سیل
خاموشی ہے لیکن نام نہاد خموشی
گھڑی کی سوئی ٹک ٹک کرتے کان کا پردہ پھاڑ رہی ہے
دل کی دھڑکن شور مچا کر ذہن پہ پتھر مار رہی ہے
بے چینی ہے
جسم کے خلیے اک دوجے کو نوچ رہے ہیں
زخم ہیں جن پر مرہم بھی اب زہر لگے ہے
تنہائی ہے
رات اندھیری چھائی ہے
اور آنکھوں سے نیند اڑی ہے
اندر آگ میں جلتا اک مایوس بشر ہے
باہر خواب کی سیل لگی ہے
چہرہِ الفت
نیلی جھیل سی گہری آنکھیں
ان آنکھوں میں خون جما ہے
خواب کسی میت کے جیسے
تیر رہے ہیں پتے بن کر
رخساروں پر جیسے شعلے
دیپ کی صورت دہک رہے ہیں
نرم گلاب سے ہونٹ ہیں جن پر
خاموشی کا قفل پڑا ہے
ہاتھوں میں زنجیر بندھی ہے
پیشانی پر لفظ ”محبت”
کوئی لکھ کر بھول گیا ہے