A dialogue with Dr. Sami
case history.مریض
”۔۔۔یخ بستہ گوریچ تھی باہَر
کاٹ کے رکھنے والی سردی
پَر روح میں پُروائی تھی
اور دل میں اک دُھوپ کِھلی تھی۔
پھر تپتی دوپہریں آئیں،
حبس کا عالَم، لُو چلتی تھی۔
اور قیامت خیز فِضا میں،
دل پہ جیسے برف پڑی تھی۔
رنگوں کے جوہر کو اپنے طور سمیٹا
ہر موسم کو اپنے موسم پہ بَرتا
وقت کے ہر احساس سے عاری
شیزوفرینِک عمر گذاری۔
ہر چہرے، ہر منظر، ہر رستے کو میں نے
آنکھ کے پیچھے ریٹینا کے
جادوئی پردے کی منشا پر دیکھا۔
کالی دوپہروں میں سوئی
روشن راتوں میں جاگی
گدلے تالابوں کو میٹھے چشموں کا
پانی جانا
تپتے صحراوں کو ٹھنڈے،
سایہ دار درختوں والا
جنگل جان کے پار کیا۔
اِس عالَم میں پھر بھی نا آسودہ تھی،
مجھکو ایسے وہم میں چین نہیں آیا۔
حَلَق میں آنسو اب بھی روکے رکھے ہیں۔”
psychiatrist.ڈاکٹر سمیع:
”ہمممم یہ تو ڈارکسٹ ڈیپریشن ہے ادّی جان
ہارمونل اِم بیلینس ہے، جو لازم تھا
اس سَفّاک زمانے میں یہ ہونا تھا
سیر ۔و۔ ٹو ۔نین کو متوازن ہولینے دو
سب کچھ صاف دِکھے گا تم کو
موسم کی سختی، نرمی محسوس بھی ہوگی
رستوں سے بھی دُھند ہٹے گی
چہروں اور رنگوں کے تم پہ راز کُھلیں گے
ذائقوں کا دَرَک بھی ہوگا
یہ جو ”لایعنی” کا ہر پل ماتم کرتی رہتی ہو
اور وجود کے کرب کا ہر پل راگ الاپے جاتی ہو
اِس حالت میں فرق پڑے گا۔”
مریض: ۔
”گر یہ حالت ہارمونل اِم بیلینس کے
باعث ہے ڈاکٹر،
پھر کیوں دُکھ کا چہرہ مجھکو
صاف دکھائی دیتا ہے؟
دُکھ مجھ کو ہر موسم میں محسوس ہوا
دُکھ ظاہر تھا،
دُکھ کا رنگ بھی خالِص تھا۔
دُکھ نے سُکھ کا روپ نہ دھارا۔
دُکھ گر وہم کے تھیٹر کا ڈائریکٹر ہے،
گر یہ دُکھ ہے ریٹینا کے پردے کے
پیچھے روشن،
پھر ایسی بھی گولی کیا دریافت ہوئی
جو اِس دُکھ سے بازی اِسکی لے جائے؟”
ڈاکٹر: ۔
”ادّی میں بھی رستے میں ہوں
شائد کچھ مرہم مل جائے،
شائد دُکھ کی حد کُھل جائے۔”
کاش محبت
جو دُکھ کو چَقمہ دے جائے۔
عشق کی آنکھوں میں گر جی لے
دُکھ خود پر عاشق ہوجائے۔”
The Saperated Lands of Time
نادِم ہیں قافلے تِرے
شرمندہ سارباں
صُبحیں تِری بلاوں کے رنگوں سے ضُوفِشاں
ہر رات قہرِجاوداں
ہر شام بد گُماں
پِیلی ہے خامُشی تِری
پیلے ہیں خاکداں
اے نِیستی کے یار
مرے شہرِ بے اماں
یہ رنج ہائے عُمرِدِلم پیشِ خواب ہیں
خوابوں کے نمکدے تہہِ خاکِ سراب ہیں.
وسائل
سُکھ کے موسم کی نظموں سے
لفظوں کے مُردوں کی بُو پھیلتی جارہی ہے یہاں
جبکہ سازِ بقا کی صداؤں میں محرومیوں،
بیبسِیوں کی آہیں گُھٹی جاتی ہیں
آپ اپنے جگر نوچ ڈالے ہیں عُشّاق نے
پر بھلائی کے وقتوں کی تصویر روشن نہیں
بِحر و بَر کے خزانوں سے ہٹ کر،
بقا کی تمنا کے مارے ہوؤں کے وسائل فقط
جُستُجو کے یہی پھول ہیں
جن کی جانب ترقی کے خواہاں اداروں کی
انسانیت کے بڑے ٹھیکہ داروں کی، نظریں نہیں
اُنکے آقاؤں کو سُود کے کھیل سے
کیونکہ فرصت نہیں
عالمی طاقتوں کی بڑی منڈیوں میں ابھی
خیر کے خواب کی کوئی وُقعت نہیں۔۔۔
رقّاصِ اوّل
جب ازَل کی زُباں کو خبَر بھی نہ تھی
اُسکے لفظوں مِیں جادُو ہے
آواز میں نغمگی
اُس کے دَم سے ہے احساس کی شِعریت کو اماں
جب ازل کی زُباں کو خبر بھی نہ تھی
آپ اپنے سفر کی، کہ اب اُس نے آگے ہے جانا کہاں
ایسے عالَم مِیں یا اُس سے پہلے ذرا
عشق، صِحراؤں کی خامُشی اور سَبزے کی تنہائیوں سے گُزرتا ہُوا
ایک خِطّے مِیں پہنچا جہاں
خاک تھی مہرباں
عشق کی چاپ سُن کر
فضاؤں نے باندھا طِلِسمی سَماں
آبِ گُم کی ہَوائیں کَتھَک کر رہی تھیں تھَرکتی ہُوئی،
اَن سُنے راگ پر
عشق بھی اُن ہواؤں کے سَنگ ہَولِیا
اُس گھَڑی عشق رقّاصِ اوّل بَنا
وہ زمیں تھی یہی جسکی سَنگت ہواؤں کی وارفتگی میں مِحِو جُھومتا
عشق جوہر سے اپنے ملا
خطّہِ آرزو، فن کا ماخذ ہُوا،
اور رَقاصِ اوّل کی بُوڑھی سُفیدی کا مِحرَم بنا
تیری شوریدہ نظموں کا مرکز، مِرے خواب کا آستاں
خاکِ سرمسَتگاں! خاکِ سرمسَتگاں!
Lament For Annihilated Souls
جن آنکھوں نے شفق کی جانب
چلنے والی راہ پہ پلکیں تک نہ جَھپکیں
وہ کیا جانیں
رنگوں کے گُھل مِل جانے سے
وقت کہاں تک جاتا ہے؟
جن بچوں نے لال ٹین کی لَو کی مدھم روشنیوں میں
دیواروں پہ اپنے سائے تک نہ دیکھے
کیا سمجھیں کہ جسموں کے محدود سراپے
سائے بن کے رُوح کی دیواروں پہ کَندہ ہوجائیں تو
عُمر کی زنجیروں کا مَیل، تاریخوں کی کچی بُو
سالوں کی ویرانی کی گَرد میں لپٹے مَیں اور تُو
کیسے گُم ہوجاتے ہیں؟
چرواہوں کے گیت پہاڑی بَل کھاتے
وَل وَل پہ جو نہ سُن پائے
وہ کیا جانیں
محرومی کا بنجر چہرہ، ساز میں کیسے ڈھلتا ہے
تِشنہ لبی کی اور کمی کی لذت کیسی ہوتی ہے؟
آبلُو
کوئی نو سال ہوتے ہیں
گُوادر کے سحرِساحل پہ میں نے
سیپیاں چنتے ہوئے اک چیز دیکھی تھی
کسی آدینک* کی مانند چمکیلی
کرسٹل کی طرح شفاف سی نازک
وہاں ساحل پہ میں نے کھیلتے بچوں سے یہ پوچھا
”منی دستا اے چی یے؟”
’’یہ کیا ہے ہاتھ میں میرے؟‘‘
وہ بولے،
’’ارس یے ادّا
ایشا ما آبلو گشان اِدا‘‘
یعنی۔ ’’یہ آنسو ہے
اسے ہم آبلُو کہتے ہیں باجی‘‘
میری حیرت کو جانچا اور بولے
’’دریا ہم کدی گریواں
ترا باور نہ بی زاناں
بچار دریا وتی ارساں
تیابا کئیت شَنزی رَوت‘‘
’’سمندر رویا کرتا ہے
یقیں نہ آئے تو دیکھو
سمندر اپنے آنسو ساحلوں پہ چھوڑ جاتا ہے”
میں ساحل پر وہی آنسو لیے
بیٹھی رہی گھنٹوں
یقیں کا اور گماں کا پھر کوئی
امکاں نہ تھا باقی
سمندر اپنے بچوں کی
تباہ حالی پہ جب روئے
تو پھر طوفان آتے ہیں
کبھی آنسو بھی بکتے ہیں؟
سمندر بیچنے والے
یہ کوتاہ فہم تاجر، حِرص کے مارے
یہ بس طاقت کے متوالے
ہمیں اتنا بتادیں
آبلُو کے دام کتنے ہیں؟
(آدینک۔ آئینہ/شیشہ)
When I grew wings to fly with you
تمھارے ساتھ اڑنے کو جو پر کھولے
تو میرے اس وجودِخستہ و بے طور میں
محسوس ہوتی تھیں،
ملائم کانچ کی چبھتی ہوئی وہ کرچیاں
جو ذات کے پرہول لیکن دلربا رستوں سے ہوتی،
انتڑیوں تک اترتی جارہی تھیں..
اذیت ناک و فن کارانہ باریکی سے مجھ کو
چیرتی معلوم ہوتی تھیں..
میں اپنے پر نہیں پھیلا سکی سنگت!۔
تمہیں تنہا ہی اڑنا تھا،
سفر کے واسطے دیری ہوئی جاتی تھی تم کو بھی.
اماں میں راستوں کی تم کو رہنا تھا،
سپردِباد کر آئی تمہیں آخر
کہ میری معنویت کا یہی واحد قرینہ تھا
کہ شاید کانچ کے ٹکڑوں نے
میرا وقت جینا ہے..