آخری نصیحت
کیا تمہیں یاد ہے نصیحت وہ
تم نے کچھ سال پہلے مجھ کو کی
”اپنے خوابوں کا گھر جلا دو تم
اور حقیقت میں گھر بسا لو تم
کیا تمہیں اور کوئی کام نہیں
یوں ہی بے کار پھرتے رہتے ہو
میں ترا پھول تو نہیں بھنورے
گرد سو بار پھرتے رہتے ہو”
میں نے بھی مان کر نصیحت وہ
پا لیا آج اس حقیقت کو
تیرا بے کار گھومنے والا
بر سر _ روزگار ٹھہرا ہے
اپنے خوابوں کا گھر جلا کر اب
اس نے بھی ایک گھر بسایا ہے
میری بھی تم سے اک نصیحت ہے
زندگی بھی تو اک حقیقت ہے
تم بھی خوابوں کا گھر جلا دو نا
اب حقیقت میں گھر بسا لو نا