کیا حکم ہے میرے آقا

سنو لوگو !۔
مرے ہاتھوں میں جادو ہے
مَیں دن کو رات کر سکتی ہوں اور سورج کو چھو منتر
تمہیں یہ سن کے بھی ہیبت نہیں ہوتی
تمہیں وحشت نہیں ہوتی
لو پھر تیار ہو جاؤ
تمہیں حیران کر دوں کیا
تمہیں رستہ بھلا دوں گھر سے مسجد کا
تمہارے من کے مندر میں ابھی گھنٹی بجا دوں کیا
مَیں اس خالی لفافے کو ہواؤں میں اُڑا دوں کیا
کبوتر سا بنا کر سامنے اس بالکونی میں بٹھا دوں کیا
کبوتر کو کبھی تتلی ،کبھی جگنو بنا دوں کیا
ہنسو مت ،چپ۔۔
میں اس چھوٹے سے کوزے میں سمندر سارے بھر دوں کیا
یہ کیسا گھور کلیگ ہے تمہیں اس کی خبر دوں کیا
تمہیں، ہاں تم جو مڑ کر دیکھتے رہتے ہو تم کو آج پھر بندر بنا دوں کیا

چلو تم ہی بتاؤ کون سا کرتب دکھاؤں مَیں
کہ دن میں رات ہو جائے
ابھی برسات ہو جائے
چلو پھر آج اس سورج سے دو دو ہاتھ ہو جائیں

نہیں چونکے
مَیں تم کو پھر ڈرا دوں کیا
وہ دیکھو سب کو الٹا کر دیا جو سیدھا چلتے تھے
لو اب تو سر کے بَل چلنے لگے ہیں سب
مجھے تم عام مت سمجھو
میں سب کچھ بانٹ سکتی ہوں
تمہیں گاڑی دلا دوں کیا
کرینہ چاہیے ؟ اچھا

ہاں یاد آیا
جو آدھا سیب کھایا تھا
مگر اتنی ی ی ی سزا پائی
اسی سے، ہاں اسی آدھے کٹے اک سیب سے تم کو
اسی جنت کے سب منظر دکھا دوں کیا
تمہاری روح کو کھینچوں
تمہارے ہاتھ شل کر دوں
تمہاری آنکھ کو اندھا
تمارے کان کو بہرہ
ارے ے ے ہا ہا !!۔
ابھی سے ڈر گئے ہو کیا
ابھی تو کھیل جاری ہے
چلے آؤ
مِرے خیمے میں آجاؤ
نیا سرکس ابھی کچھ دیر میں آغاز ہوتا ہے

غنودگی

زمین کیوں کر
یوں اپنے محورسے تِپکا تِپکاسرک رہی ہے
خلا میں نیلے بگولے بن کر فلک کی جانب کیوں اٹھ رہے ہیں
کیوں لال ،پیلی ،عنابی پریاں
گلابی جھولوں میں جھولتی ہیں
یہ ٹھنڈے سورج نے گم فضا کو کیوں اپنی بانہوں میں بھر لیا ہے
یہ گول پہیہ نہ جانے کیسے عجیب سازوں پہ ناچتا ہے
کیوں کہکشاؤں میں کوئی چھپ کر ستار ایسے بجا رہا ہے
سمندروں کی لہر لہر پر جو راگ لکھ کر سنا رہا ہے
دھواں دھواں ہے
یہ کیا نشہ ہے
جوقطرہ قطرہ ٹپک رہا ہے
کہ چپ غنودہ سی شب میں کوئی
ہزار قصے سنا رہا ہے
ہزار جگنو نچا رہا ہے
یہ تم ہو بھیتر؟
کہ جس نے آکر
تمام منظر بدل دیا ہے
میرے نفس کے تمام دھاگوں میں ساز کیسا یہ جڑدیا ہے
میرے بدن کے تمام ذروں میں عطر کیسا یہ بھر دیا ہے
یہ کس بنارس کے گھاٹ پر ہوں
کیوں بے وجہ ہی دیے جلا کر میں بہتے پانی پہ رکھ رہی ہوں
یہ ذائقہ سا جو چکھ رہی ہوں
نیا نیا ہے
یہ واہمہ ہے ؟
کوئی خد ا ہے
جو کہہ رہا ہے
عظیم شاعر کی شاعری میں
مفہوم ’عنقا‘نہیں رہا ہے

 

خامشی متن ہے

زندگی نظم ہے
جس میں لفظوں کے کیکٹس اُگے ہر طرف
اور معنی میں دھوکے کا زہریلا رس
لفظ و معنی کے بیچ
خامشی ہے چھپی
خامشی بھید ہے
بھید نے سب ڈھکا
اس میں سب ہے چھپا
وہ خدا یا ہوا

اس میں حیرت بھری
اس میں معصومیت
اس میں غیبی صدا
اس میں جنت کے پھول

اس میں گردش کے پہیے کی گڑ گڑ کا شور
اس میں ناچے دھما دھم کی تانوں پہ مور
ہے یہی شاعری باقی کاغذ کا بھور

مَیں نے زندگی ڈوبتے سورج سے سیکھی ہے

کوئٹہ میں شام ہزاروں رنگ لیے ڈھلتی ہے
سرمئی،سرخ ،مالٹائی ،اودی ،دھانی اورجامنی رنگوں کا فیوژن
آسمانی رنگ کواور گہرا کر دیتا ہے
یوں لگتا ہے دھنک پھیل کر چھتوں پر گرنے لگی ہے
پرندوں کی آخری اڑانوں کی سر مستی ہی اور ہوتی ہے
گلابی منظر کی موسیقی ماحول کو اور خواب ناک کر دیتی ہے
سورج پھسل کر جب چلتن سے نیچے گر جاتا ہے
تو زرغون،مردار اور تکتو آسمان کو اپنے کندھوں پر اٹھا لیتے ہیں
آسمان کی ململی چادر تینوں اطراف سے ڈھلکنے لگتی ہے
مَیں ہوا کی تاروں پر انگلیاں رکھتی ہوں تو سرمدی ستار بجنے لگتا ہے
پرندے جاتے جاتے کچھ آیتیں فضا میں چھوڑ جاتے ہیں
آخری دستخط ہوتے ہی
سیاہی کی بوتل الٹ دی جاتی ہے
الوہی کوڈز مغرب کی اذانوں میں کھلتے ہیں

گیان دھیان

میری پوریں غیبی سازینے کے تاروں کو چھیڑتی ہیں
تو رنگ و نور کی گٹھڑیاں زمیں پر گرنے لگتی ہیں
چاند اپنا چہرہ آسمان کی طرف اٹھا لیتا ہے
اس کا عکس جب آسمان سے ٹکرا کرجھیل میں منعکس ہوتا ہے
تو ہوائیں کتھک کرنے لگتی ہیں
جب تھک جاتی ہیں
تو قدیم پیڑ دیوتا کے قدموں سے لپٹ جاتی ہیں
رات رینگتے رینگتے میری آنکھوں تک آجاتی ہے
گیان دھیان نیند کی چادر اوڑھ لیتا ہے
غیبی سازینے خاموش ہوجاتے ہیں
فرشتے اُونگھنے لگتے ہیں
کائنات آخری ہچکی کاانتظار کرنے لگتی ہے

مجھے ڈرانا آسان نہیں

مَیں ہمیشہ ہریالی کی طرف دیکھتی ہوں
میری نظر خشکابوں میں پانی بھر دیتی ہے اور بیابانوں میں
درخت لگا دیتی ہے
اجاڑ زمینوں سے ابلتے چشمے اور سنگلاخ چٹانوں سے بہتے جھرنے
میرا ایمان ہیں
رات کی کالک چیرتی لکیر، میری سفیر ہے
مجھے آنسو میٹھے لگتے ہیں اور مسکراہٹ نمکین

مجھے ہرا نا آسان نہیں
زمینی خداؤں کے لیے میں آہنی دیوار ہوں اور آسمانی خدا
اکثر مجھ سے مشاورت پر مجبور ہو جاتا ہے

مجھے گرانا آسان نہیں
میرا ماتم ،زلزلے اور لاوے کی طرح
خون میں لتھڑی
ان زمینوں کو مسمار کرنے کے لیے ہے
جن پر زمینی خدا ناز کرتے ہیں
تمہیں مجھے میرے قہقہوں سے ناپنا ہوگا
جو مَیں لکھی گئی تقدیر پر روز لگاتی ہوں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے