبض کرتا اور ساتھ میں شہید کا لفظ بول کر سامعین کی موجودگی غیر موجودگی کی پرواہ کیے بغیر اس کی کسی محرم مونث کی شان میں ٹھیک ٹھاک گستاخی کسی بھی زبان میں کردیتا ۔ سکور میں ایک کا اضافہ کردیتا۔ہلاک کردہ مکوڑے کو اسی مکھی مار کے گتے کے تابوت پر لاد کر باہر پھینک آتا ۔ ایسی سرفرازی کے ساتھ، ایسی طمانیت کے ساتھ جیسے کہ دشمن طبقے کا کوئی جاسوس مار آیا ہو۔جنگی سٹریٹجی اور ٹیکٹیک کا ماہر خدائیداد ہر کام یا تو جنگی انداز میں کرتا تھا ،یا پھر فلسفہ کے طریقے سے ۔
وہ ایک دو بلیوں کو برداشت کرتا تھا۔ برداشت چھوٹا لفظ ہے ، وہ تو اُن کے ناز اٹھایا کرتا ۔ چھیچھڑے اور دیگر گُر بہ ای پسندیدہ خوراک (تازہ یا ذخیرہ کردہ )انہیں پیش کرتا رہتا ۔ وہ اُن کے وقار کا خیال ہر وقت محفوظ رکھتا ۔ بہت رکھ رکھاؤ سے ، اوربقا ئے باہم کے اصولوں پر سوفیصد عمل کرتے ہوئے وہ اُن سے مخاطب ہوتا ۔ صرف اس لیے کہ وہ اُس کے دشمن ، چوہوں کے خلاف عزرائیل والا کام کرتی تھیں۔
خدائیداد نے ایک شاندار چھوٹا سا چمن اور ایک پھلواری بنا رکھی تھی ۔اس کی کھاد وغیرہ کا وہ اِن ڈور انتظام کرتا تھا۔ اس طرح کہ وہ فروٹ سبزی کے چھلکوں اور دیگر نائٹروجن والی اشیا کو باہر نہیں پھینکتا تھا ،وہیں بکھیر آتا تھا۔اس پھلواری میں جرینیم ،چنبیلی،گلاب اور متنوع پھول بڑے سلیقے سے گملوں میں یا کیاریوں میں لگے ہوتے تھے۔لان میں نیم کے دو لمبے لمبے درخت تھے جن پر اس نے انگور کی بیلوں کو بڑی فن کاری سے چڑھا رکھا تھا۔ گھاس والا چمن‘ بیٹھنے اور بحث کرنے کی زبردست نشست گاہ تھی۔ اگر کوئی فرشی نشست پہ نہ بیٹھنا چاہتا تو کرسیاں موجود تھیں ۔ لکڑی کی ،کین کی ،لوہے کی ۔ جن کی مرمت بُنائی وغیرہ وہ خود کرتا رہتا تھا ۔
خدائیداد زبردست مستری تھا۔ وہ بہ یک وقت ترکھان بھی تھا‘لوہار بھی تھا۔اس کے پاس گھڑمالہ سے لے کر ہتھوڑی ‘پیچ کس‘ بجلی ٹھیک کرنے کا سامان ، رمبی کھرپی سب کچھ موجود ہوتا تھا۔ وہ سوئی دھاگہ سے لے کر جوتے سینے تک ہر سامان پاس رکھتا تھا۔ وہ ہر چیز کا حکیم تھا۔
ڈاکٹر خدائیداد بلوچستان میں موسمیات کا سب سے بڑا ماہر تھا۔ بارش کب ہوگی،آسمان پہ موجود بادل بے کرامت ہیں یا بارش برسانے والے۔ برف باری کی مقداری کیفیت امسال کیا ہوگی؟۔ کرسمس وہائٹ ہوگی کہ نہیں؟ ۔چاند کی کیا تاریخ ہے؟۔ جنتری میں کیا حساب ہے؟۔ یہ سب باتیں وہ اچھی طرح جانتا تھا۔ انہی معلومات کی بنا پر وہ عرصہِ دراز سے ریڈیو پہ دیہاتیوں کا ایک پروگرام لکھتا رہا جو اپنے روزمرہ کے استعاروں ،ضرب الامثال کے علاوہ اس لیے بھی بہت مقبول تھا کہ اس میں زراعت اور حیوانات کے بارے میں بہت معلومات موجود ہوتی تھیں۔
ریڈیو سٹیشن وہ تقریباً روزانہ جاتا تھا ۔ ایک سائیکل تھی اُس کے پاس۔ خدائیداد یقینی بناتا تھا کہ اُس کی سائیکل کی بریکیں ٹھیک ہوں۔ وہ اپنی سائیکل کو میلا ہونے نہیں دیتا تھا۔ سادہ ،صاف اور ورکنگ کنڈیشن والی بائیسکل۔
وہ ہر روز روز مرہ کاموں سے فارغ ہو کر میک اپ کرلیتا (شیو بناتا)۔ شلوار پوشی کرتا اور واسکٹ پہن کر تازہ بہ تازہ ہشاش بشاش سائیکل پر بیٹھتا ، رخ بہ ریڈیو سٹیشن۔
وہاں چپڑاسیوں، چوکیداروں اور ہمکاروں سے میٹھی باتوں کے تبادلے کے بعد سیدھا لائبریری جا بیٹھتا ۔ چاہ وچلم وہیں تھا، ملاقاتی وہیں تھے ،اور ساتھ ساتھ چو ہے والی فائل میں اُڑسے نیم خاکی رنگ کے کاغذات پر بال پین کے ساتھ اُس روز کے دیہاتی پروگرام کا سکرپٹ لکھتا ۔ وہ ہلکا پھلکا، مزاح آمیز ،شعور وعلم بڑھاتا مضمون لکھتا، جسے اَن پڑھ دیہاتی سمجھ سکیں۔ کچھ سامعین کے لیے یہ پروگرام مزاح میں شمار ہوتا تھا اور کچھ کے لیے یہ دیہی،اور زرعی زندگی کے بارے میں معلومات سے بھر اہوا ۔ کھاد، بیج، موسم،اور آبپاشی اُس کے موضوعات ہوا کرتے تھے۔ پاپولر پروگرام ۔وہیں چپراسی بغیر دودھ والی چائے بنا تا رہتا اور سکرپٹ نویسوں اور اُن کے ملاقاتیوں کو پلاتا رہتا ۔
باتیں کرنے اور باتیں پسند کرنے والا خدائیداد ایک ڈیڑھ بجے اپنے امور نمٹا کر سائیکل سے واپس ارباب کرم خان روڈ پہ واقع اپنے ’’ پریم مندر ‘‘ لوٹ آتا۔
یہاں وہ باورچی گیری کرتا، ڈش واشنگ کرتا ، کھانا پکاتا اور نستعلیقیت کے ساتھ لنچ فرماتا۔ بیچ بیچ میں وہ قیلولہ بھی کرتاجاتا تھا۔ اِس تمام وقت ٹی وی چل رہا ہوتا ، مگر محض وڈیو۔ آواز وہ بند رکھتا تھا۔ اور صرف حسبِ ضرورت ہی اُس کی آواز بلند کرلیتا۔
ساڑھے چار بجے شام تک وہ فری ہوتا۔ البتہ اُس کے مخصوص ملاقاتی ضرورآجاتے کہ سہہ پہر کے اُس ٹائم بھیڑ کم ہوتی اور محفل پُر سکون۔ البتہ کبھی کبھی کوئی اُن جانا سیاسی کارکن بھی آن دھمکتا ۔ اگر اپنا ئیت ہوتی تو شریک محفل ہو جاتا وگرنہ اسے ایک غیر پسندیدہ شخص قرار دیا جاتا جو اُن کی محفل کا جنازہ نکال کر بکواس باتیں کرکے سب حاضرین کی سہ پہر خراب کرنے آیا تھا۔
پانچ بجے کے بعد البتہ وہ ساتھ والے دخانی بابا چوک پر ضرور جاتا ۔ وہاں ’’امان ریڈیو ساز‘‘ کی دکان تھی۔ مگر اب وہاں ریڈیو کی مرمت نہ ہوتی تھی۔بلکہ اب وہاں بے شمار ٹی وی سیٹ پیچ کسوں کی زد میں ہوتے ۔ چھوٹے، بڑے، بلیک اینڈ وہائٹ ، رنگین، الغرض ہر طرح اور ہر سائز کے ٹی وی ۔ امان بہت مزیدار دودھ والی چینکی چائے پلاتا۔ وہ اپنے کام میں مصروف رہتا تھاجونہی کسی ٹی وی کی کان ناک سیدھی کرتا یا ٹانگ بازو جوڑتا تو گپ شپ میں حصہ لیتا۔ ایک دو اور دوست بھی آجاتے۔یہ گپ شپ زیادہ تر براہوی میں ہوتی تھی۔ ورنہ دونوں ہوتے تو پشتو بھی چلتا تھا،اور اگر کوئی اردوئی آجاتا تو بلوچستانی اردو ،رابطے کی زبان ہوتی۔
دخانی بابا چوک کے اُس کے دوست بھی عجب طرح کے لوگ تھے۔ کوئی لنگڑاتھا بیسا کھیوں والا ، یا وہیل چیر والا ، یا تین پہیوں والی سائیکل اور موٹر سائیکل والا۔ کوئی لولا ہوتا، کوئی چرسی ہوتا، کوئی بھنگ والا، کوئی شرابی، کوئی پاک پوتر۔۔۔ یہ گویا ایک جنرل سٹور ہوا کرتا تھا دوستوں کا ۔ مشترک بات یہ تھی کہ وہ سب کے سب آرٹسٹ ہوتے تھے ۔ کوئی خطاط ، کوئی مصور۔ کوئی شاعری سیکھ رہا ہے، کوئی ترجمہ ٹھیک کروارہا ہے ۔ ڈِس ایبل تو بہت کیپ ایبل لوگ ہوتے ہیں۔ دوسری مشترک بات یہ ہوتی تھی کہ وہ سب سماج کے اجڑے ہوئے لوگ تھے، بچھڑے ہوئے، پیچھے رہ گئے لوگ ۔ مگر بہت خود دار لوگ۔
ڈاکٹر خدائیداد اپنے دوستوں میں سب سے زیادہ خوش اور بسیا ر خوراک تھا۔ گوشت ہی کھاتا تھا اور بہت زیادہ کھاتا تھا۔ اسی طرح زندگی کے آخری دن تک اس کی نیند بہت اچھی رہی۔ بیٹھے بیٹھے سو جاتا تھا۔ وہ اپنی اس خوابیدگی کا تذکرہ بھی نازوادا سے کرتا تھا۔ میں’’ خر خوب ‘‘ ہوں ۔(گدھے کی نیند۔۔۔ یعنی بہت جلد اور گہری نیند سوتا ہوں)۔