شہر آشوب،اوستہ شہر کے نام
بے اماں شہر سن
بے کساں شہر سن
تیری فریاد سنتا نہیں کوئی سن
سن ترے گود میں کتنے ڈاکوں پلے
کتنے لوگوں کے اسباب لوٹے گئے
کتنے قاتل اٹھے تیری دہلیز سے
کتنے مقتل یہاں پر سجائے گئے
شہر محکوم سن
شہر مظلوم سن
سارے انصاف کے در یہاں بند ہیں
ظلم کی جبر کی انتہا ہوگئی
کیا ترے باسیوں سے خطا ہوگئی
چین سے سانس لینا بھی دشوار ہے
زندگی بوجھ بن کر سزا ہوگئی
شہر مقہور سن
شہر رنجور سن
تیری آشوب حالت پہ کیا کیا لکھوں
تیری قسمت میں لکھی ہیں بربادیاں
صرف محرومیاں اور مایوسیاں
تیری تعمیر کے کام سب بند ہیں
جو بھی آتا ہے بھرتا ہے وہ جھولیاں
عنوان ” وقفہ ”۔
میرے دستِ مقدر پہ یہ گامزن
مدتوں آفتوں سے گزرتی رہیں
میرے دکھ درد میں یہ بھی شامل رہیں
انگلیاں تھام کر میرے خوابوں کی یہ سنگ چلتی رہیں منزلوں کی طرف
میری آنکھوں نے جو کچھ نہ دیکھا ابھی
مثل آئینہ مجھ کو دکھاتی ہیں یہ
وہ سبھی گیت جو میں نے لکھے نہیں
وہ مجھے گنگنا کر سناتی ہیں یہ
بھید جیون کے مجھ کو بتاتی ہیں یہ
ان کو بھی تو خدا نے عطا کی زباں
میرے ہاتھوں کی ریکھائیں گونگی نہیں
آج خاموش ہیں…
‘لاتعلق”
آسیب زدہ اک پیڑ سے اڑ کر آیا تھا وہ سہما سہما ایک پرندہ
اس کو ہم نے دل کے پاک شجر پر چھوڑا
,پیار کیا,
جب اس کے سارے پر نکلے تو,
چھوڑ کے دل کے پاک شجر کو پھر سے واپس لوٹ گیا اک تاریکی کے جنگل میں,
لیکن وہ نادان پرندہ کیا جانے
اس پیڑ کا سایہ آسیبوں سے پاک نہیں تھا,
مر جائے گا,
ایک پرندہ تاریکی میں آخر کب تک اڑسکتاہے