بوریت
خواب کے دستخط کیے تکیے
رات کے پاس ایک بستر پر
رکھ دیئے اوڑھ کر تری چادر
میں پھر آج شب نہیں سویا!
صبح چڑیوں کی گفتگو سے ہوئی
دوپہر کام کر کے تھک سی گئی
شام کافی کی تلخ چسکی میں
بوریت فلم سے مٹائی گئی
نظم نے حوصلہ بدن کو دیا
اور امید اک کہانی نے
چین پھر بھی کہیں نہ مل پایا!۔
ناقابلِ اشاعت
میری یہ نظم شائع نہیں ہو سکتی
یہ اشاعت کے قابل نہیں
اِس میں شامل ہے گہرا دکھ
ہم سب کا مشترکہ دکھ
جسے محسوس کیا جا سکتا ہے
بیان نہیں
احتجاج اور مذمت اِس کے لفظوں میں
نعرہ زن
آنسو اور آہیں اِس کا دریا
سطح پر بہہ جاتی ہے سسکی لیکن
میں یہ نظم دیوار پر کیسے لکھوں
کہ ہر دیوار ہوئی ہے بہری
اب یہ پیسوں کا
چند ٹکوں کا
کھوکھلا گونگا اظہار ہو گئی ہیں محض
اِن پر لکھا کوئی نہیں پڑھتا!۔
میں یہ نظم درد کے سمندر میں
پھینک دوں گا
یا ٹکڑے ٹکڑے کر دوں گا
یا جلا دوں گا
میں اِسے شائع نہیں ہونے دوں گا
ہرگز نہیں
شائع ہوگئی تو شریک ہو جائیں گے
اِس میں سب
محبت کرنے, جاننے اور سمجھنے والے
سب کے سب
پھر بھی میں لکھوں گا ضرور
کہ نظم ہی ہے میرا احتجاج
مذمت
اور نعرہ
میں خاموشی اور کھلے اندھے پن کے ماحول میں
ایک نظم لکھوں گا ضرور!
سنگاب کا المیہ
ہماری نیندیں ورق الٹنے کے انتظار میں
چپہ چپہ بھٹکتی چلی جا رہی ہیں
تم نے دیکھا نہیں
ان کے ہالے میں لفظوں کا لہجہ
درد کے جبر میں
کچھ پلے کارڈ تھامے
قریہ قریہ
دیے سے دیا
یہ جلائے
بس تواتر سے بڑھتی چلی جارہی ہیں
‘سرگنگ زار ہوس’
ان سے ڈرتے ہیں سب
پاس آتے نہیں
کہ بھٹک جائیں ان کی طرح
سنگ و آتش کی درماندگی کے کھنڈر میں
مبادا کہیں ان کے سائے
ان کی برفاگ سے کٹ گریں نہ یہ باہم دگر
لجلجی آرزو کے کنائے
ایسے آتش تغاروں کی جانب
نہیں کوئی دیکھے!
نہیں کوء دیکھے!!
(عطا شاد کے لیے)
یاد دہانی
اُس رات
وہ چور دروازے کے پیچھے کھڑا تھا
اُس نے دَرز سے دیکھا
کمرے میں حقیقت ننگی کھڑی تھی
اگلی صبح کپڑے پہن کر
جب وہ دفتر کی طرف جانے لگا
تو اس نے خود سے کہا:
’’میں غلط بھی ہوسکتا ہوں‘‘
شام کو اُس نے یہ بات فریم کرکے
کمرے کی دیوار پر لٹکا دی!
بھوک
بدن کی خاک میں
جب بھوک کا پودا لگاؤ تم
تو اس کی آبیاری کے لئے بے حد ضروری ہے
زباں پر قفل خاموشی لگا لینا
انا کے زہر کو پینا
اور اپنی آنکھ کے چشمے سے
کچھ پانی کما لینا
یہ ممکن ہو تو ممکن ہے
یہ پودا رشد کر جائے
یہ پودا بار و بر لائے
رگوں میں روشنی دوڑے
نظر میں آگہی مہکے
تمھیں معلوم ہو شاید
بدن کی بھوک پر قدغن لگانے سے
خدا کی بھوک دل میں سر اٹھاتی ہے
شام کنارے
تنہائی آسیب میں لپٹی
اک ویران حویلی ہے
اس کی دیواریں اکتاہٹ سے نڈھال
گرنے کی حسرت میں کھڑی ہیں
اونگھ میں ڈوبے دروازے پر
اک بوسیدہ سی تختی آویزاں ہے
جس پر اک مدقوق سا جملہ لکھا ہے”
”سوچ پرانی ہو جاتی ہے”
جب میں اندر جاتا ہوں
حد نظر تک باغ کا اک منظر گویا
اجلے پانی کے چشمے ہیں
گھنے درختوں کی زلفوں سے
شوخ ہوائیں خوشبو کی کلیاں چنتی ہیں
اور پرندوں کی چہکار
بے سمتی کی لہروں پر بہتی رہتی ہے
حیرت مجھ سے ہاتھ ملا کر کہتی ہے:
”آنکھ پرانی ہو جائے تو
ہر منظر بوسیدہ ہونے لگتا ہے
تنہائی باہر سے کیا ہے
تنہائی اندر سے کیا ہے
تنہائی میں آکر دیکھو!”
شانتی
کیا تم اپنی خاموشی کو آئینہ بنا سکتے ہو؟
جب کوئی تمھارا قد چھوٹا کرنے کے لئے
ذات کی بوسیدہ سیڑھی استعمال کرتا ہے
یا گفتگو کے دوران
تمھارے سچ کو منسوخ کر کے
اخلاق کی قبر پر ضد کا جھنڈا گاڑ دیتا ہے
جب کوئی مسکراتے ہوئے
تمھارے قدموں کے قریب ایک بدبودار لکیر کینچھتا ہے
”آگے مت بڑھو”
یا مذاق کے پردوں سے
تحقیر کی عینک صاف کرتا ہے
کیا اس غیر جمالیاتی موقع پر
تم اپنی خاموشی کو آئینہ بنا سکتے ہو
اگر ہاں!
تو تمھیں غصے کے ساتھ ہنسی ضرور آئے گی
شانت رہو
اور تماشا دیکھو
حیرت
میں نے اپنے کینوس پر
رنگوں کے ان گنت جال بچھائے
لیکن زندگی ہر بار
بھاگنے میں کامیاب ہو گئی
میرے کباڑ خانے میں بے شمار کینوس پر
قدموں کے نشان ثبت ہیں
اُن قدموں کا پیچھا کرتے کرتے
آج میں ایک خالی کینوس کے سامنے کھڑا ہوں
میری عمر بھر کا حاصل
خالی کینوس ہے
وسوسہ…۔
انا غصے کو اپنا دودھ پلاتی ہے
جب وہ بالغ ہو جاتا ہے
تو اسے پاس بلا کر کہتی ہے:۔
”تم انتہائی بد صورت ہو
آدمی تمہیں دیکھتے ہی بھاگ جائیں گے
میں تمہیں ایک نظر فریب نقاب دیتی ہوں
جواز کانقاب!
آدمی کے دل میں قدم رکھنے سے پہلے
160تم اسے اوڑھ لینا
جب شکار کی آنکھیں جواز میں الجھ جائیں
تو تم چپکے سے قینچی نکال کر
زبان کی لگام کاٹ دینا
کام ہو جائیگا۔ ”
چپ کا سرمہ
اُس نے مریض کی نبض ٹٹول کر
گھمبیر لہجے میں کہا:۔
”میں تمھارے لئے
چپ کا سرمہ تجویز کرتا ہوں
یاد رکھو!
جب زبان بہت دراز ہو جائے
تو آنکھیں کُند ہو جاتی ہیں
وہ دیکھو!۔
درخت کی شاخ پر بیٹھا پرندہ
کچھ بول رہا ہے!”۔
ذخیرہ اندوزی
ساری خرابی
غم کو پرے دھکیلنے اور
خوشیوں کو سمیٹنے سے پیدا ہوتی ہے
پھول گل دان میں کب تک تر و تازہ رہ سکتا ہے؟
وقت جادوگر ہے
جو ہر شے پر بوسیدگی پھونکتا ہے
”کیا کہا؟
تم ہمیشہ خوش رہنا چاہتے ہو!۔
کیا تمھیں وقت کے قدموں کی آھٹ سنائی دے رہی ہے؟
ارے سنو!۔
تم کہاں بھاگ رہے ہو!۔
میری مانو تو
یہ ذخیرہ اندوزی چھوڑ دو
وقت تمھارا پیچھا نہیں کرے گا
تب ممکن ہے
بے وقتی تمھیں اپنا چہرہ دکھائے
جو ہمیشہ تر و تازہ رہتا ہے
ارے سنو تو!!”۔
نظم
ذھن کی سبزی منڈی میں
دن بھر لفظوں کی اک بھیڑ لگی رہتی ہے
لنگڑی لُولی اور اپاہچ باتیں بھی
پچھلے دروازے سے اندر آتی ہیں
رستے شور کے کیچڑ سے بھر جاتے ہیں
ایسے میں اک ڈرا ہوا معصوم سا بچہ
دن بھر میرا پیچھا کرتا رہتا ہے
رات کو سونے کے بستر میں
جبکہ نیند ابھی رستے میں ہوتی ہے
وہ چپکے سے آجاتا ہے
اور سماعت کے ساکت گہرے پانی میں
خاموشی کے دو قطرے ٹپکا جاتا ہے
”دیکھو مجھ کو بھول نہ جانا”
”دیکھو مجھ کو بھول نہ جانا”