تم بالکل ہم جیسے نکلے
اب تک کہاں چھپے تھے بھائی
وہ مْورکھتا، وہ گھامڑ پن
جس میں ہم نے صدی گنوائی
آخر پہنچی دوار تمہارے
ارے بدھائی، بہت بدھائی
پریت دھرم کا ناچ رہا ہے
قائم ھندو راج کرو گے؟
سارے الٹے کاج کرو گے
اپنا چمن تاراج کرو گے
تم بھی بیٹھے کرو گے سوچا
پوری ہے ویسی تیاری
کون ہے ہندو کون نہیں ہے
تم بھی فتوے کرو گے جاری
ہوگا کٹھن یہاں پہ جینا
دانتوں آجائے گا پسینہ
جیسی تیسی کٹا کرے گی
یہاں بھی سب کی سانس گھْٹے گی
کل دْکھ سے سوچا کرتی تھی
سوچ کے بہت ہنسی آجائی
تم بالکل ہم جیسے نکلے
ہم دو قوم نہیں تھے بھائی
بھاڑ میں جائے شِکھشا وِکھشا
اب جاہل پن کے گْن گانا
آگے گڑھا ہے مت دیکھو
واپس لاؤ گیا زمانہ
مشق کرو تم آجائے گا
اْلٹے پاؤں چلتے جانا
دھیان نہ من میں دْوجا آئے
بس پیچھے ہی نظر جمانا
ایک جاپ سا کرتے جاؤ
بارَم بار یہی دْہراؤ
کیسا وِیر مہان تھا بھارت
کتنا عالیشان تھا بھارت
پھر تم لوگ پہنچ جاؤ گے
بس پرلوک پہنچ جاؤ گے
ہم تو ہیں پہلے سے وہاں پر
تم بھی سمے نکالتے رہنا
اب جس نرکھ میں جاؤ وہاں سے
چِٹھی وِٹھی ڈالتے رہنا
ہمر کاب
اس گھڑی کو سلام!۔
تجھ سے جو جوڑتی ہے ہمیں!۔
شعر کی اس کڑی کو سلام!۔
اشک پیتے ہوئے ، گنگناتے ہوئے
زخم کھاتے ہوئے مسکراتے ہوئے
کچھ سنبھتے ہوئے لڑکھڑا تے ہوئے
پیش پا قافلے!۔
ہم ترے ہمر کاب
اس شہر میں
اس شہر میں، میں اجنبی یوں تو نہ تھی میرے خدا
اس کی زمیں ،اس کے فلک ، اس کی ہوا کو کیا ہوا؟
پہچان میں آتا نہیں، پہچان بھی پاتا نہیں مجھ کو کوئی
بدلا ہوا سارا آسماں
بے روشنی اتنی مگر کچھ بھی نظر آتا نہیں
گھر تھے یہاں
رہتے تھے جن میں کچھ مکیں
اک پیڑ تھا اِس جاکھڑا
جھولا پڑا تھا ڈال پر
اک دوست رہتا تھا یہاں
کیوں مٹ گئے سارے نشاں؟
اب تو فقط ہر موڑ پر ہر گام پر
بازار ہے ، بازار ہے ، بازار ہے
بازار میں ہر روز عید
سستی فروخت، فوری خرید
میلے دکاں داروں کے ہیں
اشیاء کا جوبن ہے عیاں
چھڑ کاؤان کے صحن میں ، خوشبو لٹاتا موگرا
پھر شور اٹھا نا گہاں
لولڑ پڑے گا ہک نئے
خنجر چھری پستول نکلے، بم پھٹا، پھیلا دھواں
دوڑ اپولس کا آدمی ، سیٹی بجی
بازار کے اوپر تنا ہے آسماں نیلم جڑا
اُبھری سمندر سے ہوا
نکلا ہے تارا شام کا
اور چاند ہے پیلا پڑا
بازار کے اندر مگر فرصت کسے، دیکھے اِدھر
ساگر کے تٹ چھا گیا ، سانسوں کی حد تک آگیا
جو ہر طرف بازار ہے
بازار ہے ، بازار ہے